کالم نویس: مُشتاق خالدؔ چودھری
درہ نامبلہ اُوڑی کشمیر
91-7051471583
فنِ موسیقی کی دنیا بہت گہری ہے۔ جب فنکار کسی ایک پہلو کی گہرائی میں جاتا ہے تو سیکڑوں پہلوؤں سے مزید شناسائی ملتی ہے۔ اور وہی شناسائی فنکار کے فن کو عظمت بخشتی ہے۔ یوں تو فنِ موسیقی سے وابستہ کئی طرح کے لوگ ہیں لیکن عام طور پر اِن کو تین زمروں میں دیکھا جاتا ہے۔ ایک وہ جو صرف اپنے لئے ہی گاتے بجاتے ہیں۔ بس وہ صرف گاتے اور بجاتے ہی ہیں اور بس لطف اٹھاتے ہیں۔ کیا گاتے بجاتے ہیں، کیوں گاتے بجاتے ہیں؟ اپنی ذات کی حد تک ہی محدود ہوتا ہے۔ انہیں اس بات سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ ان کی گائیگی کے طرز، سُر تال، الفاظ کی ادائیگی، دُھن کی بُنت اور موسیقی کے آلات کے رِدھم اپنی آواز کے زیروبام کے جوڑوں کا اتار چڑھاؤ کس طرح اور کس ناز سے اٹھانا ہے۔ وہ بجا رہے ہیں تو کون سی دھن ہے، کون سی تھاپ کیسے پیش کرنی ہے کوئی علم نہیں۔ یہ جنون ساری زندگی ان کے سر پہ سوار رہتا ہے اور وہ کوششوں کے باوجود بھی اس عادت سے جان نہیں چھڑا پاتے۔
ضروری نہیں کہ یہ لوگ صرف برا ہی گائیں بجائیں، یہ اچھا بھی اور بہت اچھا بھی گا اور بجا سکتے ہیں۔چونکہ ان کو صرف اپنی ذات تک موسیقی سے لگاؤ ہوتا ہے، اس لئے وقت کے ساتھ یہ فنِ موسیقی میں نکھار نہیں لا پاتے۔ وقت، برداشت اور محنت ان کے فن کو روانی تو عطا کرتی لیکن یہ اُس حد تک گہرائی میں نہیں اُترتے۔ دوسرے زمرے کے گانے اور بجانے والے سامعین و ناظرین کے لئے گا نے والوں کا ہے۔ ان کو موسیقی سے صرف اتنی ہی دلچسپی ہوتی ہے کہ وہ اس کی وجہ سے محفلوں کی واہ واہی بٹور سکیں۔ یا معاشرہ اِن کو ان کے فن کی وجہ سے بس جان لے اِتنا ہی کافی ہے۔اس زمرے کے وابستہ لوگ عموماً روزی روٹی بھی اِسی موسیقی سے جوڑتے ہیں اس لئے ان کے لئے گانا بجانا ایک طرح سے زندہ رہنے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اِس زمرے کے لوگ اپنے فن میں نکھار لانے کے لئے پہلے زمرے کی نسبت محنت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ریاضت کے نام پر ساری زندگی ایک مستقل ہوم ورک ان کی زندگی کا حصہ بن جاتاہے۔چونکہ زندگی کی بہت ساری ضروریات ان کے فن سے جڑی ہوتی ہیں اس لئے وہ اپنے سامعین و ناظرین کو بہتر سے بہتر مواد پیش کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ کمال فن ان کو بھی میسر آئے یہ ناممکن تو نہیں۔ یہ مواقعے ہاتھ سے جانے بھی نہیں دیتے۔اور کوشش جاری رکھتے ہیں۔
تیسرے زمرے کے فنِ موسیقی سے وابستہ لوگ کمال فنکار ہوتے ہیں۔یہ لوگ مسلسل کوشش اور چند لاپرواہیوں کے باوجود موسیقی کے ساتھ نا انصافی نہیں کرتے۔ یہ لوگ اِس فنِ موسیقی کو جنون اور عبادت کی طرح سمجھتے ہیں اور اِس میں سما جانا چاہتے ہیں۔ اس بات سے سب ہی متفق ہیں کہ دنیا میں ہر انسان کی تخلیق ایک مخصوص فن میں مہارت کے ساتھ کی گئی ہے۔ ایک شخص ایک ہی وقت میں کئی بہترین مروجہ فنون میں ماہر نہیں ہوسکتا۔لیکن چند ایک میں ضرور اعلیٰ کارکردگی پیش کر سکتا ہے۔ جس کسی فن کی مہارت قدرت کی طرف سے بخشی گئی ہے اگر کوئی اسی شعبے میں محنت اور لگن سے آگے بڑھے تو دنیا کو یہ بتا سکتا ہے کہ اُس کو اللہ تعالیٰ نے کن صلاحیتوں سے نوازا ہے۔
ہر انسان کی کوشش ہونی چاہیے کہ وہ قدرت کی عنایت کردہ اپنی اس صلاحیت کو تلاش کرسکے، نکھار سکے اور دنیا کے سامنے پیش کر سکے۔ تاکہ کامیابیوں کے زینے اس کے لئے ایک ہموار راستہ بن جائیں۔ موسیقی کی دنیا میں جہاں الفاظ ختم ہوجائیں وہاں سازوں کی گفتگو شروع ہوتی ہے۔ جو دِل کے سوز جگاتی ہے۔ مختلف اقسام کے آلاتِ موسیقی جب کسی ماہر کے ہاتھوں بج اٹھتے ہیں تو سامعین وناظرین مسحور ہو جاتے ہیں۔دیکھنے میں آیا ہے کہ نوجوان نسل موسیقی کی بڑی دلدادہ ہے یہی وجہ ہے کہ حالیہ کچھ عشروں میں کئی نئے گانے اور بجانے والے اُبھر کر سامنے آئے ہیں۔ لیکن کتنے فنِ موسیقی سے آشنا ہیں وہ فنِ موسیقی کے ماہر ہی بتا پاتے ہیں۔ نئی نسل کلاسیکی موسیقی سے کچھ خاص لگاؤ نہیں رکھتی بلکہ راک اور پاپ میوزک میں ہی دلچسپی رکھتی ہے اس لئے گٹار وغیرہ ان کا پسندیدہ ساز ہے۔لیکن اِس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ فنِ موسیقی کے دیگر آلات سیکھنے اور بجانے والوں کی کمی واقع ہوئی ہو۔ یا اِس میں مہارت رکھنے والے مایوس ہوں بلکہ اِس میں بھی اضافہ ہوا ہے۔سُر اور سنگیت کی دنیا کے ایک اُبھرتے ستارے کے بارے میں آج اِس تعارفی سلسلہ میں بات ہوگی، سُر وہ آواز ہے جو ایک خاص فریکونسی سے گلے یا کسی ساز سے نکلتی ہے، اور سنگیت کی دنیا میں ہر ایک کو مسحور کرتی ہے۔
ایسے ہی ایک نوجوان جمیل احمد شیخ المعروف جمیل راجپوت ہیں، جن کی پیدائش سب ڈویژن اُوڑی کی تحصیل بونیار ضلع بارہمولہ جموں و کشمیر کے آزاد پورہ ٹہٹھا مولہ گاؤں میں فنِ موسیقی کے ماہرنورعلی شیخ صاحب اور گلاب جان صاحبہ کے ہاں 12 دسمبر1984 کو ہوئی۔ ابتدائی تعلیم آزادپورہ کے پرائمری اسکول میں حاصل کی، پھر مڈل کے بعد گورنمنٹ ہائر اسکنڈری اسکول بونیار سے تعلیم حاصل کی۔ کہتے ہیں کہ گھریلو ماحول جس فن کی طرف مائل ہوتا ہے بچوں کی رغبت بھی اُسی طرف بڑھ جاتی۔ جمیل شیخ کے والد صاحب فنِ موسیقی کے ایک ماہر تھے۔اور جمیل کی والدہ صاحبہ بھی ایک معروف گلوکارہ ہیں۔ جو کلچرل اکیڈیمی ریڈیو اور دوردرشن سے کئی بار اپنے فن کا مظاہرہ کر چُکی ہیں۔ اِس لئے جمیل شیخ بھی بچپن سے ہی موسیقی کی طرف اپنا رجحان دکھانے لگے اور سیکھنے میں دلچسپی دکھائی، دورانِ تعلیم اسکولوں میں جمعہ کے دن ایسے کئی پروگراموں میں کچھ نہ کچھ گانے بجانے کا موقعہ ملتا رہا اور پھر 1998سے باقاعدہ موسیقی کی محفلوں میں اپنے فن کا مظاہرہ شروع کیااور اِس وقت موسیقی کے شعبے میں ایک معروف فنکار کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔
جمیل شیخ ڈھولک، طبلہ، کانگو،پیڈ پلیئر اور بہت سارے دیگر موسیقی کے آلات بجانے میں مہارت رکھتے ہیں۔ جمیل شیخ ایک معروف شخصیت ہیں، انہوں نے جموں کشمیر کے علاوہ ملکی سطح پر ہندوستان کی کئی ریاستوں و مرکزی زیرِ اِنتظام علاقوں اور بیرونِ ملک پاکستان کے فیصل آباد، راولپنڈی، ملتان، اورمظفر آباد کے کئی شہر و دیہات میں مختلف پروگراموں کے دوران اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہے۔جموں کشمیر میں اِس وقت شاید ہی کوئی گوجری اور پہاڑی کی ایسی محفلِ موسیقی ہو جس میں جمیل شیخ طبلے یا ڈھولک کی تھاپ سے دِلوں کو جھنجھوڑ کے جوش نہ بھرتے ہوں۔ جمیل شیخ جموں و کشمیر اکیڈیمی برائے فن،ثقافت و لسانیات کی طرف سے منعقدہ ہر محفلِ موسیقی کی جان مانے جاتے ہیں۔
اِس کے علاوہ آل انڈیا ریڈیو سرینگر، جموں اور میڈاگری اسٹیشنوں سے بھی اپنے فن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔کلچرل اکیڈیمی اور ریڈیوکے علاوہ دوردرشن سرینگر، گلستان نیوز،اور دیگر غیر سرکاری انجمنوں کی طرف سے منعقدہ کئی پروگراوں میں اپنے فن سے سامعین و ناظرین کو حظ بخشتے ہیں۔ جمیل نے وادی کے ہر پہاڑی، گوجری، پنجابی، کشمیری اور اردو گلوکاروں کے ساتھ بھی اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہے، اوراِس کے علاوہ تامل، تلگو، مراٹھی، بنگالی، ملیالم، بھوجپوری، ہماچلی اور اڑیہ زبانوں کے گلوکاروں کے ساتھ بھی اپنے فن کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔ جمیل نے فنِ موسیقی سیکھنے کی شروعات اپنے والد سے کی۔ جمیل شیخ نے والد صاحب کی وفات کے بعد زندگی کے کئی اتار چڑھاؤ دیکھے، لیکن والدہ صاحبہ کی دعاؤں، بھرپور ساتھ اور حوصلہ افزائی کی وجہ سے اس مقام تک پہنچنے کے لئے انہوں نے بہت محنت کی۔ اور زندگی کی تمام مشکلات کا سامنا کیا ہے۔
جمیل کو ان کے فن اور زبانوں کی خدمت کے اعتراف میں کئی انجمنوں کی طرف سے متعدد ایوارڈ و اسناد مل چکے ہیں۔ جمیل پرساربھارتی سے تسلیم شدہ فنکار ہیں۔ آج کل جمیل شیخ ایک استاد کی حیثیت رکھتے ہیں، اور بہت سارے نوجوانوں کو یہ فن سکھا بھی رہے ہیں۔وہ ایک بہت ہی شائستہ مزاج اور نرم طبیعت انسان ہیں۔ پہلی ملاقات میں ملنے والا ہر شخص جمیل کو نہیں پہچان پاتا لیکن جب ان کے فن سے مسحورہوتا ہے تو ان کی تعریف کئے بنا نہیں رہ پاتا۔ فنِ موسیقی میں کمال مہارت حاصل کرنے کے لئے جمیل نے کئی راتوں کی تنہائیوں کو اپنی ریاضت کے لئے چُنا۔
مسلسل محنت اور لگن سے جمیل شیخ نے اپنا مقام بنانے کے لئے دن رات ایک کئے اور کئی محفلوں میں بنا معاوضے کے ہی اپنے فن کا مظاہرہ بھی کیا۔ تاکہ ان کے فن میں پُختگی پیدا ہو۔ زندگی میں کوئی مقام پیدا کرنے کے لئے بہت جدو جہد کرنی پڑتی ہے۔ تب جا کے کہیں نام اور مقام ملتے ہیں۔لوگوں کی آہ کو واہ میں بدلنے کے لئے اپنا آرام، سُکھ چین،راتوں کی نیند اور دن کا سکون قربان کرنا پڑتا ہے تب کہیں جا کے کوئی مقام ملتا ہے اور جمیل شیخ نے یہ سب ثابت کر دکھایا۔ کہتے ہیں کہ درد کے پیچھے کا درد اور ہری بھری کھیتی کے پیچھے بنجر زمین کا کی پیاس کوئی نہیں جانتا، سب خوبصور ت مناظرسے ہی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جمیل شیخ جیسے کئی منزل کے متلاشی فن کاروں کو عروج بخشے۔
نوٹ: کالم نویس شاعر،ادیب،براڈکاسٹر اور صحافی ہیں۔