کبھی راستوں میں کھو گئے
کبھی اجنبی سے ہوگئے
میری زندگی بھی عجیب ہیں
درد سنا سنا کے رو گئے
دل کی سلطنت میں مشہور ہیں
پر اپنی شہمت پے مجبور ہیں
ہوں میں اک سوکھی ٹھنی
جس کی شاخ بہت معذور ہیں
میرا نام ہیں مسافر
جسکا کوئی بھی گھر نہیں
دل_ے_نادان کیا بتاؤں تجھے
اندھیرا ہی ہیں کوئی سحر نہیں
میں ہوں بے زبان کلی
مجبور ہے میری زندگی
موت میرا سکون ہیں
ممکن ہیں ختم ہوگی کمی
میرے یار کیا بتاؤں تجھے
کتنے زخم لگے ہیں مجھے
چھپا رہا ہوں تجھ سے آنسؤں کو
کہی چراغ دوستی کا نہ بھجے
مجھے ضرورت ہیں دعا کی
اثر نہیں ہے اب دواؤں میں
مینے کوشش تو بہت کی
پر محنت چلی ہواؤں میں
میری ماں نے نام بھی کیا رکھا
جنت کا رکھوالا رضوان
دوزخ کو میں نے پاس بھلا کے
مٹایا خود کا نام و نشان
از قلم : میر رضوان ( رضوان قیوم میر )