عمران بن رشید
سیرجاگیرسوپور‘کشمیر
8825090545
اس میں دو رائے نہیں کہ نماز دینِ اسلام کا ایک بنیادی ستون ہے۔چنانچہ رسول اللہ ؐ کا ارشادہے کہ ہر مسلہ کی اصل دینِ اسلام ہے اور اس کا ستون نماز ہے۔اللہ تعلی نے مومنوں پر جہاں دن میں پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں وہاں دن کی درمیانہ نماز پر قدرے تاکید فرمائی ہے۔
حَافِظُوعَلَی الصِّلَواتِ وَسلصَّلٰوۃِالْوُسْطٰی وَقَوْمُوالِلِّہِ قٰنِتِیْنَ (البقرہ۔۔238)
”سب نمازوں کی حفاظت کرو اوردرمیانی نماز کی (خاص طور پر)اور اللہ کے لئے فرمانبردار ہوکر کھڑے رہو“
”صلاۃ الوسطیٰ“میں اگرچہ علماء کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے‘تاہم اس سے مراد عصر کی نماز ہے۔چنانچہ اس ضمن میں ابو نعمان سیف ا للہ
خالد حفظہ اللہ رقمطراز ہے:۔
”اس کے متعلق گواختلاف ہے مگر اکثر علماء کے نزدیک اس سے مراد عصر کی نماز ہے‘یہی صحیح اور راجح ہے۔متعدد
احادیث سے اس کی تائید ہوتی ہے۔سیدنا علیؓ بیان کرتے ہیں کہ غزوۂ احزاب کے دن رسول اللہؐ نے فرمایا
اللہ تعلی ان کافروں کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے‘انہوں نے ہمیں نمازِ وسطیٰ سے روک دیا‘یہاں
تک کہ سورج غروب ہوگیا(بحوالہ بخاری۔628)“۔
تفسیر دعوۃالقرآن۔جلد اول صفحہ 324
اس کے علاوہ صحیح مسلم کی ایک واضح حدیث ہے۔حضرت عبداللہ ابن مسعود ؓ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ؐ نے فرمایا”صَلَاۃُالْوُ سْطیٰ صَلَاۃُ الْعَصَر“یعنی صلاۃالوسطیٰ عصر کی نماز ہے۔
صلوٰتُ العصر کی اہمیت:۔صحیح بخاری کی کتاب ”مواقیت الصلوۃ“میں نمازِ عصر کی اہمیت وافادیت کے حوالے سے ایک زبر دست حدیث آئی ہے۔عبداللہ ابن عمر ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ؐ نے فرمایا”اَلَّذِ ی تَفُوتُہُ صَلَاۃُ الْعَصرِ کَاَنَّمَاوُتِرَاَہْلَہٗ وَمَالَہٗ“یعنی وہ شخص جس کی نماز ِعصر چھوٹ گئی ایسا ہے جیساکہ اس کی اولاد اور اس کا سارا مال ومتع تباہ ہوگیا۔’کَاَنَّ‘حرفِ تشبیہ ہے‘جس کے معنی اردو میں ’گویا‘یا’جیسا‘کے لئے جاتے ہیں‘ساتھ ہی اس میں تاکید بھی پائی جاتی ہے۔غور کیجئے کہ اُس شخص کی حالت کیا ہوگی جس کی اولاد اور وہ سارا مال تباہ و برباد ہوجائے جو اس نے عمر بھر کمایا ہو۔ ایسا ہی وہ شخص بھی ہے جس کی نمازِ عصر چھوٹ گئی۔ نمازِعصر کی اہمیت اور فضیلت کا یہ عالم ہے کہ اس کو ادا کرنے والا آخرت میں اپنے رَبّ کو بالکل ایسے ہی دیکھے گا جیسا کہ اس دنیا میں چاند کو بآسانی دیکھتا ہے۔ ایک مشہور صحابیئ رسولؐ حضرت جریربن عبداللہ بجلیؓ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ؐ نے چانددیکھااورارشاد فرمایا”تم اپنے رَب کو (آخرت)میں اسی طرح دیکھوگے جس طرح چاند کو اب دیکھ رہے ہوکہ اس کو دیکھنے میں تم کو کوئی زحمت بھی نہیں ہوگی‘پس اگر تم ایسا کرپاؤگے کہ سورج طلوع ہونے سے پہلے والی نماز(یعنی فجر)اورسورج غروب ہونے سے پہلے والی نماز(یعنی عصر)سے تمہیں کوئی چیز روک نہ سکے تو ایسا ضرور کرو“(بخاری۔554)۔یہاں پر یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ نمازِعصر ہی وہ پہلی نماز ہے جوتحویلِ قبلہ کے بعد بیت اللہ کی طرف منہ کر کے ادا کی گئی۔اللہ کے رسول ؐ نے جب مکّہ سے مدینہ کی طرف ہجرت کی تو سولہ یا سترہ مہینوں تک آپؐ نے بیت المقدس کی جانب رخ کرکے نماز ادافرمائی۔ لیکن جب تحویلِ قبلہ کا حکم نازل ہوا اور بیت اللہ قبلہ قرار پایا‘اس وقت حضورؐنمازِ عصر ادا فرمارہے تھے‘چنانچہ دورانِ نماز ہی آپؐ نے اپنا چہرہ بیت اللہ کی جانب کیا۔
نمازِعصر کی ادائیگی کا افضل وقت:۔ اوقاتِ نماز کی اہمیت اور افضلیت کے حوالے سے سورہ نساء کی یہ آیت قدرے مشہور ہے۔
اِنَّ الصَّلَاۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُوْمِنِینَ کِتَاباً مَوْقُوْتاً
”مومنوں پر نماز فرض ہے اپنے مقرروقتوں میں“
مذکورہ آیت کی تفسیرمیں ابو نعمان سیف اللہ خالد حفظہ اللہ نے ایک حدیث لائی ہے جواگرچہ مسلم کتاب المساجد میں آئی ہے‘تاہم میں ان ہی الفاظ میں حدیث کو رقم کررہا ہوں جن میں ابو نعمان نے رقم کی ہے:۔
”سیدنا بریدہؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہؐ سے نماز کے اوقات کے متعلق سوال کیا‘آپؐ نے فرمایادودن
ہمارے ساتھ نماز پڑھو۔پھر جب سورج ڈھلا تو آپؐ نے بلالؓ کو حکم دیا‘انہوں نے اذان دی‘پھر آپؐ نے ان کو اقامت
کا حکم دیا‘تو انہوں نے ظہر کی اقامت کہی‘پھر آپؐ نے ان کو اقامت کا حکم دیاتوانہوں نے عصر کی اقامت کہی‘اس وقت
سورج بلند‘سفیداور شفاف تھا۔پھرآپ نے مغرب کی اقامت کا حکم دیا‘انہوں نے جب سورج غائب ہوگیا تو اقامت
کہی‘پھر آپ نے انہیں اقامت کا حکم دیا تو انہوں نے عشاء کی اقامت کہی جب شفق غائب ہو گئی‘پھرآپ نے انہیں
اذان کا حکم دیا (انہوں نے اندھیرے میں اذان دی)اور فجر کی اقامت کہی جب صبح طلوع ہو گئی۔پھر جب دوسرا دن
ہوا تو آپ نے حکم دیاکہ ظہر کوٹھنڈا کریں‘انہوں نے ٹھنڈا اور خوب ٹھنڈا کیااور عصر میں پہلے دن کے مقابلے میں تاخیر
کی اور ایسے وقت میں پڑھی کہ سورج بلند‘صاف و شفاف تھا۔اس میں زردی نہیں آئی تھی اور مغرب کی نماز شفق غائب
ہونے سے پہلے پڑھی اور عشاء کی نماز تہائی رات گزرنے بعد پڑھی اور صبح کی نماز پڑھی اوراسے خوب روشن کیا۔پھر
آپ نے فرمایا’نماز کو اوقات پوچھنے والا کہاں ہے؟‘اس نے کہا اے اللہ کے رسولؐ!میں (موجود)ہوں۔ آپ نے
فرمایا”نماز کے جو اوقات تم نے دیکھے ان کے درمیان تمہاری نماز کے اوقات ہیں۔“
تفسیر دعوۃ القرآن
جلد اول‘صفحہ۔682
اسی طرح اوقاتِ نماز سے متعلق سنن ترمذی کے حوالے سے سیدنا ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسول ؐ نے فرمایاکہ بے شک ہر نماز کا اول اور آخر وقت ہے۔ظہر کا اول وقت وہ ہے جب سورج ڈھل جائے اور آخر وقت وہ ہے جب عصر کی ابتداء ہوتی ہے۔ عصر کا اول وقت وہی ہے جب یہ اپنے وقت میں داخل ہوتا ہے اور آخر وقت وہ ہے جب سورج زرد ہوجاتا ہے۔اسی طرح نمازِ مغرب کا اول وقت وہ ہے جب سورج غروب ہو جائے اور آخر وقت وہ ہے جب (آسمان)کی سرخی غائب ہوجائے جبکہ عشاء کا اول وقت سرخی غائب ہونے پر اور آخر وقت نصف رات (نصف الللیل)ہونے تک ہے۔سنن ترمذی۔151
مذکورہ ا حادیث سے یہ بات اظہر من الشمس ہوجاتی ہے کہ ہر نماز کا اول اور آخر وقت ہوتا ہے جبکہ اِن کے درمیان بھی ادا کی جاسکتی ہیں۔ البتہ غور طلب امر یہ ہے کہ رسول اللہؐ اور آپ کے صحابیٰ ؓ کون سے وقت میں نماز ادا کرتے تھے۔اس حوالے سے امتِ مسلمہ میں قدرے اختلاف پایا جاتاہے‘خاص کر نماز فجر اور نمازِ عصر سے متعلق۔ باقی تمام نمازوں سے صرفِ نظر صلاۃ العصر کا جہاں تک تعلق ہے احادیثِ صحیحیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کی ادائیگی کا افضل وقت ابتدائی یا اول وقت ہے۔چنانچہ حضرت ابو برزہ اسلمیؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ؐ نماز عصر اُس وقت ادا کرتے تھے کہ ہم میں سے اگر کوئی شخص مدینہ کی آخری حد تک جاتا پھر بھی سورج تاباں اور روشن ہوتا(صحیح بخاری۔ 547)۔اس حدیث کی شرح میں مولانا داؤد رازلکھتے ہیں:۔
”اس روایت اور دوسری روایات سے صاف ظاہر ہے کہ عصر کی نمازآنحضرتؐ اول وقت ایک مثل سایہ ہوجانے
ہی پر ادا فرمایا کرتے تھے۔اس حقیقت کے اظہار کے لئے ان روایات میں مختلف الفاظ استعمال کئے گئے ہیں
۔بعض روایتوں میں اسے والشمس مرتفعۃ حیۃ سے تعبیر کیا گیا ہے کہ ابھی سورج کافی بلند اور خوب تیز
ہوا کرتا تھا“
شرح صحیح بخاری از مولانا داؤد راز
جلد اول۔صفحہ 550
ایک شبہ اور اُس کا ازالہ:۔صحیح مسلم کی حدیث(جو اوپر آئی ہے)سے یہ شبہ لاحق ہوسکتا ہے کہ اگر رسول اللہؐ نے پہلے دن اول وقت میں اور دوسرے دن تاخیر سے نماز ادا کی اور فرمایا کہ ”جو اوقات تم نے دیکھے ان کے درمیان تمہاری نماز کے اوقات ہیں“لہذا اول وقت سے لیکر آخر وقت تک کبھی بھی نماز ادا کی جا سکتی ہے یہ تصور اگرچہ درست ہے۔لیکن ذہن نشین کر لیجیئے کہ رسول اللہؐنے ایک ہی دفعہ آخر وقت میں نماز پڑھی ہے جس کا ذکر اس حدیث میں آیا ہے۔یہاں صرف اس شخص کو نماز کے اوقات دکھانا مقصود تھا جس نے اس حوالے سے استفسار کیا تھا۔جبکہ رسول اللہ ؐ نے اس کے بعدہمیشہ اول وقت میں نماز ادا کی ہے جو ہر نماز کے کے لئے فضیلت کا وقت ہے۔چنانچہ آپؐ کے اصحابؓ نے بھی اول وقت میں کوہی مقدم رکھا ہے۔جس پر کثرت سے حدیثیں ملتی ہیں۔
بہر حال نمازِ عصر کے وقت سے متعلق صحیح مسلم کتاب المساجدومواضع الصلاۃ کے حوالے سے حضرت انس ؓ روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ نے ہمیں نمازِ عصر پڑھائی اس کے بعد ایک آدمی آپؐ کی خدمت میں آیاجو قبیلہ بنو سلمہ کا تھا‘اس آدمی نے اللہ کے رسول ؐ سے کہا کہ!ہم اونٹ قربان (نحر)کرنا چاہتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ آپؐ بھی اس میں شرکت کریں۔چنانچہ آپ نے دعوت قبول کی اورآپؐ کی اقتداء میں ہم بھی چلے۔وہاں پہنچنے پر دیکھا گیا کہ اونٹ ابھی قربان نہیں کیا گیا ہے‘چنانچہ اسے قربان کیا گیاپھر کاٹا گیااور اس میں سے کچھ پکایا بھی گیاپھر ہم لوگوں نے اسے غروبِ آفتاب سے پہلے کھایا۔ اس حد یث سے محدیثین ِکرام نے دلیل پکڑلی ہے کہ عصر کے بعد اونٹ کی قربانی کرکے اسے پکانا اور پھر کھانا تب ہی ممکن ہے کہ عصر کی ادائیگی اول وقت میں ہو‘یہی بہتراور افضل ہے۔ یہ مقام بہتر ہے کہ میں اس واقع کا ذکر کروں جو بہت دیر سے میرے ذہن میں گردش کررہا ہے۔وہ یہ کہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ نے ایک روز نمازِ عصر کی ادائیگی میں ذرا تاخیر کی جس پر عروہ بن زبیرؓ نے انہیں بتایا کہ مغیرہ بن شعبہ ؓ نے بھی ایک دفعہ جب وہ عراق کے حاکم تھے نماز میں دیر کی تھی اور ابو مسعود انصاریؓنے فرمایا”ماہذا یامٖغیرۃ؟“اے مغیرہ ؓ یہ کیا بات ہے؟(کہ آپ نے نماز میں دیر کی)کیا آپ نہیں جانتے کہ حضرت جبریل ؑ نے نمازپڑھی اوراللہ کے رسولؐ نے بھی نماز پڑھی‘ پھر جبریل نے نماز پڑھی اور اللہ کے رسولؐ نے بھی پڑھی‘اس کے بعد جبریلؑ نے کہا کہ میں اسی طرح حکم کیا گیاہوں۔اس پر عمربن عبدالعزیزؒ نے کہاکیا جبریلؑ نے رسول اللہ ؐ کونمازکے اوقات (عمل کرکے) بتلائے تھے؟تو عروہ نے اثبات میں جواب دیا۔یہ پورا واقع امام بخاریؒ نے ”مواقیت الصلاۃ“کی ابتداء میں رقم کیا ہے‘چنانچہ مولانا عبید اللہؒ اس ضمن میں رقمطراز ہیں:۔
”عروہ ؓ کا مقصود یہ تھا کہ اوقاتِ نماز بڑی اہمیت رکھتے ہیں۔جن کو مقرر کرنے کے لئے جبریلؑ نازل ہوئے اور
عملی طور پر انہوں نے آنحضرتؐ کو نمازیں پڑھاکراوقاتِ صلاۃ کی تعلیم فرمائی۔پس اس بارے میں کمزوری
مناسب نہیں“
بحوالہ شرح صحیح بخاری از مولانا داؤدرازؒ
جلداول‘صفحہ نمبر۔ 537 ٓٓٓٓٓٓ
ؑؑؑعصر کے وقت کا تعیّن:۔ان تمام دلائل کے بعد میرے خیال میں اس میں کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہیے کہ نماز کی ادائیگی کے لئے افضل اور بہترین وقت اول وقت ہے۔ البتہ سوال یہ اُٹھتا ہے کہ اول وقت کا تعیُن کیسے کیا جائے؟ اس ضمن میں یاد رکھیئے کہ حضرت جبریلؑ نے جب رسول اللہؐ کی امامت کی تو پہلے دن ہر نماز اول میں پڑھائی اور عصر کی نماز اُس وقت پڑھائی جب ہر چیز کا سایہ اس کی مثل ہوگیا۔اور اسی سے نماز ِعصر کے وقت کا تعیُن ہو جاتاہے‘ہر چیز کا سایہ اس کی مثل ہونے پرنمازِ عصر کا اول وقت ہے۔اور آخر وقت سورج زرد (تصفرالشمس) ہونے تک رہتا ہے۔ البتہ اصطراری حالت میں غروبِ آفتاب سے پہلے اگر ایک رکعت پا لی تو نماز ہوجائے گئی (مسلم)۔