عابد حسین راتھر
ای میل: [email protected]
موبائیل نمبر : 7006569430
انسانی دماغ ایک ایسا عضو ہے جو لگاتار سوچتا رہتا ہے اور جس میں ہر وقت خیالات آتے رہتے ہیں اور یہ خیالات بہت تیزی سے بدلتے رہتے ہیں۔ کچھ خیالات ایسے ہوتے ہیں جو آتے ہیں اور چلے جاتے ہیں لیکن کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو دماغ میں اپنی مستقل جگہ بنا لیتے ہیں اور انہی خیالات کی بنا پر انسان حالات کی جانچ پڑتال کر تا ہے اور جائزہ لیکے اپنے فیصلے لیتا ہے جس سے ہم ادراک بولتے ہے جو کہ ایک بہت ہی حساس عمل ہے۔ یہ خیالات لاشعوری طور پر یا بلا ارادہ دماغ میں اپنے لیے ایک راستہ ہموار کرتے ہیں۔ جیسے کہ آپ نے دیکھا ہوگا جب کچھ لوگ ایک سبز گھاس والی کھیت میں ایک ہی راہ میں کچھ دنوں کے لیے چلتے ہیں تو وہاں سے ایک راستہ بنتا ہے اور پھر اُنکے بعد آنے والے لوگ نیا راستہ بنانے کے بجائے وہی راستہ اختیار کرتے ہیں۔ ہمارا دماغ بھی بلکل اسی سبز گھاس والی کھیت کی طرح ہے۔ ہمارے دماغ میں بھی تجربات اور مشاہدات کی بنا پر خیالات کی راہیں ہموار ہوتی ہیں جن کو پھر بدلنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اُسکے بعد کسی نئے مشاہدے یا تجربے کو یا کسی نئے خیال کو ہمارے دماغ میں گھسنے کے لیے نیا راستہ بنانا پڑتا ہے لیکن ساتھ میں ہی اسکو پرانے خیالوں کی راہوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھار ہمیں کوئی نئی سوچ نئی ہونے کے باوجود بھی نئی نہیں لگتی ہے۔ جب ہمارے ذہن میں پرانے خیالات اپنی جگہ پختہ بنا لیتے ہیں تو کسی نئی بات یا کسی نئی سوچ کو اپنانا بہت مشکل کام بن جاتا ہے۔
جب ہم کسی چیز کے بارے میں کبھی جانچ پڑتال کرتے ہیں تو ہم ایک قسم کی ذہنی قید میں رہ کر اس کے بارے میں اپنی راۓ قائم کرتے ہیں۔ ہمارا ذہن پہلے سے ہی قائم شدہ تصور کے حساب سے اس چیز کے بارے میں اپنی رائے اختیار کرتا ہے۔ ایک مطالعہ کے مطابق ہم اپنی %90 جسمانی اور ذہنی توانائی صرف زندہ رہنے پر سرف کرتے ہیں۔ زندگی کے بیشتر وقت میں ہم صرف کھانے پینے میں مصروف رہتے ہیں اور نئے خیالات نئی سونچ اور نئی تخلیق کو اپنے پاس بھٹکنے بھی نہیں دیتے ہیں۔ یہ ایک غور کرنے والی بات ہے کہ ہمارے ذہن میں خیالات کا وجود کیسے ہوتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے ذہن کے سوچنے کی قوت کیسے بڑھتی رہتی ہے۔ جب ایک انسان کی پیدائش ہوتی ہے تو بہت وقت تک اسکو دوسرے لوگوں کی ضرورت ہوتی ہے اور اسکی زندگی دوسرے لوگوں پر منحصر ہوتی ہے۔ پیدائش کے بعد ہمارا تعلق دوسرے لوگوں کے ساتھ رہتا ہے جو ہمارے قریب ہوتے ہیں کیونکہ ایک سماج کے بغیر ایک انسان کا زندہ رہنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن بھی ہے۔ اس عالمِ انحصار میں اور دوسرے انسانوں کی موجودگی میں درج ذیل عناصر کی مدد سے ہمارے ذہن کے نظریاتی خیالات وجود میں آتے ہیں اور ہمارے دماغ کے سوچنے کی صلاحیت بڑھتی رہتی ہے۔
تجربات:
جب بھی ہم کسی کام کا تجربہ حاصل کرتے ہیں تو اس کے نتائج ہمارے ذہن میں ایک سوچ پیدا کرتے ہیں اور ہمارے دماغ میں ایک جگہ قائم کرتے ہیں۔ یہ نتائج ہمارے دماغ پر کچھ ایسی چھاپ ڈالتے ہیں کہ جب بھی ہم دوسری بار ایسا کام کرتے ہیں تو ہمیں پہلے سے ہی معلوم ہوتا ہیں کہ کچھ اس طرح کے نتائج سامنے آئینگے۔ مثال کے طور پر اگر گاڑی چلاتے وقت ہم کسی پولیس ناکے سے گزریں گے اور وہاں ہماری پوچھ تاچھ ہوگی یا کسی وجہ سے کوئی جرمانہ ہوگا تو اگلی دفعہ جب بھی ہم ایسے راستے سے جارہے ہونگے تو ہمیں ایک تشویش سی رہتی ہیں کہ آگے چل کے شاید ایسا ہونے والا ہے کیونکہ جو تجربہ ہم نے پہلے حاصل کیا ہوتا ہے اسکی چھاپ ہمارے ذہن پر پڑی ہوتی ہیں۔ لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ زندگی میں جو بھی واقعات ہمارے ساتھ رونما ہوتے ہیں ان واقعات کے نتائج سے ہمارے ذہن میں ہر وقت ایک نئی سوچ پیدا ہوتی ہے جو ہمارے دماغ میں اپنی ایک خاص جگہ قائم کرتی ہے۔ خاصکر بچپن کے واقعات ہمارے ذہن پر اپنی ایک گہری چھاپ ڈالتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جو انسان بچپن میں جتنے ہی خوشگوار اور اچھے ماحول میں پرورش پاتا ہے آگے چل کر اسکی سوچ اور اسکا ذہن اتنا ہی اچھا ہوتا ہے اور جس انسان کا بچپن برے ماحول میں گزرتا ہے اسکی سوچ اتنی ہی بری ہوتی ہے اور وہی انسان زندگی میں برے کام انجام دیتا ہے۔ مختصراً ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اچھے کاموں اور اچھے ماحول کے نتائج سے ہماری سوچ اچھی بنتی ہے اور برے کاموں اور برے ماحول کے نتائج سے ہماری سوچ بری بنتی ہے۔
مشاہدات:
مشاہدات سے انسان کو حالات و واقعات کا علم حاصل ہوتا ہے۔ عقلمند انسان ہمیشہ اپنے آس پاس کے حالات اور ہونے والے واقعات پر غوروفکر کرکے ان سے کچھ سیکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ جب ایک انسان اپنے حال پر دھیان دینے کے بجائے ماضی کے خیالات میں محو رہتا ہے یا مستقبل کی فکر میں رہتا ہے تو نتیجۃً وہ پریشان رہتا ہے۔ ماضی کے خیالوں میں گھم رہنے سے انسان پچھتاوے کا شکار ہوتا ہے۔ ہاں البتہ ماضی کے تجربات پر غور کرکے انسان ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ سکتا ہے۔ ہم اپنے آپ کو ماضی کے خیالات اور مستقبل کی فکر سے آزاد کر کے اپنے دماغ کا بہترین استعمال کر سکتے ہیں۔ ماضی پر پچھتاوے اور مستقبل کے خوف کے بجاۓ ہم حال میں ہونے والے حالات و واقعات پر غووفکر کرنے کی طاقت سے اپنے ذہن کی سوچ کو ایک اعلٰی مقام تک لے جا سکتے ہیں۔ کسی مفکر نے بہت ہی خوبصورت الفاظ میں کہا ہے کہ ہم اپنے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر اور اپنے حال پر دھیان دے کر اپنے مستقبل کو بہت ہی خوبصورت، روشن اور تابناک بنا سکتے ہیں۔
مطالعہ:
ہماری سوچ کی تعمیر میں مطالعہ کی بہت بڑی اہمیت ہے۔ انسان کے خیالات اسکے مطالعہ کے مطابق ہوتے ہیں۔ چاہے انسان اچھی کتابوں کا مطالعہ کرے یا بری کتابوں کا، دونوں کا اثر اس کے دل و دماغ پر پڑتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق جو لوگ جرائم کی کتابوں کا زیادہ مطالعہ کرتے ہے وہ انہی قسم کے جرائم میں پھر مبتلا پائے جاتے ہیں۔ مطالعہ کرنے سے ہمارے ذہن کے سوچنے کی صلاحیت بڑھتی ہے۔ مطالعہ کرنے سے جتنی زیادہ معلومات ہمیں حاصل ہوتی ہے اتنے ہی زیادہ نئے خیالات ہمارے ذہن میں جنم لیتے ہے۔
ہمارے گرد و نواع میں اکثر کچھ ایسے لوگ موجود ہوتے ہیں جو ہماری سونچ اور شخصیت پر اپنا اثر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن ہمیں چاہیے کہ ہم ہمیشہ اپنی آنکھیں اور اپنے کان کھلے رکھے اور دوسروں کو ہماری سوچ اور شخصیت پر اثر ڈالنے کا موقع دینے کے بجائے اپنی عقل اور اپنے شعور کی بنیاد پر خود اپنے سوچ اور خیالات کی تخلیق کرے۔ ہمیں ایسے خیالات اور ایسی سوچ سے ہمیشہ دور رہنا چاہیے جنکی بنیاد شک یا گمراہی پر مبنی ہو۔ ایک سماج صرف اچھی سوچ اور اچھے خیالات رکھنے والے انسانوں کی بدولت ہی ترقی کر سکتا ہے اور اسی میں کامیابی کا راز پنہاں ہے۔
مضمون نگار کالم نویس ہونے کے ساتھ ساتھ ڈگری کالج کولگام میں بحثیت لیکچرر کام کر رہے ہے۔