میں دل میں کیا بسا کر کُھو گیا ہوں
نہ انساں رہ گیا ہوں، کُھو گیا ہوں
محہر میں ہار بیٹھا ہوں خُدا کو
کبھی تھا سر سجدوں،، کُھو گیا ہوں
نہ دُنیا کی فکر اب ہو رہی تھی
جہاں سے دور ہو کر کھو گیا ہوں
کھِلی تھی دھوپ بھی ہاں میرے آنگن
مگر چھا وں کی عادت کھو گیا ہوں
جسم کو چھوڑ کر میں روح گیا ہوں
مگر اب یاد آیا کھو گیا ہوں
ہزاروں میل چل کر تھا میں واقف
کہ لمحوں کے سفر میں کھو گیا ہوں
لکھا تھا سال برسوں اک غزل کو
قصیدوں میں قلم کو، کھو گیا ہوں
کبھی سج کر گلی کا شاہ بنا تھا
رفُوِ سُو صدی میں کھو گیا تھا
بتا انسان تیرا کیا ارادہ
لکیروں کے طلاطم کھو گیا ہوں
ہزاروں تیخ لے کر نہ ڈراووُ
میں مدت کربلا میں کھو گیا ہوں
وفا کے باز اُڑ کر لاپتہ ہے
میں جگنو کی طرح کیوں ہو گیا ہوں
بنا دوں آشیاں میں کیوں فراع پہ
گزشتہ سب جوانی کھو گیا ہوں
بنی ہے جان میری اک قرض اب
کہ دھوکہ موت دے کر کھو گیا ہوں
کتابوں کو سُناتا ہوں غزل میں
زمانے کو سُناتے تھک گیا ہوں
ظاہر بشیر
کلسٹر یونیورسٹی، سرینگر