زندگی کی تلخیاں اور ہم
بے بسی کی ہر گھڑی اور ہم
اف کرب کے رات دن اور ہم
یہ جہاں کے غم تمام اور ہم
خاموشیاں سناٹے بے بسی اور ہم
چھین گئ ہماری شوخیاں اور ہم
لوگ کہتے ہیں ہمیں مغرور اور ہم
مسکرا کر غم چھپائیں اور ہم
دو آنسو گرگئے بے بسی کے آنکھ سے
مسکراتے ہم رہے یار لوگوں کے لئے
یار سمجھے سب خیر ہم بکھر گئے
وہ نہ تڑپیں غم میں ہمارے اور ہم
کوئی اپنا درد و غم کیسے کہئے
وہ عقل مند ہوش والے اور ہم
درد میں ڈوبے ہوئے جب ہم چل دئے
لوگ سمجھے کبر و نخوت اور ہم
زندگی کی یہ اداسی اور ایسا کرب
رو کے بھی جو مسکرائیں اور ہم
درد جب بھی ہو زیادہ درد سے
مسکرا کر وہ چھپائے اور ہم
کس کو کب اب تک ملی ہر اک خوشی
ہم ہی کیونکر نہ مسکرائیں اور ہم
الطاف جمیل ندوی