ناول از قلم: عاقب شاہین
شاہورہ راجپورہ پلوامہ
تبصرہ از قلم ۔شگفتہ حسن
"وہ جو خواب ہی رہا” یہ ایک ناول کی کتاب ہے۔ جو ہمارے کشمیری نوجوان عاقب شاہین ضلع پلوامہ راج پورا شاہورا نے کشمیر کے ایک خاندان زینب اور زبیر کو مہور بنا کر لکھی ہیں۔ایک سو صفات کی مختصر ضخامت میں بجلیوں سے بھرا ہوا یہ ناول تاریخ اسلامی کی عظیم روایات،شہادت کی عظیم دستاویز ہے۔ یہ ناول نصیم حجازی طرز کا ہے نصیم حجازی نے نوجوانوں کو اسلامی تاریخ کے درخشوں اور شاندار پہلو دکھا کر آزادی کی شمع روشن کرنے کیلئے ابھرا تھا ۔
فاضل ناول نگار اگرچہ عمر کے لحاظ سے بہت بڑے لکھاری یا مشق ادیب نہیں لیکن وادی میں حالات واقعات اور بقول ناول نگار اُس کے گھر کے حالات کی کشمکش نے انھیں وقت سے پہلے بڑوں بڑوں کی صف میں لا کھڑا کیا۔
نوجوان عاقب شاہین کا ناول وہ جو خواب ہی رہا ” مصائب ، مشکلات اور مصیبتوں کی کہانی ہے۔اس جنت کا ایک بچہ اپنی زندگی کے آغاز سے لے کر آخر تک۔ اپنی ہی جنت میں ایک اجنبی ہو جاتا ہے۔ معصوم بچہ آزادی کے گہرے احساس کے ساتھ بے چین ہے۔ اس نے اپنے بچپن کے دوست کو ایک جمی ہوئی دھند میں کھو دیا ، حالانکہ وہ ان دنوں کو یاد کرتا ہے۔ جب وہ ایک ساتھ دورے پر جاتے تھے ، ایک ساتھ پڑھتے تھے اور ایک ساتھ کھیلتے تھے ، لیکن پھر بھی ان کا خیال ہے کہ پرانی یادیں ایک کمزوری ہے اور مجھے اپنے آپ کو انتقام کے لیے تیار کرنا چاہیے۔ وہ ہمیشہ معاشرے کی بھلائی اور خوشی کے بارے میں سوچتا ہے۔ اب اس میں صرف ایک چیز باقی ہے امید اور یقین ، اب وہ استقامت کے ساتھ تمام حالات کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہے۔ ان کا پختہ یقین ہے کہ وہ دن آئے گا جب ہم ایک سیڑھی کی چوٹی پر ہوں گے اور ایک مظلوم باغ کے پھول کھلیں گے۔
شاہین کا ناول مصائب اور نہ ختم ہونے والی امید کا عملی مظاہرہ ہے۔
ناول میں مصنف نے ایک لڑکی کا تزکرہ بھی کیا اور لڑکی کا نام تقوی ہے جس کی شادی بدر کے ساتھ ہوتی ہے ۔اور ایک دوسرے سے بہت محبت کرتے ہے ۔اور ان کا ایک بیٹا بھی ہوتا ہے ۔اور جب بدر اس دنیا کو چھوڑ کے چلا جاتا ہے تو تقوی بدر کی محبت میں پھر شاعری کرنے لگتی ہیں۔ اور بدر کی یاد میں زندگی گزارتی ہیں۔اور بدر کی آخری نشانی جو اس کا وہ خوبصورت بیٹا ہوتا ہے اسے دیکھ کر زندگی گزارنے لگتی ہیں ۔مصنف کا کہنا ہے کہ تقوی اور اس کے بیٹے کی کہانی آنے والے جلد دوم میں پیش کریں گے ۔
۔یہ ناول کچھ اسی قبیل سے متعلق ہے۔ادب برائے برائے ادب کی بجائے ادب برائے مقصدیت کی حامل یہ عظیم تحریراپنے خالق کی ذہنی پختگی اور فکری بالیدگی کا واضع پتہ دیتی ہے۔
ناول کے مکالمے جہاں بہت جاندار ہیں وہاں کرداروں کی تسویم بھی لاجواب ہے۔ناول کی معلوم تاریخ میں ڈپٹی نزیراحمدکے ہاں ناول میں کرداروںکے نام اورکام میں تطبیق ملتی ہے،بعد کے ناولوں میں تو پردہ سکرین کی پیروی میں رکھے گئے نام ہی پڑھنے کو ملتے رہے۔اس ناول کی اٹھان ،اسکا اختتام اور اس کے کرداروں کے نام سب ایک ہی قبلہ کی طرف ہاتھ باندھے صف بستہ نظر آتے ہیں۔پورا ناول اپنے اندر مکمل جاذبیت رکھتاہے اور کہانی کے ساتھ ساتھ قاری کی جذباتیت کے لیے بھی شعلہ نوائی کا کام کرتاہے اوراگر قاری صاحب ایمان ہو تواسکی روحانی نموکاسامان بھی اس تحریرمیں بدرجہ اتم موجود ہے۔اللہ تعالی عاقب شاہین کے قلم میں مزید تاثیرپیداکرے ۔
شگفہ حسن ضلع بارہمولہ کے تحصیل ٹنگمرگ سے تعلق رکھتی ہے ۔
[email protected]