آرزو کرتا ہوں رب سے مجھے ایسا گُفتار ملے
قبولیتِ دُعا مل جائے زُباں کو یوں رفتار ملے
سنبھلنا دکھاتے ہے لوگ اِک ذرے دکھ کا
سنبھلنا آنا ہو جب کوئی تُجھ سا دلِ فُگار ملے
کیا رقیب نے ہم کو بے چین و بے قرار
خود کو آیا سکوں جہاں بھی تیرے آثار ملے
امنِ احساس ملتا ہے تیرے وصل پہ ایسا کہ
جیسے شجر کو ہوتا ہے جونہی اُسے بہار ملے
الٰہی سے مانگتے ہے لوگ نجاتِ دُشمنِ زماں
مجھے تو آپ یارِ قریں سے ہی یہ اُفکار ملے
فاحد احمد انتہا
واگہامہ بجبہاڑہ