سگریٹ پینے والے جان بوجھ کر اپنی زندگیوں کے ساتھ کھلواڑ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے ہیں۔افسوس اس بات کا ہے کہ سیگریٹ ڈبے پر متعلقہ کمپنیوں نے باضابطہ طور cigarate is injurious to healthتحریر کیا ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود بھی سگریٹ پینے والا کوئی پرواہ نہیں کرتا ہے۔
حالانکہ اب تک اس کے نتائج بھی منفی سامنے آئے ہیں اور سیگریٹ پینے والے لوگوں کی اکثریت بالآخرمہلک مرض یعنی کینسر کے شکار ہوجاتے ہیں۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق دنیا بھر میں سالانہ ساٹھ لاکھ افراد تمباکو نوشی سے ہونے والی بیماریوں میں مبتلا ہوکر مرجاتے ہیں۔ جن میں سے چھ لاکھ سے زیادہ افراد خود تمباکو نوشی نہیں کرتے بلکہ تمباکو نوشی کے ماحول میں موجود ہونے کے سبب اس کے دھوئیں کا شکار ہوجاتے ہیں۔
دنیا بھر میں ایک ارب سے زائد لوگ تمباکو نوشی کرتے ہیں جن میں سے اسی فیصد لوگ ترقی پذیر ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ پاکستان، بھارت، فلپائن، تھائی لینڈ اور کمبوڈیا میں تمباکو نوش لوگوں کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے اور اس اضافے کا بڑا سبب ان ممالک کا نوجوان طبقہ ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں جاپان اور چائنہ کے ساٹھ فیصد مرد حضرات سگریٹ نوشی کی عادت میں مبتلا ہیں۔ سگریٹ نوش آبادی میں بارہ فیصد خواتین شامل ہیں جبکہ روزانہ ایک لاکھ بچے سگریٹ نوشی شروع کردیتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ سگریٹ کے استعمال کرنے والے لڑکوں کے اخلاق پر بھی برا اثر پڑتا ہے۔ابتداء میں پینے والے کے رگ و ریشہ میں ایک خمار سا محسوس ہوتا ہے اس کے بعد ان میں سستی پیدا ہوجاتی ہے۔ اکثر طلباء کو بکثرت سگریٹ نوشی سے سیل یعنی تپ محرقہ (ٹی بی) کی بیماری ہونے لگتی ہے۔یہاں یہ بات قابل صد افسوس ہے کہ وادی میں جس کو پیرواری کہا جاتا ہے کی لڑکیاں بھی سگریٹ نوشی کی لت میں مبتلاہوری ہیں جو کسی امیہ سے کم نہیں ہے اور حد تو یہ ہے کہ اس رجحان دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ اب سگریٹ نوشی کو نہ ہی گناہ تصور کیا جاتا ہے اور نہ ہی اس کو نشہ یعنی منشیات کے زمرے میں لایا جاتا ہے بلکہ اس کو ایک عادت کہا جاتا ہے۔ان حالات میں والدین، اساتذہ اور سماج کے معزز لوگوں کو مل کر حقہ نوشی اور سگریٹ نوشی کے خلاف موثر اقدام اٹھانے کی ضرورت ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ اکثر ہونہار اور اچھے لڑکے سگریٹ نوشی کی وجہ سے تباہ و برباد ہو جاتے ہیں۔ تمباکو نوشی سے دل کے امراض اور پھیپھڑوں کے سرطان جیسی خطرناک بیماریاں ہوتی ہیں اور تمباکو نوشی کرنے والا اپنی اوسط عمر سے پندرہ سال پہلے دنیا سے گزر جاتاہے۔
طبی ماہرین کے مطابق ایک سگریٹ انسان کی عمر آٹھ منٹ تک کم کر دیتی ہے کیونکہ اس میں چار ہزار سے زائد نقصان دہ اجزاء موجود ہوتے ہیاور فضول خرچی کو جرم عظیم ہے سگریٹ نوشی سے اس کا ادراک ہے۔ والدین کیلئے لازمی ہے کہ وہ اپنے لخت جگروں کو تمباکو نوشی جیسے بُری لت سے چھٹکارا حاصل کرنے میں ان کی مدد کریں۔ ان پر سختی کرنے اور مار پیٹ کے بجائے انہیں اس کے نقصان سے آگاہ کریں۔ چند لمحات کی تفریح کی غرض سے پی جانے والی سگریٹ ان کے آنے والے مستقبل کو تاریکی میں دھکیل سکتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوامی سطح پر سگریٹ نوشی کے خلاف انفرادی واجتماعی طور اقدامات اٹھائے جائیں اور سرکاری سطح پر اس پر پابندی عائد کرنے کیلئے کوئی لائحہ عمل ترتیب دیا جائے تاکہ ہمارے سماج کی نئی نسل اس بُری لت سے محفوظ رہ سکے۔