ایسی تو کوئی بات نہیں کہ ہم مصروف رہتے ہیں
قیامت ہم پہ کر گُزرے کہ اب محذوف رہتے ہیں
غضب برپا بھی ہوگیا، تشدد کی تو انتہا ہے
ستم ایسے ڈھائے ہے کہ اب ماؤف رہتے ہیں
مری روح مجروح ہوگئی اُس بےفا کے بندھن میں
وفا ایسی نبھائی ہے کہ اب معروف رہتے ہیں
عجب ہے رنگ دلگی کے کبھی ٹوٹا کبھی بکھرا
کلیجہ ٹوٹ نا پائے کہ اب محذوف رہتے ہیں
عمر بھر آزمایا ہے مجھے میرے پیاروں نے
خطا فقط اتنی ہے کہ ہم مکشوف رہتے ہیں
بہت دُشوار ہے عاجز یہ رسماً مسکرانا بھی
اچھا ہوں یا بُرا لیکن کہ ہم موصوف رہتے ہیں
الف عاجز ایثارؔؔ
کلسٹر یونیورسٹی سرینگر