تحریر: عزرہ زمرود
کجر کلگام
کیا یہی ہے اسلامی معاشرے کا اصلی چہرہ ہے ، جرم مرد کریں اور اس جرم کی سزا عورت بھگتے، کمسن، نابالغ اور کنواری بہنیں اور بیٹیاں بھگتیں۔ حال میں جو کیس میڈیا کی وجہ سے سامنے آگیا ہیں، اس پر تو عدالت اور سول سوسائٹی آواز اٹھا لیتی ہے لیکن چند دن شور مچتا ہے، پھر خبر چند دنوں میں ہی دب جاتی ہے اور لوگ بھول جاتے ہیں۔ نہ جانے کتنی عورتوں اور بچیوں کی عزتیں لٹ گئی ہیں ۔حال ہی میں کولگام سانحہ جو پیش آیا ہے با اثر غنڈوں نے حوا کی بیٹی کو موت کے گھاٹ اتارا ہے 21 سالہ معصوم لڑکی کو برہنہ کر دیا ہے حوا کی 21 سالہ بیٹی کو اس وقت برہنہ کر کے موت کے گھاٹ اتارا گیا ہے جب وہ کئی دعوت پر گئی تھی۔ان غنڈوں، مسٹنڈوں،جاہلوں ،کم عقلوں اور بے تربیتوں نے اس چیختی، چلاتی اور مدد کے لئے پکارتی برہنہ بچی کو چادر تک نہ لینے دی، حوا کی مظلوم بیٹی کی مدد کو کوئی انسان سامنے نہ آیا۔ تھانے میں رپورٹ درج کرائی گئی، میڈیا تک خبر پہنچی، مگر حوا کی بیٹی نے لٹنا تھا،لٹ گئی،برباد ہونا تھا ہو گئی،لاچارہونا تھا ہو گئ۔
اس حوا کی بیٹی نے ماں،باپ، بہن، بھائیوں سمیت سب نے قیامت سے پہلے قیامت دیکھ لی۔ وہ ایک گھنٹہ اس خاندان پر کس قدر بھاری گزرا ہوگا کہ جس پل چاہ کر بھی موت نہ آسکی، حوا کی بیٹی حیا کے لباس کے بغیر جب ان درندوں کے پنجے میں تھی ، تو یقینا وہ اللہ سے التجا کر رہی ہوگی کہ اے خدا زمین پھٹ جائے اور میں اُس میں جاگروں کہ شاید مزید لٹنے سے بچ جائوں! اسلامی معاشرے میں ایک بیٹی، بہن، بیوی یا ماں محفوظ نہیں… جہاں دن دیہاڑے عزتوں کی بولیاں لگتی ہیں، مگر مجال ہے کوئی مدد کو آن پہنچے۔
آج حوا کی بیٹی اللہ تعالیٰ سے فریاد کررہی ہے، کہ اُسے جس عزت کا پاس تھا وہ اب اُس کے پاس نہیں رہی؛ وہ اللہ سے چیکخ چیکخ کر پکارتی ہے :
میرے پیارے خدا،
آپ نے اس جہاں کو بنایا ، آپ خالقِ کائنات ہیں، مرد و زن بھی آپ کی ہی تخلیق ہیں۔ کائنات کا کون سا ایسا ذرے سے بھی چھوٹا راز ہوگا جو آپ پر منکشف نہ ہو۔ دلوں کے بھید، خوشی و شادمانی یا پھر سوز و غم کا عالم، آپ سے کچھ چھپا نہیں۔مگر اس پکار میں، میں آپ کو اپنی کہانی سنانے جا رہی ہوں جو آپ کے علم میں تو بلاشبہ ہے مگر آپ کی مخلوق، بنی آدم کے بیٹوں کے علم میں شاید نہ ہو۔ اور اگر علم رکھتے بھی ہیں تو بھی ان کے نزدیک یہ کہانی ایک درد بھرے افسانے یا بدقسمت عورت کی ڈرامے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔یہ کہانی ہے ایک عورت کی، آپ کی بنائی اس دنیا میں پیدا ہونے والی ایک بیٹی، ایک بہن، ایک بیوی اور ایک ماں کی۔ان حوا کی بیٹیوں میں سے ایک بیٹی کی جو باپ کی لاڈلی، ماں کا سکون اور بھائی کی آنکھوں کا تارہ تھی۔ لیکن درندوں اور بھیڑوں کے لیے وہ ایک ’’شکار‘‘ کے سوا کچھ نہیں تھی۔
میری تربیت اسلامی ماحول میں ہوئی تھی ، جہاں باپ کے سامنے جاتے وقت دوپٹہ سر سے ہٹ جاتا تو میرے لیے وہیں مرنے کا مقام ہوتا، بھائی کے ساتھ آنکھ ملا کر بات کرنے کی جرأت نہیں تھی، ماں سے دوستی ضرور تھی مگر شرم و حیا کی ایک حد درمیان میں ضرور
آ جایا کرتی تھی۔ لیکن جب میں گھر سے باہر نکلتی وہی لوگ، وہی بھوک، وہی کھا جانے والی نظریں، وہی ترازو اور وہی اس کا جسم۔ لیکن یہ سب کچھ قابل برداشت مگر میرے لیے ایسا لمحہ کیوں لایا گیا کہ جس سر کو ڈھک کر باپ بھائی کے سامنے جایا کرتی تھی وہی نیلام ہوگیا۔ جس شرم کو آج تک خود سے چھپاتی رہی ، آج وہ سربازار سب نے دیکھ لی، محسوس بھی کر لی اور ذہن میں نقش بھی کرلی۔ میں کس منہ سے اس دنیا کا سامنا کروں گی… اور جب عدالتوں میں مجھے بلایا جائے گا ، اور بھری عدالت میں مجھ سے پوچھا جائے گا کہ بتائو کیا ہوا؟ خدارا یہ سب میں کیسے بتائوں گی؟ کیسے دہرائوں گی؟ اور جب کہا جائے گا کہ ملزمان کی پہچان کرو… اور جب وہ میرے سامنے آئیں گے تو اے خدا میری ہستی مجھے مار دے گی… کیا تری بارگاہ میں ایسا انصاف مل سکتا ہے کہ حوا کی بیٹیوں کو اُسی وقت انصاف مل سکے .
اے میرے پیارے خدا: اس دھرتی پر میرے ساتھ ہونے والا یہ پہلا ظلم نہیں مجھے جیسی بہت سے لڑکیاں دن دیہاڑے اپنی عزت گنوا بیٹھتی ہیں۔ کبھی لڑکیوں کی پیدائش پر صف ماتم بچھ جاتی ہے تو کبھی ، چولہے پھٹنے کی جھوٹی کہانیوں میں، تیزاب سے جلا دینے، عصمت فروشی، شوہر کے تشدد، زبردستی حمل ضائع کروا دینے اور گھریلو تشدد سے دو چار رہنے کی خبریں روز نظر سے گزرتی ہیں۔مگر بد قسمتی سے کمزور عدالتی نظام اور عورت کی آزادی نہ ہونے کے باعث بہت سے جرائم رپورٹ بھی نہیں ہو پاتے۔ معاشرے کا یہ خوفناک پہلو مذہب اور ثقافت کے نام پر عورتوں پر مظالم اور مردوں کے معاشرے پر غلبے کی عکاسی کرتا ہے جبکہ ہمارے پیارے نبیؐ نے ہمیشہ عورتوں کو عزت دی، ان پر کبھی تشدد نہیں کیا اور ہمیں بھی یہی حکم دیا۔
اے خدا : آج میں التجا کرتی ہوں کہ اس رہتی دنیا تک کسی بیٹی سے ایسا خوفناک عمل نہ دہرایا جائے ورنہ تشدد کی داستانوں سے یہ معاشرہ بھرا ہے، آج نہ تو کہیں سے محمد بن قاسم کی آمد ہوتی ہے اور نہ ہی کہیں سے انصاف کا بول بالا کرنے والے حکمرانوں کی آمد ہوتی ہے۔ وطن عزیز کے مختلف گوشوں میں ہر روز کہیں نہ کہیں عورتوں پر تشدد اور جرائم ہورہے ہوتے ہیں؛ اور کچھ معاشرتی و ثقافتی اثرات کی وجہ سے انہیں سزا نہیں دی جاتی کیونکہ ان کے بارے میں بات کرنا ناقابلِ قبول سمجھا جاتا ہے۔ زیادتی کے واقعات میں مظلوم ہی کو قصور وار ٹھہرا کر عزت کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے۔ یہ مسائل معاشرے میں ناسور کی طرح پھیل چکے ہیں ۔ آج میں یہی دعا کروں گی کہ مجھ سمیت جتنی لڑکیوں کی عصمتیں لٹ گئی ہیں ، انہیں انصاف عطاء کر دے (آمین) بہرحال آج اس حوا کی بیٹی کو بچائے وہ غلطی جو شاید اس کو سرزد بھی نہ ہوئی، ان ہو اس بیٹی کو بچائے جس کو دنیا لوٹ کا مال سمجھتی ہیں ، جس کا جتنا ہاتھ میں آئے چھین لیا، نوچ لیا اور جسم بھی زخمی کرتا ہے اور روح بھی زخمی کرتاہے ۔ یہ بات سچ ہے کہ خدا کی عدالت میں میرے حصے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی ، مگر ہاں آج فیصلہ زمینی حکمرانوں کے ہاتھوں میں ہیں اب یہ خیال کیا جائے گا کہ آج کے بعد کوئی بھی درندہ حوا کی کسی بھی بیٹی کو اپنے حوس کا نشانہ یا شکار نہ بنائیں۔