غازی عرفان خان
منیگام گاندربل
اللہ تعالی نے ہمیں بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے۔ آنکھ کی نعمت، کان کی نعمت، دل کی نعمت، دوستوں کی نعمت، والدین کی نعمت، ایمان کی نعمت، غرض یہ پوری کائنات اللہ تعالی کی دی ہوئی نعمت ہے اسی اللہ تعالی نے ہمیں اور ایک ایسی نعمت سے بھی نوازا ہے جو ایک انسان کے لیے تقوی اور پرہیزگاری کا باعث ،گناہوں کی مغفرت کا باعث بن سکتی ہے اور وہ نعمت رمضان المبارک ہے۔
استقبال رمضان کے حوالے سے چند احادیث
حضرت انسؓ فرماتے ہیں کی جب رجب کا مہینہ آتا تھا تو اللہ کے رسولﷺ اس طرح دعا فرماتے
” اللھم بارک لنا فی رجب وشعبان و بلغنا رمضان “
اے اللہ ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکت فرما اور ہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچا۔۔(مسند احمد، شعب الایمان)۔
حضرت سلمان فارسیؓ سے روایت ہے اُنھوں نے کہا شعبان کی آخری تاریخ کو نبی ﷺ نے خطبہ دیا جس میں فرمایا، اے لوگو! ایک بڑی عظمت والا، بڑی برکت والا مہینہ قریب آگیا ہے، وہ ایسا میہنہ ہے جس کی ایک رات ہزاروں مہینوں سے بہتر ہے اللہ تعالی نے اس مہینہ میں روزہ رکھنا فرض قرار دیا ہے اور اس مہینہ کی راتوں میں تراویح پڑھنا نفل قرار دیا ہے۔ جو شخص اس مہینہ میں کوئی ایک نیک کام اپنے دل کی خوشی سے بطور خود کریگا تو وہ ایسا ہوگا جیسے کہ رمضان کے سوا اور مہینوں میں فرض ادا کیا ہو، اور جو اس مہینہ میں فرض ادا کرے گا تو وہ ایسا ہوگا جیسے کہ رمضان کے سوا دوسرے مہینہ میں کسی نے ستر (70) فرض ادا کیے۔۔اور یہ صبر کا مہینہ ہے۔ اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔ اور یہ مہینہ معاشرے کے غریب اور حاجت مندوں کے ساتھ ہمدردی کا مہینہ ہے۔(راوہ البہیقی، مشکوة)..
رمضان المبارک کے روزے مسلمانوں پر فرض ہیں۔۔ اس مہینے میں انسان جتنا چاہے اللہ تعالی کا قرب حاصل کر سکتا ہے بلکہ یہ مہینہ تو امت مسلمہ کے لیے نیکیوں کا موسم بہار ہے۔ایک فرض کا ثواب تو ستر فرض کے برابر ہے۔ اس مہینہ میں انسان اپنی گناہوں کی مغفرت کرواسکتا ہے۔
اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
’’اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ‘‘(البقرہ: 183)
اور حدیث شریف میں آیا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا۔
’’جس نے بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘
حدیث کے مطابق رمضان المبارک صبر اور ہمدردی کا مہینہ ہے۔
صبر کے مہینہ کا مطلب یہ ہے کہ اس مہینے میں بندہ صبر کرنا سیکھ جاتا ہے۔ فجر کی اذان سے لے کر مغرب کی اذان تک بندہ بھوکا پیسا رہتا ہے۔ کبھی کبھی دن میں یہ چاہتا ہے کہ میں کچھ کھالوں یا پی لوں۔ مگر اس کے باوجود بھی وہ کچھ نہیں کھاتا، کچھ نہیں پیتا ۔اپنی بھوک کو برداشت کرنا ہی صبر ہے۔۔۔یہی نہیں بلکہ اپنے جزبات، خواہشات کو قابو کرنا بھی صبر سکھاتا ہے۔
جس طرح دنیا میں مومن کی مثال میدان جنگ کے سپاہی کی سی ہے جسے شیطانی خواہشوں اور بدی کی طاقتوں سے لڑنا ہے اگر اس کے اندر صبر کی صفت نہ ہو تو حملہ کی ابتداہی میں اپنے آپ کو دشمن کے حوالے کردیتا ہے۔۔۔ اسی طرح اس مہینے میں اگر روزہ دار نے صبر نہ کیا اپنی بھوک جزبات خواہشات پر قابو نہ کر پایا تو یہ بھی اسی سپاہی کی طرح اپنے آپ کو دشمن یعنی نفس کے حوالے کردیتا ہے۔۔
یہ مہینہ ہمیں سکھاتا ہے کہ صبر کس طرح کیا جاتا ہے۔
اور ہمدردی کا مہینہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جس بندے کو اللہ تعالی نے سب کچھ عطا کیا ہوگا۔ یعنی اللہ تعالی نے انہیں کھاتا پیتا بنایا ہوگا، ان کو چاہیے کہ بستی کے گردو نواح میں نظر دوڑائیں کہ کہی کوئی ایسا بندہ تو نہیں جس کے گھر پر افطار کا انتظام نہ ہو۔ انہیں اپنے افطاری اور سحری میں شریک بنائیں۔۔
رمضان المبارک ہمیں باقی کے گیارہ مہینوں میں رہنے کا طریقہ سکھاتا ہے۔جس طرح اللہ کا ایک بندہ اپنی زندگی رمضان کے اِن تیس دنوں میں گزارتا ہے اسی طرح باقی کے گیارہ مہینوں میں گزارنی ہے۔۔
رمضان المبارک نے ہمیں صبر کرنا ، ہمدردی جتانا، اپنے خواہشات پر قابو کرنا حتی کہ اپنے نفس کو کنٹرول کرنا، ایک دوسرے سے محبت کرنا، تلاوت قرآن کی عظمت اور نماز کی عظمت سکھاتا ہے۔
مگر کوئی بد نصیب ایسا بھی ہوتاہےجس کو صرف بھوک کے سوا کچھ نہیں ملتا۔۔بظاہر تو وہ روزے سے ہوتا ہے ، وہ کھانے پینے کو تو اپنے اوپر حرام کرتا ہے، وہ نوافل کا اہتمام کرتا ہے، وہ تلاوت قرآن اور پنجگانہ نماز ادا کرتا ہے مگر پھر بھی اسے بھوک کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔
حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: کتنے ہی روزہ رکھنے والے ایسے ہوتے ہیں جن کے لیے ان کے روزے میں سواۓ بھوک پیاس کے کچھ بھی نہیں ہوتا۔۔(ابن ماجہ، نسائی)…
رمضان المبارک ہمارے لیے افضل ترین نعمت ہے کیونکہ ایک تو اس میں جو بھی نیکی کی جاۓ اس کا دس گناہ زیادہ اجر ملتا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم کو بھی اسی مہینے میں نازل کیا ہے۔
اور اس میں ہمارے لیے ایک رات ایسی بھی ہے جو ہزار راتوں سے افضل ہے۔
ایک مہینہ اور اتنی ساری نعمتیں واقعی میں یہ ہمارے لیے افضل ترین نعمت ہے۔
*قرآن پاک کا نزول، شب قدر اور اعتکاف*
اللہ تعالی نے قرآن پاک کو رمضان المبارک میں نازل کیا ہے۔ اسی لیے اسے شہر القرآن بھی کہا جاتا ہے یعنی وہ مقدس مہینہ جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے۔۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں۔
“رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن اتارا گیا جو لوگوں کے واسطے ہدایت ہے اور ہدایت کی روشن دلیلیں اور حق و باطل میں فرق کرنے والا ہے، سو جو کوئی تم میں سے اس مہینے کو پا لے تو اس کے روزے رکھے، اور جو کوئی بیمار یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں سے گنتی پوری کرے، اللہ تم پر آسانی چاہتا ہے اور تم پر تنگی نہیں چاہتا، اور تاکہ تم گنتی پوری کرلو اور تاکہ تم اللہ کی بڑائی بیان کرو اس پر کہ اس نے تمہیں ہدایت دی اور تاکہ تم شکر کرو”۔۔ (البقرہ: 185)۔
*اعتکاف اور شب قدر*:
رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف کیا جاتا ہے۔ 21 روزے کی شب سے لے کر عید کا چاند نظر آنے تک اعتکاف کیا جاتا ہے۔
رمضان المبارک میں نبی ﷺ مسجد سے باہر نہیں نکلتے تھے۔ان دس دنوں میں اللہ کی عبادت میں لگے رہتے تھے۔ زیادہ تر رات کو اللہ کی عبادت میں لگ جاتے تھے اور اس رات کی تلاش میں ہوتے تھے جس رات کو قرآن نازل ہوا اور جسے ہزار راتوں سے افضل قرار دیا گیا ہے
بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شب قدر میں اتارا ہے۔
اور آپ کو کیا معلوم کہ شب قدر کیا ہے۔
شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔( القرآن: سورة القدر : 1ـ 3).
ام سلمہ بیان کرتی ہیں کہ ابو سید خدری ؓ نے مجھ سے کہا کہ : ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے دوسرے عشرہ میں اعتکاف میں بیٹھے۔ پھر بیس تاریخ کی صبح کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اعتکاف سے نکلے اور ہمیں خطبہ دیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے لیلۃ القدر دکھائی گئی، لیکن بھلا دی گئی یا ( آپ نے یہ فرمایا کہ ) میں خود بھول گیا۔ اس لیے تم اسے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ میں نے یہ بھی دیکھا ہے ( خواب میں ) کہ گویا میں کیچڑ میں سجدہ کر رہا ہوں۔ اس لیے جس نے میرے ساتھ اعتکاف کیا ہو وہ پھر لوٹ آئے اور اعتکاف میں بیٹھے۔ خیر ہم نے پھر اعتکاف کیا۔ اس وقت آسمان پر بادلوں کا ایک ٹکڑا بھی نہیں تھا۔ لیکن دیکھتے ہی دیکھتے بادل آیا اور بارش اتنی ہوئی کہ مسجد کی چھت سے پانی ٹپکنے لگا جو کھجور کی شاخوں سے بنی ہوئی تھی۔ پھر نماز کے لئے تکبیر ہوئی تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیچڑ میں سجدہ کر رہے تھے۔ یہاں تک کہ کیچڑ کا نشان میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی پر دیکھا۔ (صحیح بخاری).
غرض کہ ماہ رمضان ہمارے لیے ہدایت کا ذریعہ ہے۔ اس مہینے میں ہم وہ کچھ سیکھ جاتے ہیں جو ہم کسی اور مہینے میں نہیں سیکھ پاتے۔ انسان اپنے رب کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔
ماہ مبارک ہمیں تہجد اور فجر کی نمازوں کا عادی بناتا ہے، قرآن کا نزول مقصد اور قرآن پاک کی عظمت سکھاتا ہے، شیطان سے لڑنے کا طریقہ، نفس کو کنٹرول کرنا، اپنوں سے محبت اور اللہ سے جُڑنے کا طریقہ سکھاتا ہے۔ باالفاظ دیگر ہم یہ کہیں گے کہ ماہ مبارک ہمیں ایمان کی اس سطح پر پہنچاتا ہے جہاں پہنچنا اور کسی مہینے میں مشکل ہے۔
ماہ مبارک ہمارے لیے تربیت کا مہینہ ہے۔بلاتشبیہ جس طرح ایک فوجی کو ٹریننگ کیمپ میں تربیت کی جاتی ہے اور پھر پوری زندگی وہ اسی طرز عمل پر زندگی بسر کرتا ہے اسی طرح ماہ مبارک ہمیں زندگی گزارنے کا طریقہ سکھاتا ہے۔
ہمیں چاہیے کہ جس طرح ہم اپنی زندگی کو ماہ مبارک میں گزارتے ہیں اسی طرح باقی کے گیارہ مہینوں میں گزاریں۔
اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو..