الف عاجز
کلسٹر یونیورسٹی سرینگر
معصوم عائشہ کا، اتنا قصور تھا
گھر سے نہ لاسکی تھی، دولت جہیز کی
اک عائشہ نہیں رے، لاکھوں میں لڑکیاں
ہر روز مارتی ہے، وحشت جہیز کی
سجاد تیمی
جہیز ایک ایسا ناسور جس کی وجہ سے ملت کی کئی بیٹیاں سپرد خاک ہوگئی۔ کہتے تو ہم سب ہے جہیز ایک لعنت ہے لیکن اس پر عمل پیرا کوئی نہیں ہوتا۔ اس ناسور کے خلاف کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جاتا، اس ناسور کو جڑ سے ختم کرنے کی کوئی ترکیب نہیں کی جاتی۔ ہمارے مولوی حضرات، علماء کرام اور باقی سب جہیز کے خلاف تو بولتے ہیں لیکن عمل کوئی نہیں کرتا، جب لینے کی بھاری آتی ہیں تو سب دل کھول کر لے لیتے ہیں لیکن کوئی لڑکی والوں سے یہ نہیں کہتا کہ آپ نے اپنی بیٹی، اپنے جگر کا ٹکڑا ہمیں دے دیا یہی کافی ہے۔ نہیں! بلکہ بات کو گھما پھرا کر کہا جاتا ہے ہمیں کچھ نہیں چاہیے باقی آپ لوگ اپنی بیٹی کو جو دینا چاہتے ہیں وہ دے دیجیے ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔ ارے اللّٰہ کے بندوں ذرا شرم کرو اور یہ دیکھنے کی کوشش کرو کہ لڑکی کا باپ اپنے داماد کو دینے کے بجائے بیٹی کو ہی کیوں نہ دے لیکن وہ دے تو رہا ہے نا اس کو دینا تو پڑتا ہے نا، آخر پہنچ تو سب کچھ لڑکی کے سسرال ہی جاتا ہے، چاہے جہیز کے نام پر ہو یا گفٹ کے نام پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ ہزاروں لاکھوں لڑکیاں شادی کی عمر کو پہنچ کر بھی باپ کی دہلیز پر پڑی رہتی ہے، یہی وجہ ہے کہ ہماری بیٹیاں خودکشی جیسے بھیانک قدم اُٹھاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لڑکی کے پیدا ہوتے ہی والدین کو یہ فکر لگ جاتی ہے کہ اُن کی بیٹی کا نصیب اچھا ہو۔ یہی وجہ کہ بیٹی کی پیدائش پر سب کو چُپ لگ جاتی ہیں۔ خدا واسطہ معصوم بچیوں کی زندگی جہنم نہ بناؤ۔
حال ہی میں احمد آباد کی عائشہ نامی ایک لڑکی کا ویڈیو سامنے آیا جس نے سب کا دل و دماغ جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ اُس ویڈیو میں لڑکی کی ذہنی کیفیات اور اُس کے کرب کا خوب اندازہ ہو جاتا ہے۔ چہرہ کبھی ہنس کر کِھل اُٹھتا ہے تو کبھی غم میں ڈوب جاتا ہے۔ اُس نے کرب میں جو الفاظ ادا کئے وہ صرف الفاظ نہیں بلکہ اِس سماج کی ایک بھیانک تصویر ہے۔ وہ الفاظ عائشہ پر ہو رہے مظالم کے گواہ ہے۔ وہ مظالم جو ایک گھرانہ دوسرے گھرانے کی لڑکی پر صدیوں سے ڈھاتے آرہے ہیں اور صدیوں تک ڈھاتے رہے گے۔ عائشہ کے دل چیر دینے والے الفاظ ”ہیلو اسلام علیکم میرا نام ہے عائشہ عارف خان ۔ میں جو کچھ بھی کرنا چاہتی ہوں اُس میں کسی کا کوئی دباؤ نہیں ہے۔ اب بس کیا کہیں! سمجھ لیجئے خدا کی دی ہوئی زندگی بس اتنی ہی تھی اور مجھے اتنی زندگی بہت سکون والی ملی اور ڈیر ڈیڈ کب تک لڑیں گے اپنوں سے کیس واپس لے لو۔ عائشہ لڑائیوں کے لئے نہیں بنی۔ پیار کرتے ہیں عارف سے اُس سے پریشان تھوڑی کریں گے۔ اگر اُس سے آزادی چاہیے تو ٹھیک ہے وہ آزاد رہے۔ چلو اپنی زندگی تو یہی تک ہے میں خوش ہوں کہ میں اب اللّٰہ سے ملوں گی، اُنہیں کہوں گی میرے سے غلطی کہاں رہ گئی، ماں باپ بہت اچھے ملے، دوست بھی بہت اچھے ملے پر شاید کہیں کمی رہ گئی، مجھ میں یا پھر شاید تقدیر میں،۔ میں خوش ہوں سکون سے جانا چاہتی ہوں۔ اللّٰہ سے دعا کرتی ہوں کہ اب دوبارہ انسانوں کی شکل نہ دکھائیں ۔ ایک چیز ضرور سیکھ لی محبت کرنی ہے تو دو طرفہ کرو ایک طرفہ میں کچھ حاصل نہیں ہوتا، چلو کچھ محبتیں تو نکاح کے بعد بھی ادھوری رہتی ہے۔ دعا کرتی ہوں یہ پیاری سی ندی مجھے اپنے اندر سما لے۔ میں ہواؤں کی طرح ہوں بس بہنا چاہتی ہوں اور بہتے رہنا چاہتی ہوں، کسی کے لئے نہیں رُکنا، میں خوش ہوں آج کے دن مجھے جن سوالوں کا جواب چاہیے تھا مل گیا۔ بس مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا کیا پتہ جنت ملے نہ ملے۔ خداحافظ“۔
ویڈیو بنانے کے بعد اُس کی اپنے والدین سے بات ہوئی اور اُن کی لاکھ منتوںاور قسموں کے باوجود بھی اُس نے سابرمتی ندی میں چھلانگ لگا کر خودکشی کر لی۔
عائشہ کی شادی راجستھان کے جالورا گاؤں کے عارف خان سے ہوئی تھی۔ شادی کے کچھ وقت بعد ہی عائشہ کے سسرال والوں نے اُس کو جہیز کے لئے تنگ کرنا شروع کر دیا۔ مارنا پیٹنا، گالی گلوچ، طعنے وغیرہ غرض عائشہ پر مظالم ڈھانے شروع کئے۔ کیا کچھ نہیں برداشت کیا ہوگا اُس نے۔ ایک لڑکی جو اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر چلی آتی ہیں اور اپنی ساری امیدیں اپنے شوہر سے وابستہ کر لیتی ہے اور اُس سے چاہتی بھی ہے تو کیا بس تھوڑی سی محبت لیکن اُس کو محبت کے بجائے ملتا کیا ہے؟ نفرت، غصہ، بے عزتی، بار بار ٹھکرائے جانے کا درد۔ اُس کے شوہر کے لئے اگر کچھ معنی رکھتا ہے تو صرف پیسہ اور اسی پیسے کی لالچ میں عارف خان عائشہ کو اُس کے میکے چھوڑ آتا ہے اور واپس لے جانے کی شرط ڈیڑھ لاکھ روپے رکھتا ہے۔ عائشہ کا والد جو کہ پیشے سے درزی ہے زمین آسمان ایک کر کے رقم اکٹھی کرتا ہے اور اپنی بیٹی کو عارف کے ساتھ رخصت کر لیتا ہے لیکن بات یہاں پر ختم نہیں ہوتی پیسے مل جانے کے بعد عائشہ کے سسرال والوں کا لالچ بڑھ جاتا ہے اور مزید پیسے حاصل کرنے کے لئے عارف خان عائشہ کو دوبارہ اُس کے میکے چھوڑ آتا ہے۔ عائشہ کے والدین کے پاس چونکہ اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ مزید رقم ادا کر سکیں تو اس لئے وہ عارف پر کیس دائر کر لیتے ہیں لیکن اِس سے بھی کچھ نہیں ہوتا اُلٹا عارف عائشہ سے بات کرنا چھوڑ دیتا ہے اور یہاں تک کہہ دیتا ہے کہ وہ جاکے کہیں مر جائیں اور اُس کو آزاد کر دے لیکن مرنے سے پہلے اُس کے حق میں ایک ویڈیو بنا کر جائیں تاکہ اُس پر کوئی انگلی نہ اُٹھا سکیں۔
اب ہر کوئی یہ بات کہہ رہا ہے کہ عائشہ کو خودکشی نہیں کرنی چاہیے تھی، اُس کو حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے تھا، وہ جہنمی ہے اُس نے اپنے ہاتھوں سے اپنے لئے جہنم خرید لی۔ لیکن خدارا یہ بتائیں کہ وہ کس کس کا سامنا کرتی، کس کس سے لڑتی اپنے شوہر سے، ساس سُسر سے یا پھر اِس سماج سے۔۔۔۔۔۔۔۔ اُس کا قصوروار کیا صرف اُس کا شوہر ہے یا پھر یہ پورا سماج، یہ قوم جو لڑکی کی شادی ہوتے ہی یہ کھوج لگانے میں لگ جاتی ہے کہ لڑکی اپنے ساتھ کیا لائی ہیں، کہیں خالی ہاتھ تو نہیں آگئی۔ تاکہ اُنہیں دو چار باتیں سُنانے کو مل جائے۔ اِس خودکشی کا قصوروار صرف ایک فرد نہیں بلکہ یہ پورا سماج ہے۔ یہ پوری قوم ہے جنہوں نے جہیز جیسی غلیظ رسم کو بڑھاوا دے رکھا ہے۔ اس کا ذمہ دار صرف وہ نہیں جو لے رہا ہے بلکہ وہ بھی ہے جو دے رہا ہے اور غریب باپ کی لڑکیوں کے لئے گڑھا کھود رہا ہے اور اسی لینے دینے کے رواج نے اِس ناسور کو زندہ رکھا یے۔
ہاں یہ بات صحیح ہے کہ عائشہ کو ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا اُس نے غلط کیا اور لوگوں نے تو اُس کو جہنم کی بشارت بھی دے دی، اُس کو باقاعدہ جہنمی قرار دے دیا گیا حالانکہ جنت اور جہنم بھیجنے کا اختیار اللّٰہ تعالیٰ نے کسی کو نہیں دیا اور رہا خودکشی جیسا غلط قدم اُٹھانے کا سوال تو یہ بات وہ خود بھی جانتی تھی تبھی تو جاتے وقت اتنی بڑی بات کہہ گئی "دعاؤں میں یاد رکھنا کیا پتہ جنت ملے نا ملے۔“ اِس سب کے باوجود بھی اُس نے خودکشی کر لیکیوں؟ اگر اُس کو پتہ تھا کہ خودکشی کر کے وہ غلط کر رہی ہے پھر بھی اُس نے یہ غلط قدم کیوں اُٹھایا۔کیونکہ اُس کی زندگی بھی جہنم بنی ہوئی تھی اور اُس نے خود کو دنیا کے جہنم سے نجات دلائی۔جیسا آپ سب نے سُنا ہوگا اپنے والدین سے بات کرتے ہوئے وہ بار بار کہہ رہی تھی کہ ”میں تھک چکی ہوں، بس بہت ہوگیا اب اور نہیں سہہ سکتی میں تھک چکی ہوں امی، میں تھک چکی ہوں۔ کب تک خود کے لئے پریشان ہوتی رہوں اور آپ لوگوں کو پریشان کرتی رہوں کب تک؟“ حالانکہ اُس کے والدین نے اُس کی کتنی منتیں کی، کتنے واسطے دئے۔ یہاں تک کہ حضرت امہ عائشہ صدیقہؓ کا واسطہ تک دے دیا، کلام پاک کی قسم تک دے دی لیکن پھر بھی وہ نہیں مانی کیوں؟ کیونکہ وہ دنیا کے جہنم میں جل کر ختم ہو چکی تھی اور اپنے والدین کو اُس آگ میں جلنے سے بچانا چاہتی تھی جس میں وہ خود جل رہی تھی۔ اِس سماج کی بنائی ہوئی جہنم نے اُس کو جیتے جی راکھ کر ڈالا تھا۔
ہر کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ اُس کو خودکشی کے بجائے طلاق لینی چاہیے تھی لیکن کیا طلاق لے کر بھی اُس کو سکون میسر ہوتا؟ کیا یہ سماج اُس کو جینے دیتا؟ آپ ہی بتائیں خدارا جب کوئی لڑکی طلاق لے کر آتی بھی ہیں تو کیا یہ سماج اُس کو مشکوک نظروں سے نہیں دیکھتا؟ کیا یہ سماج بات بات پر اُس کو یہ احساس نہیں دِلاتا کہ وہ باپ کا بوجھ بن کر آئی ہے؟ کیا یہ سماج اُس کو بار بار یہ نہیں کہتا کہ طلاق لے کر باپ کے گھر آنے کی کیا ضرورت تھی، صبر کر لیتی، اپنے بچوں کا سوچتی، اپنے والدین کا سوچتی، مر جاتی لیکن باپ کے گھر کیوں آئی۔ یہ سماج ہی تو ہے جنہوں نے زندگی حرام بنا رکھی ہے، ایسے ایسے رواج روا رکھے ہے کہ بیٹی باپ کے گھر آنے سے پہلے ہزار دفعہ سوچتی ہے اور اگر وہی لڑکی خود کو ختم کر لے تو اُس کو جہنمی، ڈرپوک، کمزور، ذہنی مریض اور پتہ نہیں کیا کیا القاب دئے جاتے ہیں۔ ہاں یہ بات صحیح ہے کہ خودکشی حرام ہے لیکن اِس سماج نے لڑکیوں کی زندگی جو حرام بنا رکھی ہے کیا وہ صحیح ہے؟
اُس کی ویڈیو دیکھنے کے بعد ہر کوئی جہیز کا مخالف نظر آرہا ہے ہر کوئی یہ کہہ رہا ہے کہ اِس ناسور کو جڑ سے ختم کیا جائے۔ لیکن عمل کوئی نہیں کرتا۔ ایسا صرف آج نہیں ہو رہا بلکہ تب تب ہوتا آیا ہے جب جب ہماری بیٹی جہیز کی بھینٹ چڑھ گئی۔ اگر سب جہیز کے مخالف ہیں تو جہیز کے حمایتی پیدا کہاں سے ہوتے ہیں۔ اصل میں ہم لوگ منافق ہے جو وقت دیکھ کر رنگ بدل لیتے ہیں اور لینے کی بھاری آجائیں تو دل کھول کر لے لیتے ہیں اور بڑے فخر سے کہتے ہیں ہم نے اپنی بہو سے کچھ نہیں لیا ہاں اُس کے باپ نے پیار سے اپنی بیٹی کو یہ یہ سامان دے دیا ہے ایسے ایسے زیورات دے دیئے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ اور بیٹے کی شادی مال و جائیداد دیکھ کر طے کی جاتی ہیں، تربیت اور شرافت دیکھ کر نہیں۔ بیٹے کی شادی لڑکی کی کمائی دیکھ کر طے کی جاتی ہے، اُس کی تعلیم و تربیت دیکھ کر نہیں۔ ہم جہیز کے خلاف تو بولتے رہتے ہیں لیکن عمل کرنے کی زحمت نہیں کرتے۔ ہم جہیز کے مخالف تو ہے لیکن دوسروں کے لئے اپنے لئے نہیں۔ ہاں کسی کی بیٹی جہیز کی بھینٹ چڑھ کر خودکشی کر لے تو بڑے بڑے فتوے دئے جاتے ہیں لیکن جب اُس بچی پر ظلم و ستم ہو رہا ہوتا ہے تو اُس سے صبر و تحمل کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ اُس سے یہ کہتے رہتے ہیں کہ نصیب میں یہی لکھا تھا۔ اُس کی تکلیفوں کا قصوروار نصیب کو ٹہرایا جاتا ہے لیکن اُس کی حمایت میں کچھ کرنے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ اُس کے حق میں کچھ بولا نہیں جاتا۔ ہاں اگر وہ خود اپنے خلاف بول اُٹھے تو اُس کو جاہل، گوار اور نافرمان کا لقب دے دیا جاتا ہے اور اگر اُس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جائے اور وہ خودکشی کر لے تو اُس کو جہنمی قرار دیا جاتا ہے۔
عائشہ نے اتنے ظلم سہے کہ اُس کو انسانوں سے وحشت ہونے لگی اور مرتے وقت اتنے دلدوز الفاظ ادا کئے”میں خوش ہوں کہ میں آج خدا سے ملنے جا رہی ہوں اور اُس کو جاکر بتاؤں گی کہ مجھے انسانوں کی شکل دوبارہ کبھی نہ دکھائے۔“ ۔
جہیز کے نام پر بیٹیوں کو اس قدر تڑپایا جاتا ہے کہ وہ انسانوں سے پناہ مانگنے لگتی ہے۔ اِس سے بڑھ کر اور کیا بات ہوگی کہ ہماری بیٹیوں کو جہیز کے نام پر لوٹا جا رہا ہے، مارا جا رہا ہے، قتل کیا جا رہا ہے آئیں روز ایسے دلدوز واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں کہ روح کانپ جاتی ہے۔ ہماری بیٹیاں زندگی سے چھٹکارا پانے کے لیے اپنا خاتمہ نہیں کرتیں بلکہ اُس درد کو ختم کرنے کی کوشش کرتی ہے جس سے وہ گزر رہی ہوتی ہے۔ عائشہ نے جاتے وقت جو الفاظ ادا کئے وہ انسانیت کو شرمسار کر گئیں کیونکہ اُس کا واسطہ انسان کے روپ میں جانوروں سے پڑا تھا اور اُس نے اپنے خاتمے میں ہی بہتری سمجھی۔
یہ صرف ایک عائشہ کی کہانی نہیں ہیں ہر اُس بیٹی کی کہانی ہے جو جہیز کے نام پر لٹتی آ رہی ہے، جو جہیز کی بھیٹ چڑھ گئی ہے۔ خودکشی پر فتویٰ دینے والوں خدا کا واسطہ جہیز کے نام پر بھی کوئی ایسا فتویٰ دے دو کہ یہ سماج سدھر جائیں۔ اُس ناسور کو جڑ سے ختم کرنے کا کچھ ایسا اقدام کرو کہ آنے والی نسل بچ جائیں۔ کوئی ایسا فتویٰ دے دو کہ جہیز کا نام و نشان مٹ جائیں تاکہ پھر سے کسی لیاقت علی کو اپنی بیٹی کو زندگی جینے کی منتیں نہ کرنی پڑے، تاکہ پھر سے کسی عائشہ کو خدا کے پاس جاکر یہ نہ کہنا پڑے ”مجھے انسانوں کی شکل دوبارہ کبھی نہ دکھائیں۔“ کچھ ایسا کرو کہ بیٹی کی رخصتی پر کوئی باپ خوفزدہ نہ ہو۔ کچھ ایسا کرو کہ کوئی بیٹی جہیز ادا نہ کر پانے کی وجہ سے اپنا وجود نہ ختم کریں۔ کچھ کرو خدا کا واسطہ اِس ناسور کو جڑ سے ختم کرنے کے لئے کچھ کرو۔
“سدھر جا اے قوم سدھر جا ابھی بھی وقت ہے۔ ”۔