الف عاجز اعجاز
کلسٹر یونیورسٹی سرینگر
مرد اور عورت زندگی کی گاڑی کے دو ایسے پہیے کہ ایک کے بغیر دوسرا ناکارہ ہے۔ اللّٰہ تبارک تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السّلام کی تخلیق کے ساتھ ہی حضرت حوا علیہ السلام کوبھی تخلیق کیا اور دونوں کو ایک دوسرے کا ساتھی بنایا۔ مرد اور عورت کا ساتھ تو ازل سے ہی چلتا آرہا ہے۔ اللّٰہ تعالٰی نے مرد اور عورت کو برار کے حقوق عطا کئے ہیں۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہیں کہ زمانہء جہالت میں عورت کو کمتر سمجھا جاتا تھا، اُس کو پیدا ہوتے ہی زندہ درگور کیا جاتا تھا، اُس کو رسوائی کی علامت سمجھا جاتا تھا لیکن حضورﷺ کے ظہور کے ساتھ ہی اسلام نے عورت کو بلند و بالا مقام عطا کیا۔ حضورﷺ نے عورت کو ظلم و ستم کے گہرے گھڑے سے نکال کر سرپرستی کا تاج پہنا دیا اور اسلام کے وساطت سے عورت کو اُس کے برابر کے حقوق دلائے۔ اُس کو مرد کی غیرت قرار دیا، اُس کو جنت کی دلیل بتایا گیا۔ اور مرد کو عورت کا سرپرست بنا دیا۔ یعنی عورت پر بیوی کے روپ میں سب سے زیادہ حق اُس کے شوہر یعنی ایک مرد کا رکھا اور اُسی مرد پر بیٹے کے روپ میں سب سے زیادہ حق اُس کی ماں یعنی ایک عورت کا رکھا۔ گو اسلام نے عورت اور مرد کو برار کے حقوق عطا کئے۔
مرد کی جہاں اپنی ذمہ داریاں ہیں وہی عورت کی اپنی ذمہ داریاں اور اِن ذمہ داریوں کو نبھانے کے لیے عورت اور مرد میں اتفاق ضروری ہے۔ مرد اور عورت دونوں ایک ہی ہے لیکن دونوں کی ذمہ داریاں الگ الگ ہیں ۔ آج کل جہاں بھی نظر ڈالو مرد کو عورت سے اور عورت کو مرد سے شکایت ہیں۔ لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ مرد اور عورت نے ایک دوسرے کو سمجھنے کے بجائے انا اور خودغرضی کا لبادہ اوڑھ لیا ہے۔ مرد نے عورت پر ظلم و ستم ڈھانے شروع کر دئے اور عورت مرد کے خلافکھڑی ہوگئی۔ اِس طرح دونوں بکھر کر رہ گئے۔
کیا اللّٰہ تعالیٰ نے مرد کو یونہی عورت کا سرپرست بنایا تھا۔ کیا اللّٰہ تعالیٰ نے مرد کو یونہی عورت کے سر کا تاج بنایا تھا۔ مرد اپنے حقوق کیوں بھول گیا، اُس کو اگر عورت کا سرمایہ بنایا گیا تھا تو وہ خود کو عورت کا خُدا کیوں سمجھنے لگا۔ عورت تو صنفِ نازک ہیں اور نازک چیزوں کو محبت سے سمیٹ کر رکھا جاتا ہے لیکن مرد نے عورت کو سمیٹنے کے بجائے کمتر سمجھ لیا۔ وہ مرد جس کو عورت کا سرپرست بنایا گیا تھا وہی عورت کو ہوس کی نگاہوں سے اِس قدر دیکھنے لگا کہ وہ گھر سے باہر نکلنے پر بھی خوفزدہ ہوتی ہیں کہیں کسی کی ہوس کا شکار نہ بن جائیں۔ اُس پر ظلم ڈھانے شروع کر دئے۔ اُس کے ساتھ نکاح کر کے اُس کو اپنی عزت بنا کر لایا اور پھر جہیز کی خاطر اُس کو مارنا پیٹنا شروع کر دیا، عورت کو اپنے ہاتھوں سے اپنی عزت بنا کر خود ہی اُس کو دوسروں کے سامنے بے عزت کرنا شروع کر دیا۔ اُس کو اتنا مظلوم بنایا کہ وہ احتجاجاً سڑکوں پر نکل آئی۔ لیکن یہاں قصوروار صرف مرد ہی نہیں قصوروار عورت بھی ہیں۔ عورت کو جو بلند و بالارتبہ ملا تھا اُس نے خود ہی اُس رتبے کی قدر نہیں کی۔ عورت اپنی پہچان بھول گئی، عورت مرد کا مقابلہ کرنے کے لئے مردوں جیسا حُلیہ بنا کر مرد کے شانہ بہ شانہ کھڑی ہوگئی۔ عورت یہ بھول گئی کہ وہ کتنی قیمتی ہے اور کتنی انمول، اِسی لئے تو اُس کو پردے کا حُکم ملا ہے تاکہ اُس کو کسی کی نظر نہ لگ جائیں۔ عورت بھول گئی کہ قیمتی چیزیں پردے میں اچھی لگتی ہیں۔ عورت نے اپنا پردہ اُتار دیا تو مرد نے بھی اپنی نظریں نیچی رکھنا چھوڑ دیا۔ عورت اپنا مقام بھول گئی تو مرد نے بھی اُس کو کمتر سمجھ لیا۔ عورت اور مرد ایک دوسرے کا مقابلہ کرتے کرتے یہ بھول گئے کہ وہ دونوں تو ایک دوسرے سے ہیں۔
مرد کو عورت کا لباس کہا جاتا ہے۔ اس بات پر کبھی غور بھی کیا ہے کیوں؟ کیونکہ لباس سے جس طرح ہم اپنے آپ کو چھپا لیتے ہیں بلکل اُسی طرح مرد کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اپنی عورت کو اپنے گھنے سایے میں چھپا لے۔ اُس کو کمتر نہ سمجھے اُس کو ظلم و جبر کا شکار نہ بنائیں۔ اُس کو عزت دے، اُس کو اپنی زینت سمجھ لیں۔ اپنے گھر کی عورت کو اپنی غیرت اور دوسرے گھر کی عورت کو بازارو نہ سمجھ لیں۔ خود کو بدلنے کی ضرورت صرف مرد کو ہی نہیں بلکہ عورت کو بھی ہیں۔ عورت کو بھی چاہیے کہ اللّٰہ تعالٰی کی بنائی ہوئی حدود کو پار نہ کریں۔ وہ اپنے آپ کو پہچان لے کہ وہ کیا تھی اور اُس نے خود کو بنایا ہے۔
غرض زندگی کی گاڑی کو چلانے کے لئے مرد اور عورت میں اتفاق بہت ضروری ہے۔ جب تک مرد اور عورت اپنی انا کی جنگ لڑتے رہیں گے تب تک یہ لڑائی چلتی رہے گی۔ دونوں کی بے سکونی بڑھتی رہے گی۔ مرد کو عورت سے اور عورت کو مرد سے شکایات ہوتی رہے گی۔ زندگی کو پُرسکون بنانے کے لئے ضروری ہے کہ مرد اور عورت دونوں ہمہ جہت ہوجائیں اور جہاں جہاں بھی ظلم و ستم ہو رہا ہے اُس کے لئے ایک جھنڈ ہوکر آواز اُٹھائیں۔ کسی کو مظلوم نہ بننے دے اور کسی پر ظلم نہ کریں۔ ہمیں چاہیں کہ یہ عہد لے لیں کہ کہیں پر کسی کے ساتھ ظلم و ستم نہ ہو۔ ہمیں چاہیے کہ خود کو ایسا بنائیں کہ مرد عورت کو اور عورت مرد کو اپنی زینت سمجھ لے۔ ہمیں چاہیے کہ یہ عہد لے لیں کہ جہاں کہیں بھی کسی کے حقوق پامال ہو رہے ہو خواہ وہ مرد ہو یا عورت، ہم اُنہیں اُن کے حقوق دلائے۔ مرد اور عورت کو چاہیں کہ ایک دوسرے کا سہارا بنے نہ کہ ایک دوسرے کو بے بس کر دے۔ مرد تو ایک سایہ دار گھنا درخت ہوتا ہے۔ جس کے سائے میں بیٹھ کر عورت فیضیاب ہوتی رہتی ہیں۔ مرد اور عورت تو ایک دوسرے کے ساتھی ہیں، جو ازل سے ساتھ تھے اور قیامت کی گھڑی تک ساتھ رہیں گےگے، بلکہ جنت میں بھی ساتھ ہونگے ۔