سیفی سرونجی
سہ ماہی انتساب عالمی سرونج
کسی بھی ادبی رسالہ کی اہمیت اور اس کا معیار ایڈیٹر کی قابلیت اور صلاحیت پر منحصر ہوتا ہے۔ نیاز فتحپوری کا دبدبہ صرف اس لئے تھا کہ نیاز فتح پوری ایک عالم فاضل اور نہایت ہی قابل شخصیت کے مالک تھے۔ آج ادبی دنیا میں جو چند معتبر ادبی رسائل نکل رہے ہیں ان میں شب خون کی اہمیت اور معیار اعلیٰ درجہ کا صرف اس لئے تسلیم کیا جاتا ہے کہ اس کے ایڈیٹر شمس الرحمن فاروقی جیسے دانشور نقاد نکالتے ہیں۔ جس طرح ہر پرچہ میں ایڈیٹر کی بھی کچھ مختلف تحریریں شائع ہوتی ہیں اور ان تحریروں کو پڑھ کر اس کی شخصیت، علمیت اور قابلیت اُجاگر ہوتی ہے، اس کے تبصروں سے، اداریوں سے اور دیگر ادبی و تحقیقی مضامین سے، اسی طرح شمس الرحمن فاروقی کی قابلیت، شخصیت اور علمیت ان کے ہر مضمون او ر ہر تحریر میں نمایاں ہے، چاہے وہ اداریے ہوں یا وہ کسی اور نوعیت کے مضامین ہوں۔ ان کے ایک ایک لفظ سے ان کی ساری علمیت اور قابلیت نمایاں ہوجاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ادبی دنیا میں ان کا رعب اور ان کی قابلیت کی دھاک اس طرح بیٹھی ہوئی ہے کہ کسی چھوٹے موٹے شاعر ادیب اور نقاد کا تو ان کے دربار میں گذر تک نہیں ہوتا اور ان کے سامنے کسی کو منہ کھولنے کی ہمت ہی نہیں ہوتی، اس لئے کہ شمس الرحمن فاروقی کی عالمانہ نظر اتنی گہری ہوتی ہے کہ کوئی بھی ادبی موضوع ہو، کوئی واقعہ ہو، یعنی تاریخی، ادبی اور زبان سے متعلق کوئی بھی لسانی خامیاں یا کوئی پہلو ہو، اُن کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہتا اس لئے کہ وہ کئی زبانوں پر نہ صرف یہ کہ عبور رکھتے ہیں بلکہ ان کا مطالعہ اتنا وسیع ہے کہ باریک سے باریک اور نازک سے نازک معاملات میں بھی وہ اپنے علمی دلائل سے اس طرح بحث کرتے ہیں جیسے اس موضوع پر انہوں نے برسوں تحقیق کی ہو۔ شب خون میں چند کالم ایسے ہوتے ہیں جو دیگر ادبی رسائل میں نظر نہیں آتے، مثلاً سوانحی گوشوں کا انتخاب اور کسی بھی شعری یا ادبی موضوع پر ان کے مدلل جواب جو وہ شب خون کے مکتوبات کے کالم میں دیتے ہیں جنہیں پڑھ کر بڑے سے بڑے نقاد شاعر ادیب نہ صرف حیران رہ جاتے ہیں بلکہ ان کی قابلیت کے آگے سرِ تسلیم خم کر دیتے ہیں۔ اگر کسی شعر پر کسی نے غلطی سے کوئی اعتراض کردیا تو اس کے جواب میں شمس الرحمن فاروقی سو دو سو سال پرانے شاعروں کے درجنوں اشعار اردو کے ہی نہیں فارسی کے بھی سند کے طور پر پیش کردیتے ہیں اور اعتراض کرنے والے کی قابلیت کا بھانڈا پھوڑ دیتے ہیں اور وہ اپنی خفت مٹانے کے لئے سوائے شرمندگی کے کچھ نہیں کرپاتا۔ شب خون کے یہی چند صفحات فاروقی صاحب کی قابلیت اور شخصیت کا سب سے بڑا ثبوت ہوتے ہیں۔ ورنہ شب خون کی عام تحریریں مثلاً غزلیں، نظمیں، افسانے اتنے خشک ہوتے ہیں کہ قاری بجائے حظ اٹھانے کے بور ہوکر انھیں ایک طرف رکھ دیتا ہے۔ جہاں ایک طرف شمس الرحمن فاروقی صاحب کی تحریروں نے ”شب خون“ کو اعلیٰ معیار بخشا ہے وہیں دوسری طرف ایسے ایسے خشک مضامین، نظمیں، غزلیں اور افسانے چھاپ کر قاری کو بھی الجھن میں مبتلاکردیا ہے، اس لئے شب خون کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ رسالہ پڑھے لکھے شاعروں، ادیبوں کے لئے ہی وجود میں آیا ہے اور ویسے بھی بڑے بڑے لوگوں نے ادب کو بھی مخصوص پڑھے لکھے لوگوں کیلئے ہی قرار دیا ہے۔ جوش ملیح آبادی نے ایک بار لکھا تھا کہ میرؔ، غالبؔ کچھ نہیں بلکہ عوامی شاعر نظیرؔ اکبرآبادی بڑا شاعر ہے لیکن چند برسوں میں ہی پتہ چل گیا کہ میرؔ، غالبؔ کیا ہیں اور نظیرؔ اکبرآبادی کیا ہیں۔ کہنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ ادب پڑھے لکھے لوگوں کے لئے ہی زیادہ سمجھاگیا ہے اور شمس الرحمن فاروقی اسی نظریے کو پیش کرنے میں کوشاں رہے ہیں ان کے نزدیک ادب سے ذرا بھی دلچسپی رکھنے والے کو پڑھا لکھا ہونا بہت ضروری ہے اور شب خون اس کی زندہ مثال ہے۔ شب خون کے وہ کالم جن میں فاروقی صاحب کی علمیت اور ان کے گہرے مطالعہ کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں، وہ کالم ہیں شب خون کے خطوط اور ان میں فاروقی صاحب کے ریمارکس جو ان کے رسالہ شب خون میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے سب سے زیادہ معلوماتی ہوتے ہیں۔ دوسرا کالم سوانحی گوشے جن میں وہ دنیا کی ان عظیم ہستیوں کے کچھ خاص پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہیں جن سے اردو والے ناآشنا ہیں اور شب خون کے وہ اداریے جن میں کوئی نہ کوئی بات ایسی ضرور ہوتی ہے جسے اگر اردو والے پڑھتے رہیں تو ان کی شاعری ان کی سوچ اور ان کی تحریروں میں یقینا ایک نمایاں تبدیلی آجائے مثلاً شب خون کے شمارہ نمبر ۵۱۲ میں Kinfried Noth 1995کا ایک اقتباس پیش کیا ہے جس کی چند سطریں یہاں پیش کی جارہی ہیں۔
”(علامت)= ”بشری علوم کے میدان میں علامت ایک ایسی اصطلاح ہے جس پر معنی اور معنویت کے بہت سے بوجھ لاد دیئے گئے ہیں۔ اگر وسیع ترین مفہوم میں دیکھا جائے تو علامت یعنی Symbol اور نشان یعنی Sign میں کوئی فرق نہیں۔ اس مشکل کے باوجود کہ علامت کی اصطلاح بذات خود ایک مبہم اصطلاح ہے لیکن اس کی جو تعریفیں باریکی کے ساتھ بیان کی گئی ہیں ان کو تین شقوں میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ اول تو یہ کہ علامت رسومیاتی قسم کا نشان ہے۔ دوسرے یہ کہ علامت تصویری قسم کا نشان ہے اور تیسری شق یہ کہ علامت معنی خیز اور معنی کی طرف اشارہ کرنے والا نشان ہے۔ آخری دو تعریفوں کی روشنی میں علامت کو جمالیات اور ثقافتی مطالعات کے میدانوں میں کلیدی تصور کی حیثیت حاصل ہے۔ اِن میدانوں میں علامت کا مفہوم کچھ اور معنی کو بھی محیط ہے۔ مثلاً لفظی نشان کے طور پر علامت یا علامتی نشان کے طور پر علامت (مثلاً 0 علامت ہے عدم کی) یاٹریڈ مارک کے طور پر علامت (کوئیLogo) ہے۔ جھنڈے (Banner) اور مہر (Signet) کے طور پر علامت اور پھر آیت (Emblem) کے طور پر علامت۔ یعنی علامت اس تصویر کو بھی کہیں گے جس سے کوئی مخصوص معنی مستفاد ہوسکتے ہیں۔ (مثال کے طور پر اگر کسی تصویر میں ہڈیوں کا ڈھانچہ ہاتھ میں ہنسیالئے ہوئے دکھایاگیا ہے تو یہ علامت ہے موت یا موت کے فرشتے کی) علامت کی ایک اور شق تمثیل (Allegory) بھی ہے۔“
اس اقتباس کی روشنی میں یہ بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ فاروقی صاحب اپنے شب خون کے لئے کیسا قاری چاہتے ہیں۔ اس میں چھپنے والے شاعروں، ادیبوں کی بات تو دوسری ہے شب خون کے قاری کو کتنا ذہین ہونا چاہیے یہ بات فاروقی صاحب کے اداریوں میں، ان کے مضامین اور مکتوبات کے جوابات میں محسوس کی جاسکتی ہے کہ شب خون کے قاری کو علامت، استعارات اور دنیا کے دیگر علوم فنون کی پوری معلومات ہونا چاہیے۔ وہی ادب کی بات کریں، وہی مضامین اور دیگرعلمیات، لسانیات یا دیگر موضوعات پر گفتگو کریں ورنہ شاعری کا بوجھ اپنے کاندھوں پر بلاوجہ لادنے سے کوئی فائد ہ حاصل نہیں۔ ان کے اسی نظریے کو دیکھتے ہوئے بیشتر کم پڑھے لکھے لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے اور وہ مخالفت پر اُتر آتے ہیں لیکن ان سے مقابلہ کرنے کیلئے جس قابلیت کی ضرورت پڑتی ہے وہ کسی میں نظر نہیں آتی تو گھٹیا ہتھکنڈوں پر اتر آتے ہیں حالانکہ ان تمام باتوں سے شمس الرحمن فاروقی کی شخصیت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ویسے بھی وہ ہر کس وناکس کا نوٹس نہیں لیتے نہ کسی کو جواب دیتے، یہی اُن کی علمیت اور قابلیت کی نمایاں پہچان ہے، ویسے حسب ضرورت شب خون میں اس طرح کے خطوط کے جواب میں وہ ایک دو سطروں میں ہی اتنا کچھ کہدیتے ہیں کہ پھر کسی کو یہ ہمت نہیں ہوتی کہ وہ کچھ لکھ سکے وہ سامنے والے کو اپنے علمی دلائل سے اس طرح مطمئن کرتے ہیں کہ اسے ان کی بات تسلیم کرنا پڑتی ہے چاہے وہ مسئلہ زبان کا ہو یا کسی پرانے سے پرانے شاعر کے شعر کا ہو یا کسی افسانے یا مضمون کا ہو۔ شب خون کے شمارہ نمبر ۷۱۲ میں گیان چند جین کا ایک خط شائع ہوا ہے۔
”فروری ۸۹۹۱ء کے شب خون میں آپ نے مجھ صغرالشعرا کی غزل کو سب سے پہلے جگہ دے کر مجھے نوازا بھی اور محجوب بھی کیا۔ میں اس مقام کے لائق نہیں۔ غزل میں کتابت کے چند سہو در آگئے ہیں۔ ساتویں شعر میں ”مغلوب“ دراصل ”مفلوج“ اور آخری شعر میں ”زمن“ کی جگہ ”چمن“ ہونا چاہیے۔ آپ نے عنوان دیا ہے ”جنت سے جنت تک“، ”قیامت سے قیامت تک“ کی یاد آگئی۔ میرے نزدیک نہ ہندوستان جنت ہے نہ امریکہ۔ میں نے اس غزل کا ایک مصرع اصلاً یوں کہا تھا:
ہوئی ہے جنتِ ارضی بھی میرے واسطے دوزخ
لیکن نئے مستقر کو دوزخ کہنا ناشکراپن معلوم ہوا۔ اسے بدل کر ”بے رس“ کردیا۔ میں نے اس قماش کی ایک اور غزل میں یہ دو شعر کہے ہیں:
یہاں خوشیاں ہی خوشیاں ہیں، سمجھتا تھا دل سادہ
یہاں آکر طبیعت رہتی ہے افتادہ افتادہ
دکھائے سیمیاگر کی طرح کیوں سبز باغ اتنے
نئی دنیا! فقط اک خواب ہی نکلا ترا وعدہ
بریں وجوہ یہ عنوان میرے عندیے کا عکاس نہیں۔
آپ نے اپنے تجزے کے آخر میں لکھا ہے:
”معائب سخن کی وہی اہمیت ہے جو مقدمہ شعر و شاعری اور ہماری شاعری کی یعنی ان کتابوں سے اختلاف ممکن، بلکہ ضروری ہے۔ لیکن …… الخ ………… (ص ۳۳)
آپ کی سیر چشمی سے شہ پاکر میں بھی آپ کے عالمانہ مضمون سے کہیں کہیں اختلاف رکھتا ہوں لیکن ایسے مقامات کم ہیں۔“
گیان چند جین
یہ خط امریکہ میں مقیم مشہور نقاد گیان جین کا ہے جن کا مقام و مرتبہ بھی سب کو معلوم ہے۔ اس خط میں گیان چند جین نے ایک چھوٹے سے عنوان سے متعلق صرف اتنا لکھا تھا کہ آپ نے جنت سے جنت تک کا عنوان کیوں لگایا جب کہ یہ عنوان میرا لکھا ہوا نہیں ہے لیکن شمس الرحمن فاروقی صاحب نے گیان چند جین صاحب کو بہت خوبصورت طریقے سے اس عنوان کی اہمیت کو سمجھا دیا اور ساتھ میں نوٹ بھی لگادیا وہ لکھتے ہیں۔
”عنوان ہمارا لگایا ہوا تھا، اُسے ہم نے ایک طرح سے شاعر کی طرف سے طنزیہ اشار ہ بتایا تھا، ہندوستان کو جنت نشان کہتے ہی تھے اور امریکہ خاص کر کیلیفورنیا کو دنیا میں جنت کہاجاتا ہے۔“
اس طرح کے سینکڑوں مسائل علمی، ادبی، لسانی اور دیگر علوم و فنون سے متعلق فاروقی صاحب کے جوابات ایسے ہوتے ہیں کہبڑ ے سے بڑے عالم فاضل کو بھی ان کی بات تسلیم کرنا پڑتی ہے۔ اس وقت اردو دنیا میں ایسے کتنے ایڈیٹر ہیں جو فاروقی صاحب جیسی صلاحیت رکھتے ہوں۔ اب ظاہر ہے جس رسالہ کے ایڈیٹر شمس الرحمن فاروقی ہوں گے اس کا معیار کیسا ہوگا اور کیسا ہونا چاہیے۔ آج ہندوستان میں درجنوں اردو رسائل نکلتے ہیں اور ان رسائل میں چھپنے والے مضامین، اداریے، تبصرے پڑھ کر ہی اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ وہ کس نوعیت کے ہوتے ہیں۔ اردو رسائل کی ان دنوں ایک ایسی ہوڑجاری ہے کہ ہر ایڈیٹر جلد سے جلد شہرت حاصل کرنا چاہتا ہے اور ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوشش میں کئی ایڈیٹروں کی صلاحیتوں کا بھانڈا بھی پھوٹ جاتا ہے۔ اس لئے کہ صرف رسالہ نکالنے سے ہی بڑا شاعر ادیب نہیں ہوجاتا لیکن آج کل ہر ایڈیٹر کے پاس تبصرے کے لئے درجنوں کتابیں آتی ہیں اور وہ ان پر چھوٹے موٹے مضامین اور تبصرے لکھ کر نقادوں کی فہرست میں شامل ہونا چاہتا ہے اور دو چار سال ادھر ادھر سے قرض لے کر یا اپنی ذاتی پونجی لگاکر ایڈیٹروں کی فہرست میں شامل ہوجاتا ہے لیکن ایک اچھے رسالہ کے لئے ایڈیٹر کو اتنی معلومات ہونا چاہیے کہ وہ کسی کے ادبی مقام و مرتبہ کو سمجھنے کے ساتھ ساتھ عالمی ادب پر بھی اس کی گہری نظر ہو، تاکہ وہ یہ دیکھ سکے،سمجھ سکے کہ اردو زبان کے علاوہ دیگر زبانوں کے ادب میں کیا کچھ لکھا جارہا ہے اور کیسا لکھا جارہا ہے اور پھر اس میں تجزیہ کرنے کی یہ صلاحیت ہونا چاہیے کہ یہ اچھا ہے، یہ برا ہے اور یہ ساری صلاحیتیں مل کر شمس الرحمن فاروقی میں یکجا ہوگئیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے رسالہ’شب خون‘ میں عالمی ادب سے متعلق مضامین اور دیگر تحریریں شائع ہوتی رہتی ہیں اور فاروقی صاحب کے اداریے ان کے مضامین اور مخصوص شخصیات پر گوشوں کی اشاعت اس کا زندہ ثبوت ہیں۔ کبھی وہ کسی اداریے میں لکھتے ہیں کہ انگریزی ادب میں جس طرح تبصرے کتابوں پر آتے ہیں اگر اس طرح کے تبصرے ہندوستانی ادیبوں اور شاعروں کی کتابوں پر آنے لگیں تو لوگ تبصروں کے لئے کتابیں پہنچانا ہی بند کردیں، اس لئے کہ ان میں سچ کو برداشت کرنے کی ہمت ہی نہیں ہے، ہر مصنف، شاعر، ادیب اپنی کتاب پر صرف اپنی تعریف پڑھ کر خوش ہوتا ہے، حالانکہ یہ خوشی کتنی عارضی ہوتی ہے اس بات کو محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح فاروقی صاحب سوانحی گوشوں کے کالم میں سینکڑوں برس پرانے انگریزی عربی، فارسی، فرانسیسی اور دیگر زبانوں کے بڑے بڑے ادیبوں شاعروں کی مختلف اور بڑی معنویت لئے ہوئے پوشیدہ گوشوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ شب خون کے شمارہ نمبر ۷۱۲ میں جیمس جوائس اور سیموئل بیکٹ کا ایک مختصر واقعہ شائع ہوا ہے، ملاحظہ ہو:
”جیمس جوائس جن دنوں پیرس میں مقیم تھا اور اپنے ناول Fennegans wake پر کام کررہا تھا۔ سیموئل بیکٹ وہاں پہلے سے موجود تھا اور بیکٹ کا اس سے ربط ضبط کسی عقیدت مند شاگرد اور حاضر باش کی طرح کا تھا۔ جوائس کی آنکھیں اس وقت بہت خراب ہوچکی تھیں اور وہ اپنا ناول روزانہ بیکٹ کو املا کراتا تھا۔ ایک دن املا کے دوران کسی نے دروازے پر دستک دی۔ بیکٹ اپنے انہماک کے باعث دستک کو سن نہ سکا تھا لیکن جواب میں جب جوائس نے اسی عام املائی لہجے میں کہا ”آجاؤ“ (Come in) تو بیکٹ نے گمان کیا کہ یہ بھی املا کا حصہ ہے اور اس نے وہ فقرہ یعنی Come inبھی ویسے ہی لکھ دیا۔ بعد میں جب جوائس نے املا کئے ہوئے اوراق بیکٹ کی زبانی سنے اور بیکٹ نے Come inپڑھا تو جوائس نے چونک کر پوچھا ”یہ کیا ہے“؟ بیکٹ نے جواب دیا کہ آپ ہی نے لکھوایاتھا۔ پھر اس نے بتایا کہ فقرہ Come in جوائس نے کس وقت بولا تھا۔ جوائس کچھ دیر تک چپ چاپ غور کرتا رہا، پھر بولا ”ٹھیک ہے اسے رہنے دو۔“
لکھنے کو تو یہ واقعہ ایک معمولی واقعہ ہے کہ املا بولتے وقت ایک لفظ(Come in) تھا جو بے خودی میں لکھنے والا لکھ گیا۔ لیکن اس واقعہ کی تہہ میں کتنی معنویت اور کتنی گہرائی چھپی ہوئی ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایک مرتبہ کسی بادشاہ کو ایک اچھے منشی کی ضرورت پیش آئی تو اس نے اپنی پڑوسی ریاست سے ایک منشی کو بلوانے کے لئے اس کی تحریر نمونے کے طور پر منگوائی۔ اتفاق سے جس منشی کو بلوایاگیا تھا وہ اتنا تنگ دست تھا کہ اپنے نمونے کی تحریر میں بھی ایک لفظ ایسا لکھ گیا کہ گھر میں آٹا نہیں ہے، نمونے کی تحریر لکھتے وقت اس کے گھر میں فاقہ تھا اور بچے اس سے یہی کہہ رہے تھے کہ گھر میں آٹا نہیں ہے، وہی تحریر اس نے نمونے کے طور پر اس بادشاہ کو بھیجدی۔ یہ تحریر پڑھ کر اس بادشاہ نے لکھا کہ جب تمہارا منشی ہی خوش حال نہیں ہے تو تمہار ی رعایا پر کیا گذرتی ہوگی۔ بعد میں کیا ہوا اس تفصیل میں نہیں جانا، کہنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ جس طرح ایک لفظ آٹا نہیں ہے اور جس طرح جیمس کابولا ہوا لفظ Come inآگے چل کر ایک تاریخ بن گیا اسی طرح شمس الرحمن فاروقی صاحب کے اداریے، ان کے پیش کئے ہوئے سوانحی گوشے اور خطوط کے کالم میں دیئے گئے مختصر نوٹ اس بات کا ثبوت ہیں کہ اگر ایک لفظ بھی فاروقی صاحب نے غلط لکھ دیا تو وہ مستند تسلیم کرلیا جاتا ہے جس طرح جیمس کے ناول میں لفظ Come in غلطی سے لکھ دیا گیا تھا لیکن وہی مستند بن گیا اس لئے کہ یہی تو اہل زبان ہوتے ہیں جن کی زبان سے نکلا ہوا ایک ایک لفظ سند کی حیثیت رکھتا ہے بلاشبہ شمس الرحمن فاروقی صاحب کی شخصیت ایسی ہے کہ برسوں پہلے شاید میر تقی میرؔ نے ان کے لئے ہی یہ شعر کہا تھا:
سارے عالم پر ہوں میں چھایا ہوا
مستند ہے میرا فرمایا ہوا
لیکن آج شمس الرحمن فاروقی ہمارے بیچ نہیں رہے۔ وہ ایک عہد ساز شخصیت تھے۔ ان کے جانے سے اردو دنیا میں جو خلاء پیدا ہوئی ہے اور جو نقصان ہوا ہے اس کی بھرپائی ممکن نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ہمیں ذاتی صدمہ بھی پہنچا ہے،چونکہ ’انتساب عالمی‘ کو ہمیشہ سے ہی شمس الرحمن فاروقی صاحب کی سرپرستی حاصل رہی ہے۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے۔آمین۔