تحریر: حافظ میر ابراھیم سلفی
بارہمولہ کشمیر
ترے ماتھے پہ یہ آنچل بہت ہی خوب ہے لیکن
تو اس آنچل سے اک پرچم بنا لیتی تو اچھا تھا
عورت نے جنم دیا مردوں کو مردوں نے اسے بازار دیا
جب جی چاہا مسلا کچلا جب جی چاہا دھتکار دیا
فرمان باری تعالیٰ ہے کہ "آسمانوں اور زمینوں کی بادشاہی اللہ ہی کی ہے۔ وہ جو چاہتے ہیں پیدا کرتے ہیں۔ جسے چاہے بیٹیاں عطا کرے اور جسے چاہتے ہیں بیٹے عطا کرتے ہیں”.(سورہ شوریٰ ) اس آیت کریمہ کی تفسیر میں مفسرین کی ایک جماعت سے منقول ہے کہ بیٹیوں کو اس لئے مقدم رکھا گیا کیونکہ انہیں جاہلیت میں نحوست تصور کیا جاتا تھا ۔ انکے حقوق پامال ہوتے تھے۔ سانس لینے کا حق ان سے صلب کرلیا گیا تھا۔ اس وجہ سے رب العالمین نے انہیں مقدم رکھا تاکہ انکی قدر و منزلت واضح ہو جائے۔انہیں حقیر و ذلیل سمجھا جاتا تھا، زندہ درگور کرنے پر فخر محسوس کیا جاتا تھا۔ انکی کمزوری کا ناجائز فائدہ اٹھا کر انکی عزت نفس کے ساتھ کھلوڑ کیا جاتا تھا۔ اس پستی کو دور کرنے کی خاطر اللہ عزوجل نے انہیں مقدم رکھا۔
فرمان باری تعالیٰ ہے کہ "اور جب ان میں سے کسی کو لڑکی کی خوشخبری دی جاتی تھی، تو ان کا چہرہ سیاہ ہوجاتا اور وہ غمزدہ ہوتے۔ اس دی گئی بشارت کی وجہ سے لوگوں سے چہرہ چھپائے پھرتا۔ آیا ذلت کے باوجود اس کو رکھ لے یا اسے مٹی میں ٹھوس دے۔ آگاہ رہو ان کا فیصلہ بڑا ہی برا تھا”.(سورہ نحل) علامہ ابن قیم رحمہ اللہ رقمطراز ہیں کہ "بیٹیوں کی پیدائش پر خفا ہونا جاہلانہ عادات میں سے ہے۔”(تفسیر قیم) امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا فرمان ھے کہ”الأنبياء كانوا آباء بنات” یعنی ‘انبیاء کرام علیھم السلام بیٹیوں کے آباء تھے۔ ‘علامہ ابن قیم رحمہ اللہ کا فرمان ھے کہ "کسی فرد کے لئے جائز نہیں کہ وہ بیٹے کی پیدائش پر مبارکباد دے اور بیٹی کی پیدائش پر مبارکباد نہ دے۔ بلکہ وہ یا تو دونوں کی پیدائش پر مبارکباد دے یا دونوں کی پیدائش پر مبارکباد نہ دے۔ تاکہ وہ طریقہ جاہلیت سے بچ جائے۔ کیونکہ ان کی اکثریت بیٹے کی پیدائش پر مبارکباد دیتی تھی جبکہ بیٹی کی پیدائش پر ان کے چہرے سیاہ ہوتے تھے”.( تحفة المودود)
اس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا
اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد
امام ہیثمی رحمہ اللہ نے مجمع الزوائد کے اندر ایک روایت نقل کی ہے کہ "بیٹیوں کو ناپسند نہ کرو کیونکہ یقینن وہ تو پیار کرنے والیاں اور قیمتی چیز ہے”.اس روایت کی تائید دیگر صحیح احادیث سے بھی ہوجاتی ہے۔ فرمان ربانی ہے کہ "مال اور بیٹے دنیا کی زندگی کی زینت ہیں اور باقیات صالحات آپ کے رب کے ہاں ثواب میں اور امید کی رو سے زیادہ اچھی ہیں”.(سورہ کہف) اس آیت کریمہ کی تفسیر میں علامہ قرطبی رحمہ اللہ کا فرمان ھے کہ”باقیات صالحات سے مراد اللہ کے ہاں نیک بیٹیاں ہیں”.(تفسیر قرطبی ) امام احمد رحمہ اللہ نے اپنی مسند کے اندر اور امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی الادب المفرد کے اندر یہ روایت لائی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا "جس شخص کی تین بیٹیاں ہوں اور وہ ان پر صبر کرے انہیں اپنی استطاعت کے مطابق کھلائے، پلائے اور پہنائے ، تو وہ اس کے لئے بروز قیامت جہنم کے مقابلے میں پردہ ہونگی”.(اس روایت کو شیخ البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے) صحیحین میں یہ روایت بھی موجود ہے کہ”جس شخص کو ان کی بیٹیوں میں سے کسی چیز کے ساتھ آزمائش میں ڈالا گیا اور اس نے ان کے ساتھ احسان کیا تو وہ اسکے لئے جہنم کے مقابلے میں رکاوٹ ہونگی”.(بخاری و مسلم) شارح صحیح بخاری علامہ ابن بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ "یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ بیٹیوں کی کفالت و پرورش کرنا بیٹوں کی کفالت کرنے سے اجر کے لحاظ سے افضل ہے۔ یہ اس لئے کہ بیٹیاں پردہ نشین ہوتی ہیں وہ بیٹوں کی طرح اپنے معاملات سرانجام نہیں دے سکتیں”.(شرح ابن بطال)
امام مسلم رحمہ اللہ نے اپنی الصحیح کے اندر یہ روایت نقل کی ہے کہ "جس شخص نے دو بیٹیوں کی بلوغت کو پہنچنے تک پرورش اور تربیت کی وہ قیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ میں اور وہ (دو انگلیوں کی طرح ایک ساتھ ہونگے)۔ بیٹیوں کے اجسام کا سودا قدیم زمانہ میں مختلف اقوام کا شیوہ تھا۔لیکن اسلام نے نکاح جیسے عظیم حلال رشتے کے لئے بھی لڑکی کی مرضی مشروط رکھی۔ بیٹی کی مرضی کے خلاف ہونے والا رشتہ باطل و مردود ہے۔ولی کے ساتھ ساتھ دوشیزہ کی رضامندی بھی لازم و ملزوم ہے۔حقوق وراثت میں بھی بیٹیوں کے ساتھ اسلام نے عدل و انصاف کی شمع جلا کر لٹیروں کی بربریت کا خاتمہ کردیا۔صحیحین میں رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ مبارک فرمان منقول ہے کہ "پس تم اللہ تعالیٰ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان عدل کرو”.امام بیہقی رحمہ اللہ تعالیٰ نے سنن کبریٰ کے اندر یہ الفاظ نقل کئے ہیں کہ "عطیہ دینے میں اولاد کے درمیان عدل کرو۔ اگر میں کسی کو ترجیح دیتا ہوں تو عورتوں کو ترجیح دیتا ہوں”.(حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس روایت کو حسن کہا ہے)۔ فوائد وقف سے بیٹیوں کو محروم کرنا بھی جاہلیت کی بدعت ہے۔ گھریلو زندگی میں مختلف ایام مسرت میں بیٹیوں کو نوکر بناکر کام کروایا جاتا ہے جبکہ لڑکوں کو فرحت و شاد مانی میسر کی جاتی ہے جوکہ خلاف وحی ہے۔ عورتوں کو وارت نہ بنانا بھی جاہلیت کی رسم قبیح ہے جس میں عصر حاضر کے اکثر و بیشتر مسلمان مبتلا ہے۔ اسی طرح نکاح کے موقع پر بیٹی کی مرضی مد نظر رکھنا جدید دور کے نام لیوا غیور مسلمان معیوب سمجھتے ہیں۔اہل دین بھی اسی کشتی کے ہمراہ محو سفر ہیں۔
ایک کے گھر کی خدمت کی اور ایک کے دل سے محبت کی
دونوں فرض نبھا کر اس نے ساری عمر عبادت کی
راقم شعبہ تحقیق کا ایک ادنیٰ طالب ہے لیکن جہاں تک میرے معاشرے کی حالت کا مسئلہ ہے تو یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ بیٹیوں کی عفت و عصمت اب اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں۔ جب شرم و حیا کی بات آتی ہے تو ہمارے دل و دماغ میں ملت کی بہنوں کا خیال آتا ہے جو کہ جہالت ہے۔ حیا اور پاکدامنی کا درس ملت کی بہنوں سے زیادہ ملت کے جوانوں کو دینا ہوگا۔ بیٹی کالج جائے تو بدنگاہی کی شکار، مدرسہ جائے تب بھی بری نظروں کی شکار، پردہ کرکے گھر سے نکلے تب بھی آوارہ نظروں کی شکار۔حالات اس بات کی عکاسی کررہے ہیں کہ ملت کی بہنیں اب راہ ہدایت کی طرف گامزن ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں لیکن نوجوان ملت فحش کاری کے بھنور میں ڈوبتے ہی جا رہے ہیں۔دشمن سے ہمیں اتنا خوف نہیں جتنا ڈر ہوا کی بیٹیوں کو آدم کے بیٹے کا ہے۔ ملت کی بیٹیوں کے معصوم جذبات کے ساتھ کھلواڑ ہورہا ہے۔۔۔ لیکن کھلواڑ کرنے والا کون؟ ملت کے نوجوانوں۔ liberalism اور Feminism ایسے فتنے ہیں جن میں ملت کی اکثر بیٹیاں شریک ہوچکی ہیں لیکن ان کے پیچھے بھی مرد ذات کا ہی ہاتھ ہے۔ جذبات کو ایک طرف رکھ کر حقائق کا ادراک کیجئے۔
سلف و صالحین کی امثال منبر و محراب پر بیان کرنا کوئی بڑا معاملہ نہیں اصل کام تو تعمیر کردار ہے۔گھریلو زندگی میں ملت کی بیٹیوں پر ہورہے ظلم و تشدد کو یہاں غیرت کا نام دیا جاتا ہے۔بیٹیوں کے دل بھی تمناؤں اور خواہشات سے پر ہوتے ہیں۔ لیکن جب اپنی آرزو کا اظہار کیا جاتا ہے تو سبھی مرد درندوں کی طرح اس معصوم کلی کو مسل دیتے ہیں۔تعلیمی ادارے بھی اس کراہت سے پاک نہیں۔ Gender Difference اور Favouritism ایسی قباحتیں ہیں جو ہمارے تعلیمی دانشگاہوں میں بھی پائی جاتی ہیں۔بیٹی کوئی مٹھائی کا ڈبہ نہیں ہوتی جسے جب چاہے لطف اندوز ہوا جاۓ۔ بیٹی کسی پٹری پر پڑے کپڑے کی طرح نہیں ہوتی جسے جب چاہے پہنا جائے اور جب چاہے پھینکا جائے۔
ایام حاضر گواہ ہیں کہ والدین کے تئیں بھی بیٹوں کے مقابلے میں بیٹیاں ہی باعث رحمت ثابت ہوتی ہیں۔بیٹیوں کی محبت و الفت خلوص پر مبنی حرص و لالچ سے پاک ہوتی ہے۔تعلیمی شعبہ میں بھی ملت کی بہنیں کامیابی کی سیڑھیاں چڑھتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔کاروباری شعبہ ہو یا ٹیکنالوجی کا شعبہ، ملت کی بیٹیاں آسمان چھوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔آج کی بیٹیاں والدین کے کندھوں پر بوجھ نہیں بلکہ عزت و اعجاز کا اعلی معیار ہے۔
تاریخ اسلام نے بھی ایسی باکمال خواتین کو اپنے اوراق میں زندہ رکھا جنہوں نے اپنی ذہانت و فقاہت سے عرب و عجم پر راج کیا۔ سیدہ اسماء بنت ابوبکر صدیق، سیدہ عائشہ بنت ابوبکر صدیق، سیدہ معاذہ بنت عبداللہ، سیدہ برزہ بنت مسعود ثقفی، سیدہ خدیجہ، سیدہ فاطمہ بنت محمد ﷺ، سیدہ بریرہ، سیدہ بسیرہ، سیدہ ام اسحاق غنویہ، سیدہ فاطمہ بنت ولید، سیدہ اروی بنت حارث، سیدہ ام سلیم، سیدہ ام سلمہ، سیدہ بنانہ رضی اللہ عنہم اجمعین ایسے اسماء ہیں جن کی شہرت و مقبولیت سے کوئی لاعلم نہیں۔امام بخاری رحمہ اللہ کی والدہ محترمہ، امام شیخ عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی والدہ محترمہ ، تاریخ کے یہ روشن اوراق ہماری Golden Age کو عیاں کررہے ہیں۔یہ بات بھی حق ہے کہ عریانی کے اسواق گرم ہیں لیکن یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ان بازاروں کے پجاری ہمارے نوجوان ہی ہیں۔ یہ میزان عدل پر قائم کیجئے۔ محنت دونوں طرف کرنی ہے۔شرعی تعلیم و حقوق کی حفاظت ان حالات کی بہتری کا واحد راستہ ہے۔
خلقت نسواں میں ہی رب کائنات نے سکون پوشیدہ رکھا۔ عہد نبوی ﷺ میں بیٹیوں کی شرم و حیا مثالی ہوتی تھی جس کی بنیادی وجہ تحفظ حقوق اور شرعی تربیت تھی۔ نظام الہی سے پہلے شادی اور نکاح مذاق بن کے رہ گیا تھا۔اپنی جسمانی حاجت پوری کرنے کے بعد عورت کا سودا کیا جاتا تھا۔اسی طرح ظہار بھی ایک عادت سا بن گیا تھا۔ اسلام روز اول سے ہی مظلوم کی عزت و عظمت کا ضامن رہا ہے۔مغربیت اور جدیدیت کی مہر بیٹیوں کے دلوں پر اس لئے پڑ گئی ہے کیونکہ ہم نے شرعی تعلیمات کو فقط سننے اور سنانے تک محدود رکھا۔ عصر حاضر میں غیر مسلم کما حقہ حجاب و پردے کا احترام کرتے ہیں لیکن عبدالدینار مسلم اپنی عیاشی اور خواہشات کی اتباع میں اپنے اسکولوں، اپنے کاروباری اداروں میں اسی پردے کو نیلام کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ بعض مسلم اسکولوں میں با پردہ معلمہ کی تذلیل کرکے اخراج کی سند حوالے کی جاتی ہے۔لیکن خرید و فروخت میں عورت کی خوبصورتی، حسن و جمال سگریٹ کی پتی کی طرح بکتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔
تیری طرح تیرا غم بھی ہمیں مات دے گیا
آنکھیں تو ڈھانپ لیں مگر آنسو نہ چُھپ سکے
اب وقت کا تقاضا ہے کہ دوسروں پر تنقید کرنے کے بجائے ہم اپنے گریبان کی طرح جھانک کر دیکھیں۔اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں علم و حلم سے مالامال کردے۔۔۔۔۔۔ آمین یا رب العالمین۔
مصنف اسلامک اسٹڈیز کے طالبِ علم ہے اور اُن سے [email protected] یا 6005465614 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔