از تحریر وسیم احمد گنائی
ساکنہ گنڈجیانگیر سوناواری
تنہائی کا درد بہت تکلیف دہ ہوتا ہے جب آپ بہت ساری باتیں کرنا چاہتے ہوں مگر سننے والا کوئی نہ ہو۔ آپ کے ساتھ نہ کوئی ہنسنے والا ہو اور نہ ہی رونے والا ہو۔ آپ کسی سے مشورہ کرنا چاہتے ہوں مگر دور دور تک کوئی مخلص نظر نہ آئے ۔ ایسے میں بہت سارا رونے کا دل چاہتا ہے۔ ” کہانی ختم ہو جائے تو یہ نہیں سوچتے کہ ؛ کون سی چیز ادھوری رہ گئی ، کاش ایسا کر لیتے ، کاش ایسا ہو جاتا ، کاش ویسا ہو جاتا ، کہانی ختم ہو چُکی ہے ، آخری صفحے پر وہ آخری الفاظ لِکھے جا چُکے ہیں ، ادھوری چیز ادھوری ہی ختم ہو جائے تو سمجھو کہ کہانی بس یہیں ختم ہو چُکی ہے ، اب وہ مُکمل نہیں ہو سکتی ، کُچھ ایسی ہی کہانیاں ہماری زندگی میں بھی ہوتی ہیں جو ادھوری ہی ختم ہو جایا کرتی ہیں ، اور پھر اُس کا ملال ساری زندگی ساتھ رہتا ہے ۔۔۔
خوبصورتی دلوں کی ہونی چاہیے ،مردہ دلوں کا کیا کریں جو صرف ڈھڑنا جانتے ہیں جب میں لوگوں کے خیالوں کو دیکھتا ہو تو مجھے ایک خوبصورت واقعہ یاد آجاتا ہے ،ایک دن میں ایک خوبصورت جگہ پر بیٹھا تھا تو وہاں سے ایک دلکش نوجوان گزر رہا تھا تو میں نے اسے بیٹھنے کے لئے پوچھا تو یہ بیٹھ گیا ،بیٹھنے کا سبب یہ تھا کہ کچھ گفتگو کرنے کا من کرتا تھا تو بات کرتے کرتے ہم گہرائیوں میں جانے لگے تو ایک چیز کا پتہ چلا خوبصورتی چہروں کی نہیں بلکہ دلوں کی ہونی چاہیے
سبھی سے راز کہہ دیتا اپنا
نا جانے کیا جانے کی کوشش کرتا ہو
شاید مجھے اس چیز کا پتہ نہیں چلتا کہ خوبصورتی چہرے کی نہیں بلکہ دلوں کی ہونی چاہیے مطلب صاف ہے کہ وہی انسان بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر شفقت کرسکتا ہے ،جس کا دل پاک و منازہ ہو ،یہی شخص دوسروں کی عزت و احترام کرسکتا ہے اگر ہم قرآن پاک میں دیکھے گئے کہ خوبصورت دل اور نرم تعبیت ان ہی لوگوں کے پاس ہوتی ہیں جن کے دلوں میں دوسروں کے لئے رحم ہوتا ہیں وہی لوگ اللہ کے قریب اور پیاری ہوتے ہیں یہ انسان دوسرا کا برا نہیں سوچتے
شاید آپ لوگ یہ سوچتے ہونگے کہ آخر اس شخص نے کیا کہا کہ میں لکھنے پر مجبور ہوگیا ،آپ سب لوگ سمجھدار اور ذہین ہے،آپ تو خود اس کی گہرائیوں میں جا سکتے ہو۔ چہرے اور دل کی خوبصورتی میں فرق ،چہرے کے خوبصورت لوگ دنیا میں ہمیشہ زندہ رہتے ہیں مگر دلوں کے خوبصورت لوگ کہانیوں میں نظر آتے ہے، کبھی کبھی ایسا لگتا ہے کہ خوبصورت دلوں کی سبھی کہانیاں جھوٹی ہوتی ہے کیونکہ خوبصورت دلوں کے لوگ کہانیوں کے انجام بن جاتے ہیں
کہنے کو جی رہے ہیں بڑی شان سے مگر
ہم حسرتوں کے قرض میں ڈوبے فقیر ہیں