لطف کیا ان الجھنوں میں نقص کیا تدبیر میں
کیا رکھے پردے میں ہم کیا لکھیں تحریر میں
اب تو کر نظرِ کرم اے مصوّرِ دوجہاں
ہوں چراغِ سحر بجھ نہ جاؤں اس تقصیر میں
آزمائے جا رہے ہم دہشتوں کے دور میں
خوف اب ہم کو نہیں تلوار میں نہ تیر میں
قتل و غارت عام ہے میرے شہرِ آشوب میں
اب نہ سکوں لعل و گہر میں نہ دولت و جاگیر میں
نظر آتا نہ کوئی اب صلاح الدین ایوبی سا
زنگ لگی ہے اب ہماری ایمان کی شمشیر میں
کیوں وفا دل گیر ہو تم شہر کے حالات سے
کس کو کیا ملنا یہاں ہے سب لکھا تقدیر میں
پاکیزہ ایوب
اننت ناگ کشمیر