کیوں باطِل کی جھوٹی شان سے، تُو اِتنا غمگیں ہے
جواں رکھ حوصلہ اپنا، تری پہچاں تو شاہیں ہے
تُو خوگر خودی کا، ہے سامنے تیرے نئی دُنیا
غُلامی غیر کی کرنا، ترے جذبوں کی توہیں ہے
بَتا آخر قفس میں، کس طرح تُو ہو گیا راضی
ہو جا اب مائلِ پرواز، تُو اُڑنے کا شوقیں ہے
تری نظروں کو خیرہ کر نہ دے ، ہاں تابِشِ دُنیا
ہے اس کے پیچھے ظُلمت، سامنے لیکن جو رنگیں ہے
تُو لے بس نام اللہ کا، نئے جذبوں کو کر پیدا
سُنو مایوس ہونا رب کے دَر سے، غلطی سنگیں ہے
اے شاہیں!! رب تُجھے دے دے، فریضہ رہنمائی کا
ترا انداز کتنا دلنشیں اور مثلِ تسکیں ہے
عاقب شاہین