کالم فہم و ادراک
عمران بن رشید
سیر جاگیر سوپور
8825090545
سورہ فصلّت جو ”سورہ حم سجدہ“کے نام سے بھی مشہور ہے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے(وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا الی اللّٰہِ وَعَمَلَ صَالِحًا وَقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ)یعنی اور اُ س شخص سے بات کا اچھا کون ہوگا جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں۔اس آیت میں دعوتِ الی اللہ کو ایک احسن عمل بتایا گیا ہے اور فی الحقیقت اس سے بہتر عمل ہی کوئی نہیں۔رسول اللہ ؐ نے ایک دفعہ حضرت علی ؓ سے فرمایا تھا کہ اے علی ؓ اللہ کی قسم اگر تمہاری وجہ سے اللہ کسی ایک شخص کو بھی ہدایت دے تو یہ تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہے(البخاری/ 4210ٔٔٔٔ) ۔
دعوتِ الی اللہ کی فضیلت اور افادیت کے ساتھ ساتھ اس آیت میں اُن لوگوں کا رد بھی ملتا ہے جو کسی مسلک یا کسی مخصوص جماعت اور فرقے کی طرف بلاتے ہیں۔کیوں کہ دعوتِ الی اللہ سے مراد قرآن وسنت کی دعوت ہے‘اور مسلک یا کسی مخصوص جماعت کی تشہیر اور تبلیغ کو ذہن میں رکھ کر جو دعوت دی جائے وہ دعوتِ الی اللہ نہیں۔مسلک سے بہر حال اختلاف کی گنجائش ہے لیکن قرآن وسنت سے اختلاف کفروضلالت کی علامت ہے۔ابو نعمان سیف اللہ خالد حفظہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں ”اس آیت میں تبلیغِ دین کی اہمیت اور فضیلت کا واضح بیان ہے‘تبلیغ دین گویا تمام باتوں سے افضل وبرتر ہے کوئی بات اتنی وقیع نہیں جتنی وقیع دعوت ِ الی اللہ ہے۱؎۔حافظ ابن کثیرؒ نے اپنی تفسیرِ قرآن میں حسن بصری ؒ کا ایک قول نقل کیا ہے۔فرماتے ہیں کہ جب حسن بصریؒ اس آیت کو پڑھتے تھے تو کہتے کہ یہی لوگ یعنی دعوت الی اللہ کا م کرنے والے حبیب اللہ ہیں‘یہی اولیاء اللہ ہیں‘یہی سب سے زیادہ اللہ کے پسندیدہ ہیں ۲؎۔اللہ کی طرف سے جتنے بھی پیغمبر مبعوث ہوئے سب نے لوگوں کو اللہ ہی کی طرف بلایا‘بلکہ اُ ن کی بعثت ہی دعوتِ الی اللہ کی غرض سے ہوئی۔جس طرح اللہ کا کوئی شریک‘ مدِ مقابل اور متبادل نہیں ٹھیک اُسی طرح دعوتِ الی اللہ کا کوئی متبادل نہیں۔رسول اللہ ؐ کی ایک مشہور حدیث ہے جو اس موضوع کو مزید واضح کرتی ہے۔یہ حدیث معنًا متواتر درجے کی ہے یعنی مختلف لفظیات کے ساتھ مختلف مقامات پر مختلف راویوں سے وارد ہوئی ہے لیکن معنی اور مفہوم میں برابر ہے۔یہ حدیث رسول اللہ ؐ جمعہ کے خطبوں میں پڑھا کرتے تھے۔حدیث کا منطوق یوں ہے رسول اللہ ؐ نے فرمایا ”انّ خیر الحدیث کتاب اللّہ و خیر الھدیّ ھدی محمّد و شرالامور محدثاتھا و کّل محدثۃ بدعۃ و کُل بدعۃ ضلالۃ و کُل ضلالۃ فی النّار“یعنی بہترین کلام اللہ کی کتاب ہے اور بہترین راستہ محمد ؐ کا راستہ ہے اور بد ترین باتیں دین میں نئی نکالی ہوئی باتیں (مُحْدَثْ) ہیں اور دین میں ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت ضلالت یعنی گمراہی ہے اور ایسی ہر گمراہی جہنم میں لے جانے والی ہے“(رواہ مسلم)
یہ حدیث کافی ہے اس دعویٰ کو ثابت کرنے کے لئے کہ کتاب اللہ اور سنتِ رسول ؐ ہی اصول ِ دین اور امور شریعت کے دو ماخذ ہیں۔ان کے بعد کوئی فلسفہ بچتا ہے اور نہ کوئی نظام کہ جس کے زیرِ سایہ لوگ اپنے دین کو محفوظ رکھ سکیں۔لیکن اللہ کی پھٹکار ہو اُن افراد‘جماعتوں اور تنظیموں پر جو قرآن وسنت کو پسِ پشت ڈال کر لوگوں کو نئی نئی فکریات(ideologies) کی طرف بلاتے ہیں‘جہاں اُن کے اپنے خودساختہ عقائد اور نظام کی بھرمار ہوتی ہے،جہاں اسلاف کے فہم کو چھوڑکر قرآن وسنت کی فلسفیانہ اور سیاسی تعبیر کی جاتی ہے،جہاں مسلک کو مقدم کرکے فہمِ صحابیٰ ؓ کو مجروح کیا جاتا ہے۔بقول علامہ اقبالؒ ؎
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہوکر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہوکر
دعوت الی اللہ کے تقاضے:۔ دعوتِ الی اللہ ایک داعی سے کیا تقاضا کرتی ہے وہ بھی ذرا جان لیجئے۔اور اللہ کے فرمان جس کا ذکر ابتداء میں کیا گیا ہے،پر غور کرلیں (وَمَنْ اَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّنْ دَعَا الی اللّٰہِ وَعَمَلَ صَالِحًا وَقَالَ اِنَّنِیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ)”اور اُس شخص سے بات کا اچھا کون ہوگا جو اللہ کی طرف بلائے اور نیک عمل کرے اور کہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں “داعی جو اللہ کی طرف بلاتا ہو پر لازم ہے کہ وہ خود بھی اعمالِ صالحات کا پابند ہو‘ایسا نہ ہو کہ وہ دوسروں پر نیکی کا خوب پرچار کرتا ہو‘دوسروں کے آگے لمبی لمبی تقریریں کرتا ہو اور خود صالحات سے کنارہ پکڑے بیٹھا ہو یہ چیز اللہ کے نزدیک ناراض ہونے کے اعتبار سے کافی بڑی ہے‘جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے (یٰاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُولُوْنَ مَالَاتَفْعَلُوْنَ کَبُرَ مَقْتًاعِنْدَاللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْ امَا لَا تَفْعَلُوْن) ”اے ایمان والو تم کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں اللہ کے نزدیک ناراض ہونے کے اعتبار سے بڑی بات ہے کہ تم وہ کہو جو تم کرتے نہیں“]الصف2’3/[۔ ایک داعی کے لئے دونوں کام لازم و ملزوم ہیں کہ حصولِ علم کے بعد لوگوں میں اس کی تبلیغ و اشاعت بھی کرے جو اس پر واجب ہے اور خود بھی تابع وفرمانبردار رہے۔اُس کے قول اور فعل میں کسی طرح کا کوئی تضاد نہ ہوہاں عمل میں کوتاہی یا کوئی کمی رہنا ایک فطری بات ہے لیکن یہ کہ وہ عمل سے بالکل ہی لاتعلق رہے یہ قطعاً جائز نہیں۔یا اپنے عمل میں کوتاہی کی بنا پر دعوت کا کام چھوڑے یہ بھی ٹھیک نہیں۔ابنِ کثیر ؒ لکھتے ہیں ”پس نیک کاموں کے کرنے کے لئے کہنا بھی واجب ہے اور خود کرنا بھی‘ایک واجب کو نہ کرنے سے دوسرا بھی چھوڑدینا نہیں چاہیے۔ علمائے سلف و خلف کا یہی قول ہے‘گو بعض کا ایک ضعیف قول یہ بھی ہے کہ برائیوں والا دوسروں کو اچھائیوں کا حکم نہ دے لیکن یہ قول ٹھیک نہیں“۳؎۔رسول اللہ ؐ کی ایک حدیث ”مجمع الزوائد“اور ”طبرانی کبیر“ وغیرہ میں آئی ہے جس میں فرماتے ہیں کہ وہ عالم جو لوگوں کو بھلائی سکھائے اور خود عمل نہ کرے اُ س چراغ کی طرح ہے جس کی روشنی سے لوگ فائدہ اُٹھاتے ہیں لیکن وہ خود جل رہا ہے۔اس حدیث کو حافظ زبیر علی زئی ؒنے ضعیف کہا ہے جبکہ شیخ علامہ البانیؒ اس کی سند کو حسن قرار دیتے ہیں۔حدیث کے صحیح یا ضعیف ہونے سے اس وقت بحث نہیں ہے‘اتنا البتہ یاد رکھیئے کہ کوئی عمل جب قرآن اور صحیح احادیث سے ثابت ہو تو اُس کی فضیلت ضعیف حدیث سے لی جا سکتی ہے۔
بہرحال انسان کے قول اور فعل میں مطابقت ہونا دعوت کو موثر بنانے کے لئے لازم ہے۔میں نے مطالعہ کے دوران کہیں پڑھا تھا ”انسان کے سوا جو کائنات ہے اس میں کہیں تضاد نہیں۔اس دنیا میں لکڑی ہمیشہ لکڑی رہتی ہے اور جو چیز اپنے آپ کو لوہا اور پتھر کے روپ میں ظاہر کرے وہ حقیقی تجربہ میں بھی لوہا اور پتھر ہی ثابت ہوتی ہے۔انسان کو بھی ایسا ہی بننا چاہئے۔انسان کے کہنے اور کرنے میں مطابقت ہونی چاہئے“۔ قول اور فعل کاتضاد دعوت کو نہ صرف غیرموثر بناتاہے بلکہ اس کے اور بھی نے شمار نقصانات ہیں‘سورہ البقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے(اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ اَفَلَاْتَعْقِلُوْنَ)”کیا تم لوگوں کو نیکی کا حکم کرتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو‘حالانکہ تم کتاب پڑھتے ہو‘کیا تم نہیں سمجھتے؟“(44)۔یہ خطاب اصل میں اہلِ کتاب سے ہے لیکن اس کا اطلاق عموم پر ہوگا‘اور آج بھی آپ دیکھیں گے کہ بہت سے لوگ بحث و مباحثے اور مناظرے کرتے ہوئے دکھائی دیں گے‘لمبی لمبی اور زوردار تقریریں کرتے ہوئے ملیں گے لیکن عملی میدان میں بالکل کورے ہوں گے۔یا اس کی تعبیر اس طرح بھی ہو سکتی ہے کہ دوسروں کو قرآن و سنت کی خوب تعلیم دیں گے اور خود شرک اور بدعات کا ارتکاب کرتے پھرتے ہوں گے(واللہ اعلم)۔
اپنے آپ کو بچاؤ جہنم کی آگ سے:۔میں عرض کرچکا کہ لوگوں پر دعوت و تبلیغ کرنا ایک احسن عمل ہے اور یہ امتِ مسلمہ پر واجب ہے۔لیکن یہ کہ محض دوسروں کو نیکی کا حکم دینا اور خود پرے رہنا تقویٰ کے خلاف ہے۔چنانچہ دعوت الی اللہ کی ابتداء انسان کے اپنے نفس سے ہی ہوتی ہے اور انسان پر لازم ہے کہ وہ اپنے نفس کی پرواہ کرے۔سورہ تحریم میں ربّ العالمین کا فرمان ہے (یٰاَ یُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْااَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِکُمْ نَاراً وَّقُوْدُھَاالنَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ)یعنی اے لوگو جو ایمان لائے ہو بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کواُس آگ سے جس کاایندھن انسان اور پتھر ہوں گے(آیت6/)۔اس آیت سے یہ بات خوب واضح ہوجاتی ہے کہ انسان پر اپنے نفس کی اصلاح کرنا واجب ہے کیوں کہ ربّ کا حکم وجوب کے درجے میں ہے۔حسن بصریؒ کا ایک قول ہے کہ جب قرآن میں ایمان والوں سے خطاب کیاجائے تو اسے غور سے سنا کرو کیوں کہ اس خطاب میں ایمان والوں کو کسی چیز سے روکا جاتا ہے یا کسی چیز کا حکم دیا جاتا ہے۴؎۔ الغرض دعوتِ الی اللہ کی شروعات انسان یا ایک داعی کی اپنی ذات کی اصلاح سے ہوتی ہے جسے دعوتِ الی اللہ کا اول درجہ کہا جاسکتا ہے۔ دوسرے درجہ میں اُس پر حق ہے کہ وہ اپنے قرابت داروں‘عزیزوں اور اپنے ماتحتوں کو ڈرائے ”اھلکُم“ سے یہی اشارہ ملتا ہے جس کی تائد سورہ شعراء کی آیت(وَاَنْذِرْعَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ)سے بھی ہوتی ہے۔جس وقت سورہ شعراء کی مذکورہ آیت نازل ہوئی رسول اللہ ؐ ایک پہاڑی (صفا)پر بلند ہوئے اور آواز دی ”یَاصَبَاحَاہ“لوگ جمع ہوئے تو رسول اللہ ؐ نے یوں خطاب فرمایاکیا خیال ہے تمہارا اگر میں تمہیں بتاؤں کہ ایک لشکر اس پہاڑی کے پیچھے سے آنے والا ہے‘تو کیاتم مجھے سچا نہیں سمجھو گے؟لوگوں نے کہا ہمیں آپ سے کبھی جھوٹ کا تجربہ ہوا ہی نہیں (لہذا آپ کا فرمانا سچ ہی ہوگا)۔تو رسول اللہؐ نے کہا کہ پھر میں تمہیں اُس سخت عذاب سے ڈراتا ہوں جو تمہارے سامنے آرہاہے الخ]البخاری4971/)۔
مختصر یہ کہ ایک مومن پر اپنی ذات کے بعد اپنے قرابت داروں‘ عزیزوں اور اپنے ماتحتوں کا حق ہے کہ اُنہیں اللہ کے عذاب سے ڈرائے لیکن اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ اپنے اقرباء تک ہی محدود رہا جائے یہ سوج کر کہ جب قریبی لوگوں کی اصلاح ہوگی تو اس کے بعد عوام پر دعوت و تبلیغ کے فرائض انجام دینگے۔حضرت نوح ؑ نے کم و بیش ساڑھے نوسو سال تک اپنی قوم میں انذار و تبشیر کے فرائض انجام دئے جبکہ آپ ؑ کی بیوی اور بیٹامنکرینِ اسلام میں سے تھے اس کے باوجود نوحؑ نے قوم کے باقی افراد میں دعوت وتبلیغ کا کام جاری رکھا۔یہاں تک کہ اللہ کے آخری رسول حضرت محمدؐ کا معاملہ بھی ایساہی ہے کہ لوگ گروہ در گروہ دائرہ اسلام میں آرہے ہیں اور گھر میں چچا ابو طالب اور ابو لہب منکرین اسلام کی صفِ اول میں کھڑے ہیں۔