منتظر مومن وانی
بہرام پورہ کنزر
رابط: 6006952656
اس بات سے دنیا کے ہر انسان کو اتفاق ہے کہ وادی کشمیر جنت ہے اور اس جنت میں رہنے والے لوگ انتہائی ہمدرد اور مہمان نواز ہے. اس وادی کے لوگ ایک دوسرے کے محبت میں اپنی زندگی نچھاور کرنے میں کوئی دکت محسوس نہیں کرتے ہیں. اگرچہ حالاتوں کی پلٹ نے یہاں کی تہذیب وتمدن میں تبدیلی لائی ہے لیکن پھر بھی کشمیریت زندہ ہے. جو لوگ اس قوم کو انفرادی غلطیوں پر طعنہ دے کر برہمن قوم کہتے ہیں شاید ان کو اس بات کا احساس نہیں کہ یہ قوم انسانیت میں اول درجہ رکھتا ہے.
میں بارہمولہ سے پٹن سومو میں محو سفر تھا. پچھلی سیٹ پر ہم چار بندے بیھٹے تھے. ایک خوبصورت چہرہ ہاتھ میں کچھ کھانے کا چیز لے کر آیا جوں ہی سیٹ پر بیھٹا تو ہم تینوں کو پیار سے کہا جناب آپ بھی کھاو ہم نے منع کیا لیکن اس کم عمر اقبال کے شاہین نے مہربانی لفظ استعمال کرکے ہمیں کھلایا اور اس کے چہرے پر انتہائی خوشی رونما ہوئی. مجھے بھی اندر سے خوشی ہوئی اس بات عمل کو دیکھ کر الحمدللہ کہا کیونکہ وہ کشمیریت بلکل زندہ ہے جس کے لیے دنیا کے لوگ یہی اعتقاد رکھتے ہیں کہ.
ذرہ ذرہ ہے کشمیر کا مہمان نواز
راستے کے پتھروں نے دیا پانی مجھے
اس صاحب کا مزاج دل کو چھو لینے والا تھا. اس کا احترام تمیز کشمیری قوم کی ایک زندہ مثال تھی. بارہویں جماعت کا یہ طالب علم کریری بارہمولہ سے تعلق رکھتا ہے جس کا تعرف عمر عبداللہ عرف جاہنگیر کے نام سےہوا. یہ قوم کا زندہ دل بیٹا ایک مکمل تربیت سے لیس تھا جس کے سبب یہ قوم کی شناخت قائم رکھنے میں ایسے مزاج کا اظہار سماجی زندگی میں کرتا ہے.
جاہنگیر صاحب نے یہ عمل کرکے مسرت کا اظہار کیا. میں نے پوچھا بیٹا آپ نے ہم سب کو بغیر کسی تعرف کے کیوں کھلایا تو بڑی معصوم الفاظوں میں کہا ہم کشمیری ہے اور یہی ہماری اصلیت ہے. ان الفاظوں نے میرے دل وجگر کو چھولیا. میں سوچ رہا تھا کہ واقعی اس کے ماں باپ نے تربیت کا حق ادا کیا ہے جس کے سبب اس چھوٹی عمر میں ہی یہ بیٹا لوگوں کے ساتھ حسن سلوک کرتا ہے. اللہ ان قوم کے شاہینوں کو حفاظت میں رکھے کیونکہ یہی وہ ہمارے لخت جگر ہے جو ہماری شناخت بچانے کا ہنر رکھتے ہیں. تمام والدینوں پر یہ فرض ہے کہ وہ اپنے شگوفوں کی تربیت صیح طریقے میں کرے تاکہ ہمارا کل کے یہ نوجوان کشمیریت کو خوبصورت شکل میں دنیا کے سامنے پیش کرے.