سلمہ رسول
بڈگام
جہیز عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی جہاز ( سامان ) ہے،کلام پاک میں اس لفظ کا ذکر آیا ہے:
وَ لَمَّا جَهَّزَهُمۡ بِجَهَازِهِمۡ ــــ [ سورة یوسف: 59 ]
”جب انھیں ( یوسف علیہ السلام) کا ( واپسی کا) سامان تیار کر دیا“
اس آیت سے ہم واقف ہوگئے کہ جہیز کا معنی سامان ہے مثلاً جہاز المیت ( میت کا سامان )، جہاز المدرسة ( مدرسے کا سامان ) ــــ
احادیث میں تین خواتین کا ذکر اس الفاظ کے متعلق ہے۔سیدہ صفیہ،سیدہ ام حبیبہ اور سیدہ فاطمہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہن۔
جب غزوہ خیبر میں مسلمانوں نے فتح حاصل کی،تو رسول الله ﷺ نے سیدہ صفیہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا کو قیدیوں سے آزاد کرکے ان سے نکاح کرلیا۔صحیح بخاری کی حدیث میں ہے:
جَهَّزَتْهَا لَهُ أُمُّ سُلَيْمٍ فَأَهْدَتْهَا لَهُ مِنَ اللَّيْلِ ـــ [ بخاری،کتاب الصلاۃ: 371 ]
”سیدہ ام سلیم رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا ( سیدنا انس رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ کی والدہ ) نے سیدہ صفیہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا کو تیار کرکے رسول الله ﷺ کی خدمت میں پیش کیا“
اسی طرح ام حبیبہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا کے متعلق اس الفاظ کا ذکر حدیث میں اسطرح ہوا ہے:
ثم جھزتھا من عنده وبعث بھا الی الرسول الله ﷺ ـــ وجھازھا کل من عند النجاشی [ مسند احمد :٦\٤٢٧ ]
” پھر نجاشی بادشاہ نے ام حبیبہ کو تیار کروایا اور انکو رسول الله ﷺ کی طرف بھیج دیا اور انکی ساری تیاریاں نجاشی کی طرف سے تھیں “
ان دو احادیث میں جہیز کا معنی دلہن کو تیار کرنا،لباس اور آرائش سے سجانے کا ہے۔ ان دو احادیث میں کسی اور سامان کی ذکر نہیں ہے خاص طور پر گھریلو سامان کی ذکر بالکل بھی نہیں ہے۔
سیدہ فاطمہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا کے جہیز کے متعلق آج کل بہت ساری غلط فیمیاں لوگوں نے اپنے دل و دماغ میں پالی ہیں۔ حدیث میں اسکا ذکر اس طرح آیا ہے:
جَهَّزَ رَسُولُ الله ﷺ فَاطِمَةَ فِي خَمِيلٍ وَقِرْبَةٍ وَوِسَادَةٍ حَشْوُهَا إِذْخِرٌ ـــ [سنن نسائی: ۳۳۸۲]
’’رسول اللّٰہﷺنے{حضرت علیؓ کے پاس بھیجنے کے لیے} حضرت فاطمہؓ کو تیار کیا، ایک چادر، مشک اور تکیہ کے ساتھ جس میں اذخر گھاس بھری ہوئی تھی۔‘‘
ان احادیث میں جہیز کا معنی مختلف نہیں ہے۔لیکن آج ہمارے معاشرے میں اس بات کےلئے ایک لڑکی پہ اتنا ظلم کیا جاتا ہے کہ اسکا دماغی توازن بگڑ جاتا ہے اور بات یہاں تک پہنچتی ہے کہ وہ خودکشی کا شکار ہوجاتی ہے۔
یہ ایک ایسی بیماری بن گئی ہے جو ہمارے معاشرے کی معصوم بچیوں کے خواب کو تباہ کر دیتی ہے۔
آج کتنی ہی بالغ لڑکیاں نکاح کے بغیر اپنے والدین کے گھر میں رہتی ہیں۔اگر نکاح ہو بھی جاتا ہے تو اسکو وہاں ستایا جاتا ہے۔اسکو سسرال میں طعنے،مار پیٹ، اور بعض اوقات قتل بھی کیا جاتا ہے۔ ایک بچی کے والدین کا خواب ہوتا ہے،ہماری بیٹی کا نکاح ہوجائے،یہ اپنے گھر سے رخصت ہوکر سکون کی زندگی بسر کرے،لیکن ہوتا کیا ہے۔جب بیٹی کا نکاح ہوجاتا ہے۔اس سے پہلے ہی لڑکے والی اپنی مانگیں ایک لاچار اور بے بس باپ کے سامنے رکھتے ہیں۔یہ لاچار باپ اپنی اس معصوم بیٹی کے جہیز کو بنانے کےلیے اپنے دن اور رات کا آرام صرف کرتا ہے۔جب اسے لگتا ہے کہ اب میری بیٹی کا جہیز مکمل ہوگیا۔وہ اسکےلیے نکاح کی تلاش کرتا ہے۔کیسا ظلم ہے۔نبی ﷺ کے دور میں جب بچی بالغ ہوجاتی تھی تو اسکا نکاح کردیا جاتا تھا مگر آج بیٹی کا جہیز مکمل ہوجائے،پھر چاہیے اسکی عمر میں کتنا ہی اضافہ کیوں نہ ہوجائے لیکن جہیز بن گیا تو نکاح ہوگیا۔نکاح کا مقصد یہ نہیں تھا۔نکاح رحمت تھی۔مگر آج ہم نے اسے ظلم بنا دیا ہے۔نکاح کا مقصد ہے کہ ہم اپنی عزت و عصمت کی حفاظت کریں۔رسول الله ﷺ نے فرمایا:
يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنْ اسْتَطَاعَ منكُم الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ ، فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ ، وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ ، وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّهُ لَهُ وِجَاءٌ[صحیح البخاري:5066]
”اے نوجوانوں کی جماعت ، تم میں سے جو کوئی استطاعت رکھتا ہو وہ ضرور شادی کرے کیونکہ یہ (شادی) نگاہوں کو بہت جھکانے والی اور شرمگاہ کی خوب حفاظت کرنے والی ہے اور جو شادی کی طاقت نہیں رکھتا وہ روزہ رکھے ، پس یہ اس کے لئے ڈھال ہوگا۔“
یہ نکاح کا اصل مقصد ہے کہ ہم اپنی نگاہوں کو پاک رکھ سکے مگر ہمارے معاشرے کا نظام ہی بدل گیا ہے۔والدین اپنی بیٹی،لخت جگر کو پال کر،اسے تعلیم و تربیت فراہم کرکے اپنی دل کے ٹکڑے کو کسی اور کے ہاتھوں میں سپرد کرتے ہیں۔اس احسان کے بدلے ہمارے معاشرے کے بے رحم لوگ انکو انکی بیٹی کی میت واپس کرتے ہیں۔شوہر کو حکم دیا گیا تھا۔جو خود کھاؤ اپنی بیوی کو بھی کھلاؤ،جب خود کےلیے نئے لباس بناؤ گے اپنی بیوی کےلئے بھی بنانا کیونکہ وہ اسکی ذمہ داری ہے مگر ہوا یوں کہ وہ بے رحم شوہر خود کھاتا ہے،اپنی بیوی کو کم جہیز لانے پر طعنے دیتا ہے،اپنی بیوی کو خون کے آنسو رلاتا ہے۔نکاح میں سکون تھا مگر ہم نے نے اسے پھانسی کا فندہ بنا دیا۔
جہیز غیر مسلموں کی رسم تھی مگر آج اس رسم کے زیادہ قائل مسلمان بن گئے۔ہمیں رسول الله ﷺ کی دی ہوئی تعلیم و تربیت کے مطابق اپنی زندگی بسر کرنی تھی مگر ہم نے اسی تعلیم کو چھوڑ دیا۔ہماری سوچ اتنی پست ہوگئی ہے کہ ہم نکاح کے فوائد کے بدلے مال و دولت کو ترجیح دے کر ایک بااخلاق،دین دار لڑکی کو ٹھکراتے ہیں۔کچھ لوگ بولتے ہیں،ہم اپنے بیٹے کا نکاح بڑے گھر میں ہی کریں گے جہاں انہیں زیادہ جہیز کی توقع ہوتی ہے اور جن سے یہ توقع نہیں ہوتی وہ بچیاں نکاح کی نعمت سے محروم رہتی ہیں۔
طلبِ جہیز نے چھین لی انکی تمام شوخیاں
دیکھو، اُداس بیٹھی ہیں حوا کی بیٹیاں،
سسرال والے کے مسلسل طعنے بازی سے باز نہیں آتے۔شادی سے پہلے ہی ایک بڑی لسٹ دیکھنی کو ملتی ہے،جس میں سب فرمائش لکھی جاتی ہے کہ لڑکے کو کس کس چیز کی ضرورت ہے۔اس رسم کی وجہ سے نکاح سخت اور بےحیائی عام ہوگئی ہے۔اس رسم کا اسلام میں کوئی تصّور بھی نہیں،نہ کوئی واسطہ ہے۔یہ بات الگ ہے کہ بغیر کسی ظلم و جبر کئے، والدین اپنی حثیت کے مطابق اپنی بچی کو تحفے میں جو دینا چاہے دے سکتے ہیں۔
یہ سب رسومات اور بدعات اسلئے عام ہوگئے کیونکہ ہم نے دین اسلام،شرعی احکام سے دوری اختیار کی۔ہم اپنے ہی طریقے ایجاد کرتے ہیں جن سے کسی کی زندگی برباد ہوجاتی ہے۔سیدنا جریرہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
” مَنْ سَنَّ فِي الإِسْلاَمِ سُنَّةً حَسَنَةً فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ كُتِبَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلاَ يَنْقُصُ مِنْ أُجُورِهِمْ شَىْءٌ وَمَنْ سَنَّ فِي الإِسْلاَمِ سُنَّةً سَيِّئَةً فَعُمِلَ بِهَا بَعْدَهُ كُتِبَ عَلَيْهِ مِثْلُ وِزْرِ مَنْ عَمِلَ بِهَا وَلاَ يَنْقُصُ مِنْ أَوْزَارِهِمْ شَىْءٌ ” ــــ [ مسلم،کتاب الصلاۃ،باب باب الحث على الصدقة:1017 ]
” جس نے اسلام میں کوئی اچھا طریقہ ایجاد کیا،تو اسکو خود اس پر عمل کرنے کا اجر بھی ملے گا اور انکا بھی اجر ملے گا جو اسکے بعد اس پر عمل کریں گے،بغیر اسکے کہ انکے اجروں میں کچھ کمی ہو، اور جس نے اسلام میں کوئی برا طریقہ ایجاد کیا،تو اس پر ( اسکے اپنے عمل کا بھی) بوجھ ہوگا اور ان سب کے گناہوں کا بوجھ ہوگا جو اسکے بعد اس برائی پر عمل کریں گے بغیر اسکے کہ انکے بوجھوں میں کوئی کمی ہو “
اگر اس بری عمل کو ختم کرنا ہے،اس ظلم سے ہر ایک کو آزادی دینی ہیں،تو ہمیں دین اسلام کی تعلیمات کو اپنا کر اس برائی کو جڑ سے ختم کرسکتے ہیں۔والدین کو چاہیے،اپنی بیٹی کو اس شخص کے ساتھ رخصت کرے جو دین دار،عمدہ اخلاق والا،جو عورت کو عزت کرنے والا اور دین اسلام میں عورت کے مقام سے باعلم ہو۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
إِذَا خَطَبَ إِلَيْكُمْ مَنْ تَرْضَوْنَ دِينَهُ وَخُلُقَهُ فَزَوِّجُوهُ، إِلَّا تَفْعَلُوا تَكُنْ فِتْنَةٌ فِي الْأَرْضِ وَفَسَادٌ عَرِيضٌ ـــ[ ترمذی: 1084 ]
”جب تمہیں کوئی ایسا شخص شادی کا پیغام دے، جس کی دین داری اور اخلاق سے تمہیں اطمینان ہو تو اس سے شادی کر دو۔ اگر ایسا نہیں کرو گے تو زمین میں فتنہ اور فساد عظیم برپا ہو گا“۔
کچھ لڑکیوں نے سسرال والوں کی طعنے بازی سے تنگ آکر خودکشی کا راستہ اختیار کیا اور اپنی آخرت کو بھی برباد کیا۔اس کا ذمہ دار ہمارا ظالم سماج ہے مگر میں اپنی تمام بہنوں سے کہوں گی۔اگر آپ ایسے حالات سے گزر رہے ہو،اگر زندگی جینا آپ کےلئے دشوار بن جائے تو آپ اس رب العالمین کی طرف رجوع کریں جس نے ہمیں زندگی سے نوازا۔ اگر آپ الله کے بنائے ہوئے تقدیر ( جس میں خیر اور شر موجود ہے) اس سے مایوس ہوگئیں ہو تو آپ کا ایمان کمزور ہوگیا ہے۔آپ کو الله کی طاقت پہ،الله کی رحمت پہ بھروسہ نہیں ہے۔اپنے یقین،ایمان کو مضبوط بناؤ،الله تعالی ضرور کوئی نہ کوئی بہترین فیصلہ آپ کے حق میں قبول کرے گا إن شاء الله ،بس صبر کا دامن نہ چھوڑیں۔الله تعالی کا ارشاد ہے۔
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوةِؕ-اِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ ــــ [ البقرہ: ١٥٣ ]
اے ایمان والو صبر اور نماز کے ذریعہ سے مدد چاہو، اللہ تعالیٰ صبر والوں کا ساتھ دیتا ہے
الله کی رحمت سے مایوس مت ہوجائے ۔خودکشی آپ کے کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے۔آج آپ اپنی زندگی ختم کرکے چُپ ہوجائیں گے کل کوئی اور۔اس سے یہ رسم مسلسل قائم رہے گی۔ہمیں خاتمہ کرنا ہے ان ساری رسومات،بدعات کا جو ہمارے معاشرہ کےلئے غلط ثابت ہو۔ان تمام رسموں کا خاتمہ کرنا ہے جن سے بدکاری عام اور آسان، اور نکاح مشکل ہوگیا ہے۔ہم ہر بار یہی کہیں گے۔کہ یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم دین اسلام کی تعلیم و تربیت کو عام کرے۔جب والدین اپنی بیٹیوں کو حق کی تعلیم دے۔بہت ساری لڑکیاں ایسے حالات کا رخ کرنے کے بجائے خودکشی کا رخ اختیار کرتی ہیں۔جو کہ بالکل ناجائز ہے۔والدین کو چاہیے کہ اپنی بیٹیوں کو زندگی کی کڑواہٹ میں حالات کا سامنا کرنا سکھائے۔کم ہمتی کسی ڈر کا اعلاج نہیں۔ہمت رکھو،الله پہ پکا یقین رکھو،آپ کو انصاف ملے گا إن شاء الله،
معاشرے میں جہیز کی مانگ کا خوف اور ظلم ختم کریں۔سننے میں آیا ہے کہ جب بچی پیدا ہوجاتی ہے تو اسکے والدین اسکا جہیز بنانے میں لگ جاتے ہیں۔اگر یہی خرچہ والدین اسکی اچھی اور بہترین تعلیم و تربیت پر صرف کریں تو سوچئے کتنا بہتر ہوگا۔یہی بچی کل ایک اچھی بیٹی،اچھی بہن،اچھی بیوی، اچھی بہو اور ایک اچھی ماں ثابت ہوسکتی ہے۔اسکی وجہ سے دو گھر سکون کی زندگی بسر کرسکتے ہیں۔اس کی وجہ سے ایک معاشرہ کو بکھرنے سے بچایا جاسکتا ہے۔آج سے ہی شروعات اگر ہم اپنے گھروں سے کریں۔کل کا انتظار کیوں۔۔۔!!
الله تعالی ہم سب کو دور حاضرے کے فتنوں سے محفوظ رکھے۔ہم سب کو ہر بدعت جو جہنم کی آگ کا باعث ہو،اس سے دور رکھے۔ہم سب کی حفاظت کرے۔۔۔
اَمِين يَا رَبَّ الْعَالَمِيْن