یادوں کے دریچے سے جب نکلی وہ بات
تو ہاہاکار مچی ہر سو
یہ آواز گونج اٹھی کہ اب نہ
وہ چمن رہا
جس میں کھلتے تھے انوکھے چراغ
اب ان راہوں پر نہ مسافر رہے اور
نہ رہی گزشتہ شام
جو مکانوں میں تھے مکیں
چھوڑ کر گئے ہیں کہاں
زمیں کھونے لگی وہ بو جس سے
مہکتے تھے گل و زار
اب کیا بہانہ ہے ٹھہر نے کا
چھپا جو تھا
آنکھوں میں خواب
جو دیکھا تھا گلی کی
کلیوں نے
پوچھ اپنے تصویر دل سے
کیوں خفا رہتا ہے ہر بار
کاش یہ صبح و شام پھر سے نئے ہو
گھومتی رہتی زمیں کی پھر سے رفتار
خالد قمر
[email protected]