ہردیپ ایس پوری
شہری بھارت اور زمین جائیداد سے متعلق شعبے کی تاریخ ہمیشہ دو مراحل میں یاد کی جائے گی۔ ماقبل ریرا اور مابعد ریرا
صارفین کا تحفظ مودی حکومت کے لئے ایک اہم اصول کی حیثیت رکھتا ہے۔ صارف کسی بھی صنعت کو سہارا دیتا ہے، جس کے مفادات کا تحفظ اس کی نمو اور ترقی کے لئے مرکزی حیثیت کا حامل ہوتا ہے۔ اقتدار سنبھالنے کے ڈیڑھ برس کی مدت کے اندر مودی حکومت نے مارچ 2016 میں ریرا قانون وضع کیا جو ایک دہائی سے زیادہ التوا میں رہا تھا۔
ریرا نے اب تک غیر منظم رہے ایک شعبے میں حکمرانی کے جوہر پیدا کر دیے۔ نوٹ بندی اور گڈس اینڈ سروسز ٹیکس قوانین کے ساتھ اس نے بڑی حد تک زمین جائیداد کے شعبے کو کالے دھن سے مبرا بنا دیا۔
ریرا میں تغیراتی تجاویز شامل ہیں جو دانستہ طور پر ان لوگوں پر قدغن لگاتی ہیں جو لگاتار زمین جائیداد کے شعبے کے لئے ایک لعنت بنے ہوئے تھے۔ اس قانون کے تحت اس بات کا انتظام کیا گیا ہے کہ کوئی بھی پروجیکٹ مجاز حاکم کی منظوری کے بغیر پروجیکٹ منصوبوں کی فراہمی کے بغیر فروخت نہیں کیا جا سکتا۔ اور اس پروجیکٹ کا ریگولیٹری حاکم کے تحت درج رجسٹر ہونا ضروری ہے، اس طریقے سے جعل سازی پر مبنی اشتہارات کے ذریعہ فروخت کرنے کے تمام راستے بند کر دیے گئے۔
پروموٹروں کے لئے لازم ہے کہ وہ سرمایے کی ناجائز منتقلی کی روک تھام کے لئے ہر حال میں پروجیکٹ پر مبنی علیحدہ بینک کھاتے کھول کر رکھیں۔ کارپیٹ ایریا پر مبنی یونٹ کے سائزوں کا لازمی انکشاف بدعنوانی کے تمام تر طریقوں کا راستہ بند کرتا ہے۔ پرموٹر یا خریدار کو ہر حال میں یکساں شرح سود کی ادائیگی کا پابند بنایا گیا ہے جس سے مساویانہ اصول کو تقویت حاصل ہوئی ہے۔ اس قانون میں شامل یہ اور دیگر تجاویز ایسی ہیں جنہوں نے صارفین کو بااختیار بنایا ہے اور وہ اس شعبے میں پہلے سے مروجہ غلط طریقوں کی اصلاح کے اہل بن گئے ہیں۔
اس قانون سازی کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو محسوس ہوتا ہے کہ اس کے تحت تمام تر کوششیں اس بات کی کی گئی تھیں کہ اس قانون کو بے اثر بنا دیا جائے اور اب بھی اس سلسلے میں کوششیں جاری ہیں۔
برسوں کی گفت و شنید کے بعد یہ بل 2013 میں یوپی اے کے دورِ حکومت کے دوران راجیہ سبھا میں متعارف کرایا گیاتھا ۔ 2013 میں متعارف کرائے گئے بل اور 2016 کے ایکٹ میں واقع زبردست فرق کو نمایاں کرنا لازمی ہے۔ اس سے ملک کے مکانات خریدنے والوں کے مفادات کے تحفظ کے لئے مودی حکومت کی عہد بندگی کی تفہیم آسان ہوگی۔
2013 کا بل اپنی نوعیت کے لحاظ سے نہ تو جاری پروجیکٹوں پر احاطہ کرتا تھا، اور نہ تجارتی زمین جائیداد پر۔ پروجیکٹوں کو درج رجسٹر کرانے کی حدود اس قدر اونچی تھیں کہ بیشتر پروجیکٹس اس قانون کے تحت آ ہی نہیں پاتے تھے۔ اس طرح کی استثنائیوں نے 2013 کے بل کو بے معنی بنا دیا تھا اور اصلاً یہ بل مکانات کے خریداروں کے مفادات کے منافی تھا۔
2014 میں مودی حکومت کے زمام اقتدار سنبھالنے کے بعد، متعدد شراکت داروں سے مشاورت کے ساتھ ساتھ اس کے بعد جاری اور تجارتی پروجیکٹوں دونوں کے سلسلے میں ایک مجموعی نظرثانی کا عمل انجام دیا گیا اور ان تمام کو اس بل میں شامل کیا گیا۔ پروجیکٹوں کے رجسٹریشن کی حدود کو بھی نیچے لایا گیا تاکہ زیادہ سے زیادہ پروجیکٹوں کو اس قانون کے دائرے کے تحت لایا جا سکے۔ وزیر اعظم جناب نریندر مودی کے عزم محکم اور جرأت مندانہ فیصلے کے بغیر ریرا کبھی بھی قانون سازی کی شکل نہیں لےسکتا تھا۔
ایک طرف جہاں 2013 کا بل پارلیمنٹ میں معرض التوا میں پڑا ہوا تھا، ریاست مہاراشٹر میں کانگریس نے خاموشی سے 2012 میں اسمبلی میں اپنا ایک قانون وضع کر لیا تھا اور فروری 2014 میں آئین ہند کے آرٹیکل 254 کے تحت صدارتی منظوری بھی حاصل کر لی تھی اور یہ کام 2014 کے عام انتخابات سے ٹھیک دو مہینے پہلے انجام دیا گیا تھا۔ اس صورت میں مہاراشٹر میں ریرا نافذالعمل نہیں ہو سکتا تھا۔
مرکز میں کانگریس کے افسوس ناک کاموں اور مہاراشٹر میں اٹھائے گئے قدم بے اثر نہیں ہوئے اور یہ اب بھی مرکز میں اس وقت کی یو پی اے حکومت کی داغدار طرز حکمرانی کی علامت اور سوہان روح بنے ہوئے ہیں۔ یہ شبہ مزید قوی اس وقت ہوتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ ریاستی قانون یقینی طور پر صارف دوست نہیں تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یوپی اے ریرا وضع کرنے کے معاملے میں اصلاً کبھی سنجیدہ تھی ہی نہیں۔
عام انتخابات سے قبل سیاسی مفادات حاصل کرنے کی غرض سے یوپی اے نے ایک نامکمل اور نامناسب قانون وضع کیا۔ آئین ہند کے آرٹیکل 254 کے تحت منظوری حاصل کرتے ہوئے اپنی پارٹی کے ریاستی بل کو اس عمل سے گزارا جو مہاراشٹر میں مکانات کے خریداروں کے لئے مستقل خسارہ بن جاتا۔
مودی جی کی حکومت نے ریرا کی دفعہ 92 کے ذریعہ ریاستی قانون منسوخ کرکے اس نقص کو ختم کر دیا۔ اس کے لئے آئین ہند کے آرٹیکل 254 کے تحت موجود تجویز کو بروئے کار لایا گیا جو تنسیخ کی گنجائش کی حامل ہے۔ یہ قدم اس حقیقت کے باوجود اٹھایا گیا کہ اکتوبر 2014 میں مہاراشٹر کی حکومت بدلی جو اب بی جے پی کی قیادت والی حکومت تھی۔
ریرا کے تئیں ہماری عہد بندگی صرف مارچ 2016 میں پارلیمنٹ کے ذریعہ اس کی قانون سازی تک ہی محدود نہیں ہے۔ ہم نے متعدد ہائی کورٹوں میں اس کے خلاف متعدد عرضی دعووں کا سامنا کیا جن میں ریرا کے آئینی جواز کو چنوتی دی گئی تھی۔ ماہ دسمبر 2017 میں یومیہ سماعت کے بعد جو تقریباً دو ہفتے تک چلی، ممبئی کی معزز ہائی کورٹ نے مکمل قانون کو صحیح ٹھہرایا اور اس کے مجاز ہونے کے سلسلے میں اٹھائے گئے تمام تر شبہات کا ازالہ کیا اورا س طریقے سے ریرا کی ضرورت اور اہمیت اجاگر ہوئی۔
ریرا امدادِ باہمی پر مبنی وفاقیت کی بامعنی کوشش کہی جا سکتی ہے۔ اگرچہ یہ ایکٹ مرکزی حکومت نے وضع کیا، تاہم اس سے متعلق تمام تر قواعد کو ریاستی حکومتوں کے ذریعہ مشتہر کیا جانا ہے اور ریگولیٹری اتھارٹیز اور اپیلیٹ ٹریبیونل بھی انہیں کے ذریعہ مقرر کیے جانے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ریگولیٹری حکام کو یہ اختیارات بھی دیے گئے ہیں کہ وہ روز مرہ کے کام کاج کا انتظام کریں، تنازعات کا تصفیہ کریں اور پروجیکٹس سے متعلق اطلاعات فراہم کرنے کے لئے سرگرم اور معلوماتی ویب سائٹ بھی فراہم کریں۔
اس کے برعکس آئینی غیر ذمہ داری اور ناقص حکمرانی کی ایک زبردست مثال کے طور پر ریاست مغربی بنگال نے ریرا کو نظر انداز کرکے پارلیمنٹ کی بالادستی کو بھی خاطر میں نہ لاتے ہوئے 2017 میں اپنا ریاستی قانون ۔ مغربی بنگال ہاؤسنگ صنعتی ریگولیشن ایکٹ (ڈبلیو بی ایچ آئی آر اے)وضع کر ڈالا۔
حکومت ہند کی کثیر النوع کوششوں کے باوجود ریاست مغربی بنگال نے ریرا نافذ کرنے سے انکار کر دیا جس سے مغربی بنگال کے مکانات کے خریداروں کو ناقابل تلافی خسارہ لاحق ہو رہا ہے۔ اس بات سے بخوبی طور پر آگاہ ہونے کے باوجود کہ اس موضوع پر مرکزی قانون پہلے سے موجود ہے، مغربی بنگال کی حکومت نے 2017 میں ڈبلیو بی ایچ آئی آر اے وضع کیا۔ یہاں تک کہ عزت مآب صدر جمہوریہ ہند سے بھی رابطہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی جبکہ آئین کے آرٹیکل 254 کے تحت ریاستی بل کے لئے منظوری درکار ہوتی ہے۔ مغربی بنگال کے ذریعہ آئینی اصولوں کی یہ خلاف ورزی ایسی ہے جسے مفاد عامہ کی عرضی (پی آئی ایل) کے ذریعہ عدالت عالیہ یعنی سپریم کورٹ میں چنوتی دی گئی ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ جلد ہی ڈبلیو بی ایچ آئی آر اے غیر آئینی قرار دیا جائے گا اور ہمارے پاس ایک ملک ایک ریرا کا قانون دستیاب ہوگا جس کے ذریعہ مغربی بنگال کے مکانات کے خریداروں کو بھی مساوی طور پر فائدہ حاصل ہوگا۔
مئی 2017 میں ریرا کے نافذ العمل ہونے کی تاریخ سے لے کر اب تک ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں نے قوائد مشتہر کیے ہیں، 30 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں نے زمین جائیداد ریگولیٹری اتھارٹیز تشکیل دی ہیں اور 26 نے اپیلیٹ ٹربیونل قائم کیے ہیں۔ پروجیکٹ سے متعلق اطلاعات فراہم کرنے کے لئے ویب پورٹل کے سلسلے کا آغاز جو پروجیکٹ کی کلی شفافیت کو یقینی بنانے کے سلسلے میں جو ریرا کے قلب کی حیثیت رکھتی ہے، اس سلسلے میں 26 ریگولیٹری اتھارٹیز نے اس تجویز کو عملی جامہ پہنایا ہے۔
تقریباً 60000 زمین جائیداد سے متعلق پروجیکٹس اور 45723 زمین جائیداد ایجنٹ ریگولیٹر حکام کے تحت درج رجسٹر ہو چکے ہیں جس کے توسط سے خریداروں کے لئے اطلاعات پر مبنی متبادل دستیاب ہیں۔ 22 خودمختار عدالتی افسران مقرر کیے گئے ہیں تاکہ وہ تیز رفتار میکنزم کے تحت صارفین سے متعلق تنازعات کا تصفیہ کر سکیں اور اس سلسلے کے تحت 59649 شکایات نمٹائی جا چکی ہیں۔ اس طرح اس قدم نے صارفین عدالتوں کا بوجھ بھی کم کیا ہے۔
ریرا زمین جائیداد کے شعبے کے لئے وہی حیثیت رکھتا ہے جو حیثیت تمسکات کی منڈیوں کے لئے سیبی کی ہے۔ اس کے نفاذ کے ساتھ یہ شعبہ نئی بلندیوں سے ہمکنار ہو رہا ہے۔ جیسا کہ میں نے ہمیشہ کہا ہے، شہری بھارت اور زمین جائیداد کے شعبے کی تاریخ ہمیشہ دو مراحل کے لئے یاد کی جائے گی، اور یہ مراحل ہوں گے، ماقبل ریرا اور مابعد ریرا۔
مصنف مرکزی وزراء کی کونسل کے رکن ہیں