ہم دراصل زندگی کے اقدار کی صحیح پہچان کرنے سے قاصر ہیں، عزت اور وقار کی اصلی تصویر دھند لی ہوچکی ہے اور اخلاقی اقدار عِنقا ہوچکے ہیں۔ ہر چیز کو پیسے اور روپے سے تولنا ہمارے سماج کا خاصا بن چکا ہے۔ انسان تہذیب کے ارتقائی منازل طے کرتے کرتے جہاں عزت اور عصمت کو اولین ترجیح دینے کا پابند بن چکا تھا، گردش ایام نے عزت و ناموس کو مادیت اور مادہ پرستی سے جوڑدیا اور کشمیر جو پیرواری سے بھی اس کے زہریلے اثر سے بچنے میں کامیاب نہ ہوئی اور نتیجہ یہ نکلا کہ زندگی کے ہر ایک پہلو میں ایک خاصی تبدیلی رونما ہوئی۔ جس کا ماحصل اس کے سوا کچھ نہیں، کہ جس طریقے سے عیش و آرام کی سہولیات میسر ہوں اس سے کسی بھی طرح حاصل کیا جائے۔
اس میں کوئی مضائقہ نہیں اور یہ کربناک صورت حال سماج کے تانے بانے بکھیرنے کے بنیادی وجوہات ہی ثابت ہورہے ہیں نکاح زندگی کاایک اہم سلسلہ ہے لیکن مادیت پرستی نے اس کو اس قدر مشکل ترین بنادیا کہ نسل انسانی کو بقائے دوام عطا کرنے سے زیادہ مالی استحکام حاصل کرنے اور سماج میں جھوٹی شان اور اونچا رتبہ دکھانے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس فطری عمل کو اپنی اصلی ہیت اور ضرورت سے علیحدہ کرکے سماج میں جس طرح کی بے راہ روی نے جنم لیا ہے اس کی نظیر ملنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بن گئی ہے، ہمارے نوجوانوں کی اکثریت شادی کو اپنی معاشی حیثیت کو بہتر بنانے کا ذریعہ سمجھتے ہیں اور اس کیلئے ان نوجوانوں کے پاس لڑکی کے کردار اور حسن اخلاق کی نہیں، بلکہ شادی سے ہونے والی دلہن کے گھر سے دولت آنے کی فکر لاحق ہوتی ہے اور من پسند رشتہ ڈھونڈنے کیلئے سالہاسال انتظار کرنا ان کیلئے کوئی بڑی بات نہیں۔
غریب اور سفید پوش گھرانوں کی لڑکیوں کیلئے شادی کے بندھن میں بندھنے کا معاملہ دن بہ دن کافی مشکل بنتاجارہا ہے۔کیونکہ وہ موجودہ رسم ورواج پر پورے نہیں اترسکتے ہیں۔ اگر لڑکی اچھا کماتی ہو،،کسی اچھے دفتر میں تعینات ہو تو اس کو اچھی جگہ پر رشتہ بھی ملتا ہے۔ اگر چہ اس کے چال و چلن اور کردار میں کسی طرح کیخرابی بھی ہو تی ہے تو اس سے صرف نظر بھی کیا جاتا ہے۔ وادی کشمیر میں دیر سے شادی کرنے کا رواج اب عام ہوچکا ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ دیر سے شادی کرنے کے پیچھے جو بھی عوامل کارفرما ہیں چاہے اقتصادی مشکلات ہوں یا سماجی بدعات ہوں۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ بڑھتے ہوئے نوجوانوں کی فطری خواہش اور ضرورت کو دبایا نہیں جاسکتا ہے۔ کیونکہ یہ ایک حیاتیاتی عمل ہیاور ایک ضرورت بھی ہے لیکن اس ضرورت کا بروقت سدباب نہ کرنے سے سماج میں برائیاں پنپتی رہتی ہیں اور اخلاقی اقدار کی صریحاًپامالی ہوجاتی ہے۔یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ سماج میں بدعات اور برائیوں کی بنیادی وجہ مذہبی اقدارواصولوں سے دوری ہے۔مذہبی اقدار سے دوری اور فطرت سے ہم آہنگ نہ ہوناسماج کی بربادی کا باعث بنتی ہیں اور اس کے تدارک کیلئے مذہبی اصولوں کی پیروی ناگزیر بنتی ہے۔تب ممکن ہے کہ ہم لوگ بکھرے ہوئے سماج کو ایک بار پھر پٹری پر لاسکتے ہیں۔اگر سماج کے حساس اور غیرت مند لوگ بھی خاموش تماشائی رہے تو ہمارا سماج مزید تباہی کی جانب گامزن ہوجائے گا۔ اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ سماج کا ہر کوئی فرد انفرادیء اور اجتماعی طور خاص کر نوجوانوں کو سماج سدھار کیلئے متحرک ہونا ہوگا اور مذہبی اقدار کی پاسداری کے ساتھ ساتھ مادہ پرستی اور لالچ کو خیر باد کرنا ہوگا۔