عمران بن رشید
سیر جاگیرسوپور‘کشمیر
کشمیر کے بیشتر علاقوں کی طرح ہمارا علاقہ بھی ہمیشہ سیاسی بربریت اور سیاسی انتقام گیری کا شکار ہوا ہے اور ہورہا ہے۔یہاں جس کے جتنے لمبے ناخن تھے اُس نے اتنی زمین کھودی‘جس کی پہنچ جہاں تک تھی اُس نے اتنا ہاتھ مارا۔ سڑک چھاپ‘آوارہ گرداور پڑھے لکھے جاہلوں اور منافق مزاجوں نے یہاں کی سفید پوش عوام کو ہمیشہ سبزباغ دکھائے۔ المیہ تو یہ کہ محض چند افراد جو گھر کے ہیں اور نہ گھاٹ کے‘سڑک کے کنارے بیٹھ کر پورے علاقے کے سیاسی کیا بلکہ مذہبی امور تک طے کرلیتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انہیں سیاست کی”س“ معلوم ہے اور نہ مذہب کی ”م“۔اُن کی اصل حیثیت محض اُن چمچوں کے سوا اور کچھ نہیں جن سی سیاسی رکابیاں بجائی جاتی ہیں۔ ایسے افراد جب کسی علاقے پر اپنی بالادستی جماتے ہیں تو نتیجے کے طور پر اس علاقے کا ہر سیاسی اور سماجی ڈھانچہ اِدھراُدھر بکھر کر بالآخر منہدم ہوکر ہی رہ جاتا ہے۔جس کا مشاہدہ میں برسوں سے اپنے علاقے میں کررہا ہوں اور خوب کررہا ہوں آج ان سطور کو رقم کرنے کے پیچھے جو اصل سبب کارفرما ہے وہ یہی مشاہدہ اور میرے علاقے کی حالتِ زار ہے۔میں ہمیشہ سیاست اور سیاسی سرگرمیوں سے کوسوں دور رہتا ہوں وہ بھی تب جب سیاست دان طبقہ خوش نما لباس زیبِ تن کرکے انسانیت پر بدنما داغ چھوڑتے ہوں اور دل کے کفر کو زبان کی شیرین بیانی سے چھپانے کی مذموم کوشش کرتے ہوں۔
مجھے یہ بتانے میں کوئی عار محسوس نہیں ہوتی کہ میرا علاقہ سیاسی انتقام گیری کا اکھاڑہ بن چکا ہے جہاں ہر روز سیاسی کشتی کھیلی جاتی ہے جس کے نتیجے میں بے گناہ عوام کچلی جاتی ہے بالکل اس انگریزی مقولہ کے مصداق ”when two elephants fight grass get crashed“یعنی جب دو ہاتھی لڑتے ہیں تو گھاس کچلی جاتی ہے۔ ایک غم ہو تو بتاؤں‘جہاں ہزاروں مشکلیں ہوں وہاں زبان بولنے سے قاصر اور قلم لکھنے سے عاجز ہے۔ سر کو پیٹوں کہ جگر کو روؤں میں‘ آخر دل کادکھڑا سناؤں تو کیسے۔ سڑکوں کی حالتِ زار کو روؤں کہ ٹرانسپوڑت کی بدحالی کو‘پُل کی نامکمل تعمیر کا نقشہ کھینچوں یا کھیل کے میدان(play ground) کی ادھوری دیوار بندی کا حال سناؤں۔اب لکھوں تو کیا لکھوں‘ کہوں تو کیا کہوں‘الف لیلٰی کی طرح ہماری داستان طویل سے طویل تر ہوتی جائے گی جو ارتقاء سے شائد کبھی دوچار نہ ہوسکے گی۔ اب محض تسکین قلب کی خاطر دو ایک معاملے قلم بند کرنے کی کوشش کرتا ہوں اور امید کرتاہوں کہ حکامِ اعلیٰ وبالا اپنے ضمیر کی بازیافت کے بعد ہماری طرف کچھ التفات کرینگے۔
ہمارے یہاں سن2007ء میں دریائے جہلم پر ایک پُل کی بنیاد ڈالی گئی تھی۔لیکن بدقسمتی سے اُس پُل کی تعمیر کا خواب ابھی تک شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا‘تعمیر کا خواب شرمندہ تعبیر کیا بلکہ ابھی تک اُس کی تعمیر کا سلسلہ دو ایک معمولی ستونوں کی نشان دہی سے آگے نہ بڑھ سکا۔ مختلف دفاتر میں صدہا درخواستیں دی گئیں‘ریڑیو‘ٹیلی ویژن‘سوشل میڈیا (social media)اور اخبارات کے ذریعے اعلیٰ حکام تک کئی دفعہ بات پہنچائی گئی مگر بے سود اُن کے کانوں پر جُو تک نہ رینگی۔کوئی پُرسانِ حال نہیں‘ہر ایک آج ہوگا کل ہوگا کہتا رہا لیکن ابھی ہو نہ پایا۔ کئی دفعہ افسرانِ بالا اور سیاسی نماندے معائنہ کرنے ضرور آئے لیکن بد قسمتی یہ کہ وہ اپنا سیاسی الو سیدھا کرکے نکل گئے اور ہمارا مسلہ جوں کا توں پڑا رہا۔اس سے بھی بدتر حال ٹرانسپورٹ نظام کا ہے جس پر ہر علاقے کی تعمیر و ترقی اور خوش حالی کا انحصار ہوتا ہے۔لیکن ہمارے علاقے میں اس کے برعکس ہوتا ہے۔ہمارے علاقے کاٹرانسپورٹ نظام اس درجہ خستہ ہے کہ بچہ ہو یا بوڑھا ہر روز استحصال کا شکار ہوتا ہے‘ طلباء وطالبات کی تعلیم متاثر‘مریض پریشان‘ملازمین نالاں لیکن کوئی پُرسانِ حال نہیں۔ہرسنی کو ان سنی کردیاجاتاہے۔
کھیل کے میدان (play ground)کی ادھوری دیواربندی اپنی تکمیل کے انتظار میں سوگ منارہی ہے۔کئی سال قبل سرکار نے اس کی تعمیر کا بیڑاتواٹھایالیکن پھر سوتیلی ماں کا سا سلوک برتا۔شائد ہمارے ان مسائل کو ردی کی ٹوکری میں ڈال دیاگیا‘یہ ایک دو نہیں بلکہ صدہا مسائل ہیں جن سے ہم ہر روز دوچار ہوتے ہیں اور مشکلوں کے ایک ایسے بنور میں پھسے ہیں کہ کوئی راہِ فرار دکھائی نہیں دیتی۔ بقول مرزا غالبؔ ؎
کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی