از قلم: منتظر مومن وانی
اللہ کے فضل وکرم سے مجھے ہندوارہ جانے کا موقعہ ملا. سفر کے دوران خوبصورت مناظر دیکھتے دیکھتے دماغ میں یہ خیال گردش کرہا تھا کہ یہ زمین علم و ادب کے لحاظ سے بہت زرخیز ہے. اس سرزمین میں کئ نامور علمی شخصیتوں نے جنم لیا. بفضل اللہ وادی کے معروف قلمکار, مصنف اور فارسی کے استاد محترم بشیر منگوالپوری کے دولت خانے ہر بھی جانے کا موقعہ ملا. وہاں پر چند حسین لمحے گذار کر زندگی کے کئی اسباق سے میں آشنا ہوا جن میں بچوں کی تربیت ایک اہم بات تھی.
دو حسین خوبصورت شگوفے میرے سامنے کھڑے ہوئے اور انتہائی احترام کے ساتھ سلام کی. یہ بچیاں کمر عمر تھی لیکن ان کے عقل کی پختگی نے مجھے حیرت میں ڈالا. ان کا کلام, بیٹھنے کا طریقہ یہ سب اس علمی گھرانے کے بڑائی کا اطلاع دیتے تھے. تربیت ایسی کہ میں سوچتا تھا کن الفاظوں سے ان جگر کے ٹکڑوں سے بات کروں. چند لمحوں کی گفتگو کے بعد جب میں اہرا صدف اور بشرا ایرانی نامی ان شگوفوں کو یہ کہا کہ آپ نے کیا سبق یاد کیا ہے تو انہوں نے مجھے حیران کن دایرے میں قید کیا وہ یہ کہ انہوں فارسی کے کئی نظمیں, اشعار اور نعت سنا کر مجھے اور میرے ساتھی کو حیرت میں ڈالا.
ان بچیوں نے رومی جامی اور کئی فارسی کے معروف شخصیتوں کے فارسی اشعار سنائے. صرف اتنا نہیں بلکہ کئی قرانی آیتیں بھی سنائی اور ان کا عربی مخارج اس قدر مضبوط تھا کہ مجھے بہت سارے عربی پڑھنے والوں پر تعجب ہوا. ان دونوں معصوم چہروں کو فارسی زبان کے تمام الفاظوں کو ادا کرنے میں اس قدر عبور تھا کہ مجھے محسوس ہوا کہ شاید یہی ان کی مادری زبان ہے. کشمیری اشعار اور ان کی لکھائی یہ سب کچھ دیکھ کر میرے ذہن میں یہی خیال تھا کہ ” وہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی”. وہ جو بچوں کو چند فضول باتیں سکھا کر خود کو جدید اور بڑھے عقل والے پیش کرتے ہیں میں ان کو یہ پیغام دیتا ہوں کہ وہ تربیت کا نسخہ صدف اور بشرہ ایرانی سے حاصل کرے کیونکہ ان کی تربیت ہر اعتبار سے معنی خیز ہے.
فارسی, عربی, اردو, کشمیری زبان کے الفاظ اور اشعار ادا کرتے ہوئے ان کے چہرے پر مجھے ایک عظیم فلسفی اور تجربہ یافتہ استاد نظر آتا تھا. اس تربیت کا راز یہی ہے کہ یہ دو بچیاں صبح کے وقت چند لمحے اپنے دادا محترم وانی بشیر منگوالپوری کے ساتھ گزارتی ہے. یہ جان کر مجھے نند ریش رح کی بات یاد آئی کہ” نندین ستین دوہ دن برزہے زن دیتتھ شاہ وولگی کنز” اہرا صدف اور بشرہ ایرانی کے والد صاحب محترم عارف بشیر وانی نے کہا کہ مجھے خوف تھا کہ میرے والد صاحب کے اس فن کو کون آگے زندہ رکھے گا لیکن اللہ کے فضل سے ان بچیوں میں یہ شوق بیدار ہوا.
یہ کتابوں سے بہت محبت رکھتی ہے اور کئی زبانوں پر آہستہ آہستہ عبور حاصل کررہی ہے. صدف اور بشرہ ایرانی حقیقی لفظوں میں تمام بچوں کے لیے قابل تقلید ہے اور یہ گھرانہ اس قوم کے تمام والدینوں کے لیے واضح پیغام ہے کہ ہمیں اپنے بچوں کے لیے بہت سنجیدہ ہونا ہے. میں نے جب رخصت لیا تو دل چاہتا تھا ان بچیوں کے ساتھ اور باتیں کروں کیونکہ ان کی تربیت ہر انسان کو ایک خاموش پیغام دیتی تھی. اللہ قوم کے بچوں کو صدف اور بشرہ ایرانی کا تمیز اور شعور عطا کرے.آمین. ان سے اللہ حافظ کہہ کر دل میں یہی دعا موجود تھا کہ.
پھلا پھولا رہے یارب چمن میری امیدوں کا
جگر کا خون دے دے کر یہ بوٹے میں نے پالے ہیں.