کالم: فہم و ادراک
عمران بن رشید
سیرجاگیر سوپور‘کشمیر
8825090545
انسانی تہذیب و تمدن کی تاریخ شاہد ہے کہ بہت سی نافرمان قومیں اللہ تعلیٰ کے عذاب و عتاب کا شکار ہوکر صفحہ ہستی سے اس طرح نیست ونابود ہوچکی ہیں کہ گویا کبھی اُن کا وجود ہی نہ تھا۔ قومِ نوحؑ سے متعلق ارشاد ہوا ہے(مِمَّاخَطِیٓءٰتِھِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوانَارًافَلَمْ یَجِدُوْالَھُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَنصَارًا)”یہ لوگ بہ سبب اپنے گناہوں کے ڈبو دئے گئے اور جہنم میں پہنچادئے گئے‘اور اللہ کے سوا اپناکوئی مددگار انہوں نے نہ پایا“ (سورہ نوح/25ٔ) ۔حضرت نوحؑ کی قوم جب گناہوں میں غرق ہوگئی اور نوحؑ کے سمجھانے پر بھی باز نہ آئی تو اللہ تعلیٰ کے عذاب نے انہیں آپکڑلیا کہ آسمان سے پانی برسا اور زمین سے چشمے ابل پڑے اور چشمِ زدن میں پوری کی پوری قوم غرقِ آب ہوگئی‘کوئی تدبیرکام نہ آسکی‘کوئی مددگار اُن کی مدد نہ کرسکااُن کے سارے معبودانِ باطل بے بس اور ناچار ثابت ہوئے۔تفسیر ابن ِ کثیر میں درج ہے کہ:۔
”اپنے گناہوں کی کثرت کی وجہ سے یہ لوگ ہلاک کردئے گئے ان کی سرکشی‘ضد اور ہٹ دھرمی ان کی
مخالفت و دشمنی رسولؑ حد سے گزر گئی تو انہیں پانی میں ڈبو دیا گیااور یہاں سے آگ کے گڑھے میں دکھیل
دئے گئے‘اور کوئی نہ کھڑا نہ ہوا جو انہیں ان عذابوں سے بچا سکتا“
(جلد/6صفحہ/436)
قومِ لوطؑ میں جب بے حیائی عام ہوئی اور وہ سارے کے سارے شتر بے مہار کی طرح ہم جنس پرستی(Homosexuality)میں مبتلا ہوگئے تو اللہ تعلی نے اُن پر پتھر برسائے اور بستیوں کی بستیاں تہس نہس ہوکر رہ گئیں (وَالْمُوْتَفِکٰتُ بِالْخَا طِءَۃِ)”اور جن کی بستیاں اُلٹ دی گئیں انہوں نے بھی خطائیں کیں“(الحاقہ/9)۔یہ بستی سدوم کے نام سے مشہور ہے۔سدوم ملک شام کے صوبہ جفض کا ایک مشہور شہر تھا۔چنانچہ آج بھی اس بستی کے کھنڈرات شام میں دیکھے جاسکتے ہیں اور اللہ تعلی کے عذاب کا مشاہدہ کیا جاسکتا ہے۔اس قوم اور بستی کا کچھ ذکر تورات(Bible/Old Testament)کے پہلے ہی باب ”پیدائش“(Genesis)میں بھی ہوا ہے۔ غرض یہ کہ اللہ تعلی بے حیا‘نافرمان اور گمراہ قوموں کو اسی طرح فنا کے گھاٹ اُتارتا ہے کہ کوئی تدبیر کارگر نہیں ہوتی۔بقول علامہ اقبال ؎
فطرتِ افراد سے اغماض بھی کرتی ہے لیکن
کبھی کرتی نہیں ملت کے گناہوں کو معاف
اس وقت پوری دنیا پر نیستی کے بادل منڈلارہے ہیں۔ہر ملک اورہر شہر مرضِ مہلک(CORONA VIRUS)کے زیرِ اثر نوحہ خواں اور حد درجہ پریشان ہے۔پہلے چین پھر ایران اور اٹلی اور اب پوری دنیا اس کی زد میں آچکی ہے۔اب تک ہزاروں لوگ اس مہلک مرض کے پنجہ استبداد کے شکنجے میں آکر زیست سے نیست کے عالم میں پہنچ چکے ہیں۔ہر سوں بندشیں (LOCK DOWN) عائد کی گئیں ہیں۔لوگ گھروں میں محصور ہوچکے ہیں۔یہاں تک کہ عباد گاہوں تک کو بند کردیا گیاہے۔ایسے میں بس ایک ہی شبہ گذرتا ہے کہ یہ اللہ تعلی کی جانب سے عذاب ہے جس کا بس ایک ہی حل ہے کہ اللہ کے حضور سربسجودہوکرتوبہ واستغفار کیاجائے۔انفرادی سطح سے صرفِ نظر من حیث القوم جب دیکھاجائے تو کون سی برائی ہے جس میں مسلمان غرق نہ ہوچکے ہوں۔بے حیائی اور بے غیرتی کا تو یہ عالم ہے کہ لڑکیوں کو مردوں کے لباس میں دیکھنا ہمارے سماج میں فالِ نیک تصور کیا جاتا ہے۔اوراسے Women Empowerment جیسی اصطلاح سے تعبیر کرکے حق کو جٹلایا جاتاہے۔سود خوری اور بنک کاری (Banking) اس حد تک بڑی ہوئی ہے کہ ہماری معاشیات (Economy)کی پوری عمارت سودہی کی بنیادوں پر کھڑی ہے۔ اور حد تو یہ ہے کہ سودخوری کو عصرِ حاضر کی اہم ضرورت اور مجبوری قرار دے کر شیطانی فطورات کے آگے سرِ تسلیم خم کیا جاتا ہے۔کیا ربّ کا یہ فرمان کوئی معنی نہیں رکھتا:۔
”اے لوگو!جو ایمان لائے ہواللہ کا تقویٰ اختیار کرو اور سود میں سے جوباقی رہ گیا ہے اُسے چھوڑدو‘اگرتم مومن ہو۔
پھر اگرتم نے ایسانہ کیاتو اللہ اور اُس کے رسولؐ کی طرف سے تمہارے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔اور اگر توبہ کر لو تو
تمہارے لئے تمیارے اصل مال ہیں نہ تم ظلم کرو نہ تمہارے ساتھ ظلم کیا جائے گا۔“
(البقرہ/279)
جب اللہ اور اُس کا رسول ؐ لوگوں کے خلاف برسرِ جنگ ہوں تولوگوں کو اپنے انجام سے ڈرنا چاہئے۔اس وقت جوافراتفری کا عالم برپا ہے‘ ہر چہارجانب سے مصیبتوں کا نزول ہورہا ہے۔سڑکیں سنسان‘بازار ویران‘ہر شخص اداس اور پریشان گویا اللہ کی جانب سے اعلان جنگ ہوچکا ہے۔ دنیا کے غریب اور پسماندہ ملکوں سے تو صرفِِٖ نظر کیا جاسکتا ہے لیکن آج تو طاقت ور ترین اور nuclearہتھیاروں کے حامل ممالک بے بس‘لاچاراور مغلوب ہیں۔مجھے علامہ اقبالؒ کا وہ فارسی شعر یاد آرہاہے۔ ؎
دست ہر نااہل بیمارد کند
سوئے مادر آ کہ تیمارد کند
یعنی تو نااہل کے ہاتھ لگ کر بیمار ہوچکا ہے‘ تو اپنی ماں یعنی قرآن کی طرف واپس لوٹ آ‘ تو ٹھیک ہوجائے گا‘تجھے اطمنان حاصل ہوگااور تو ہدایت یافتہ ہوگا۔ اس وقت دنیا جن حالات سے دوچار ہے یہ گویا اللہ کی طرف سے ایک انتباہ(warning)ہے۔اور عقل مندی اسی میں ہے کہ ہم اللہ کی طرف رجوع کریں‘اللہ کے سوا کوئی ذات نہیں جو لوگوں کو امان بخشے۔ہر طرح کی مصیبت کا نزول اللہ کے ہی اذن اور امر سے ہوتا ہے۔چنانچہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے”مَااَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ اِلَا بِاِذْنِ اللّٰہِ وَمَنْ یُّومِنْ بِاللّٰہ یَھْدِ قَلْبَہٗ“”کوئی مصیبت اللہ کی اجازت کے بغیر نہیں پہنچ سکتی‘جو اللہ پر ایمان لائے اللہ اُس کے دل کو ہدایت دے دیتا ہے“(التغابن/11)۔ہر مصیبت کے وقت اللہ پر یقینِ کامل رکھنا اُسی سے مدد اور استعانت طلب کرنا ایک مومن صادق کاشعار ہوتا ہے۔