تحریر: شاھین عمر منظور
طالب علم ۔ کشمیر یونیورسٹی
8493055737
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
تجھے کتاب سے ممکن نہیں فراغ کہ تو
کتاب خواں ہے مگر صاحب کتاب نہیں
اللہ جل و علی کے دربار میں طالب علم کی بہت زیادہ قدر و منزلت اور رفعت و بلندی ہے۔ قرآن و حدیث کے متعدد نصوص اس امر کی تائید بھی کرتے ہیں حتی کہ پہلی وحی کی ابتداء بھی لفظ "اقرا” سے ہوئی ہے۔ طالب علم کی اتنی عظمت ہے کہ اللہ وحدہ لاشریک نے قرآن کریم میں فرشتوں کے دوش بدوش اس کا بھی تذکرہ کیا ہے۔ مگر یہ قدر و منزلت، برتری و ترقی اور رفعت و عروج محض آرام سے گھر بیٹھے اور خالی خواہشات کے سہارے سے حاصل نہیں ہوتی ہے بلکہ اسکے حصول کے خاطر ایک طالب علم کو جسم پر پتھر رکھکر محنت شاقہ اور جہد مسلسل سے کام لینا پڑتا ہے۔ اس میدان میں ایک طالب علم کو صبر و استقلال کے ساتھ اپنا خون جگر صرف کرنا پڑتا ہے، بقول شاعر مشرق ڈاکٹر اقبالؒ:
نقش ہیں سب ناتمام خون جگر کے بغیر
نغمہ ہے سودائے خام خون جگر کے بغیر
حصول علم کے تناظر میں جب ہم اپنے اسلاف کی سیرت کا مشاہدہ لیتے ہیں تو اس بات سے باخبر و آشنا ہوتے ہیں کہ اس میدان میں انھوں نے بھی جفاکشی اور ریاضت و جان فشانی سے کام لیا ہیں۔ امام شعبی رحمہ اللہ تعالی سے کسی نے یہ دریافت کیا ہے کہ آپ نے علم کیسے حاصل کیا؟ تو انھوں نے یوں جواب دیا ہیں:
"خود پر اعتماد نہ کرنے، مختلف شہروں کا سفر کرنے، گدھے کے صبر کی طرح صبر کرنے اور کوے کی طرح صبح سویرے جاگنے سے۔”
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی کا قول بھی اس زمرے میں اہم و مفید ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ "میں نے کتاب الحیض کی تفہیم میں نو برس صرف کیے ہیں۔” امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کے بارے میں بھی آیا ہے کہ جب آپ کسی مسئلے کے متعلق مطمئن نہ ہو جاتے تو اسوقت تک ہمت نہ ہارتے جب تک اس کے مقصود حقیقی کو جان نہ لیتے اور اسکے لیے آپ کو بے حد مشقت سے کام لینا پڑتا تھا۔ امام ابو جعفر ابن جریر الطبری رحمہ اللہ تعالی نے بھی اس میدان میں ہمت و محنت سے کام لیا ہے اور اتنے تالیفات چھوڑے کہ کہا جاتا ہے کہ اگر ان کے یوم ولادت سے یوم وفات تک تمام دنوں پر انھیں تقسیم کیا جائے تو ایک دن کے ساٹھ اوراق بنتے ہیں۔ اس قسم کی مثالوں سے کتب کے اوراق برے پڑے ہیں۔ یہ تھی ہمارے اسلاف کی بلند ہمتی، عزم صمیم، محنت و جدوجہد مگر ہمارا رول(contribution) اور اس معاملے میں ہماری حیثیت کیا ہیں؟ بقول علامہ اقبالؒ:
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا
آجکل ہمارے نوجوانوں کا حال قابل افسوس و تاسف ہیں کہ ان کے یہاں مطالعہ کتب کا شوق و انہماک مفقود ہو چکا ہے۔ انکی زندگیوں میں لا یعنی اور فضول اشیاء جنم پزیر ہوئے ہیں اور وہ "وقت” کو ادنی چیز سمجھ کر اسے ضائع کر کے اپنے مستقبل کی خوشیوں کو خود اپنے ہی ہاتھوں سے زیر خاک دفن کرتے ہیں۔ وہ اس بات سے نا واقف ہوتے ہیں کہ زمانہ حال میں جس وقت کے ساتھ ہم غداری و نا انصافی کرتے ہیں، یہی وقت کل زمانہ مستقبل میں ہماری زندگیوں کو قابل شرمندگی و تمسخر بنا دے گا۔ جب فراغت کی یہ نعمت ہم سے چھن جاتی ہے تو ہمیں اخیر میں اس بات پر نادم ہونا پڑتا ہیں کہ ہم نے اس سے فائده کیوں نہیں اٹھایا اور اپنے اس قیمتی وقت کو کار آمد کیوں نہ بنایا۔ بقول ایک عربی شاعر:
لیت الشباب یعود یوما
فاخبرہ بما فعل المشیب
"کاش کہ کسی دن جوانی لوٹ آئے تو میں اسے بتلاؤں کہ بڑھاپے نے (میرے ساتھ) کیا کچھ کیا ہے۔”
علامہ اقبالؒ بھی اس "وقت” کو اپنی ایک شہرہ آفاق نظم "مسجد قرطبہ” میں اس انداز سے پیش کرتے ہیں:
تجھ کو پرکھتا ہے یہ، مجھ کو پرکھتا ہے یہ
سلسلہ روز و شب، صیر فی کائنات
تو ہو اگر کم عیار، میں ہوں اگر کم عیار
موت ہے تیری برات، موت ہے میری برات
لہذا ایک طالب علم کو محنت شاقہ اور مستقل مزاجی سے کام لینا چاہیے اور اس راستے میں جتنے بھی مصائب و تکالیف سے سامنا ہو جائے، ان سب کا ہمت شاہین رکھ کر خوش مزاجی، بہادری اور خندہ پیشانی سے مقابلہ کرنا چاہیے، تب جاکے وہ زندگی کے اعلی منصب پر فائز ہو گا۔ بقول شاعر:
مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں مل کر، گل و گلزار ہوتا ہے
اللہ تعالی سے دعا ہیں کہ ہمارے قلوب کو الفت علماء سے بھر دے اور تا دم آخر تک ہمیں مخلص طلباء کے فہرست میں رکھے۔۔۔۔۔آمین یا رب العلمین والسلام علیکم