فاروق ارگلی
25،گنیش پارک، رشید مارکیٹ، دہلی-51
موبائل: 9212166170
ای میل: [email protected]
امام الہند مولانا ابوالکلام آزادؒ کی نابغہئ روزگار شخصیت انسانی پیکر میں علم و بصیرت کا ایک ایسا عدیم المثال مخزن و معدن تھی جو اسلامیات، سیاسیات، ادب، فلسفہ، حکمت، سماجیات اور رموزِ حیات و کائنات کے گہرہائے گرانمایہ سے لبریز تھی۔ مولاناؒ نے دستِ قدرت سے خاص طور پر تفویض کردہ اپنی دولتِ علم و کمال کو برِّصغیر کی امتِ مسلمہ کی دینی، سیاسی و تمدنی قیادت کی راہ میں جی بھر کے لٹایا اور آنے والی صدیوں تک رہروانِ جادہئ حیات کی رہنمائی کے لیے ایسے چراغ روشن کردیئے جن کی تابانیاں کبھی ماند نہیں ہوسکتیں۔
اُردو زبان عصرِ حاضر میں عالمی سطح کی زبان بن چکی ہے۔ اس خوبصورت زبان نے انگنت دورساز شخصیتیں پیدا کی ہیں جو شہرتِ عام اور بقائے دوام کے دربار میں اعلیٰ مدارج پر فائز ہیں لیکن مولانا آزادؒ اُردو زبان و ادب کی تاریخ میں فکری انفرادیت اور عبقریت کا وہ روشن استعارہ ہیں جن کے بارے میں بلاخوفِ تردّد یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر وہ شاعری کرتے رہتے تو اقبالؔ اور غالبؔ سے آگے ہوتے، لیکن وہ نثرنگار بنے تو ایسے کہ اب تک ان جیسا سحرطراز نثرنگار پیدا نہیں ہوا۔ وہ شارحِ دین ہی بنے رہتے تو بھی ان کی عظمت و رفعت مسلمہ تھی لیکن ارضِ وطن کی تحریکِ آزادی نے انھیں خارزارِ سیاست میں کھینچ لیا۔ پھر جب وہ سیّاس بنے تو ایسے قائد ثابت ہوئے کہ عصری تاریخِ ہند کے بڑے بڑے قدآور نام ان کی گرد تک بھی نہ پہنچ سکے۔ وہ آزادی کی تحریک اور آزادی کے بعد ملکی سیاست پر چھائے رہے کوتاہ بین اکثریتی عصبیت کی دھول نے ہرچند اس آفتاب عالمتاب کی تنویروں کو دھندلا کرنے کی مسلسل کوشش کی لیکن اس حقیقت کو چھپانا ممکن نہ ہوا کہ مولانا بلاشک و شبہ جنگِ آزادی کے بعد سیکولر جمہوری ہندوستان کے سب سے بڑے قوم پرست مسلمان اور مفکر سیاستداں تھے۔ ملک کی تحریکِ آزادی میں کامیابیوں کا تاج سر پر سجائے انڈین نیشنل کانگریس اپنی سوسالہ تاریخِ سیاست و عزیمت میں مولانا ابوالکلام آزادؒ جیسا مدبر رہنما پیش نہیں کرسکتی۔ بقول جناب عبدالقوی دسنوی:
”کہا جاتا ہے کہ ہندوستان کی جنگِ آزادی کا سہرا انڈین نیشنل کانگریس کی بنیاد سے جڑا ہوا ہے، لیکن اگریہ کہا جائے کہ جنگ آزادی کی کہانی کے ساتھ اس جنگ کے نہایت دلیر سپاہی، آزادیِ وطن کے متوالے مولانا ابوالکلام آزادؒ کی داستانِ حیات بھی شروع ہوتی ہے اور ساتھ ساتھ چلتی ہے تو یہ بات بھی کم باوزن نہیں معلوم ہوتی۔ کانگریس کی بنیاد 1885ء میں پڑی۔ مولانا آزادؒ ہندوستان آئے اور 1903ء میں تعلیم سے فراغت کے بعد اپنے والد کا جانشین بننے کے بجائے جنگِ آزادی کا سپاہی بن کر میدانِ جنگ میں اُترنے کی تیاری کرنے لگتے ہیں۔ تقسیمِ بنگال سے متاثر ہوتے ہیں، انقلابیوں کے سربراہ شیام سندر چکرورتی سے تعلق پیدا کرتے ہیں، واپس آکر چند سال بعد 13جولائی 1912ء سے ’الہلال‘ جاری کرتے ہیں اسی کے ساتھ جنگِ آزادی کی راہ پر آہستہ آہستہ چل نکلتے ہیں اور پھر انگریزوں کے خلاف رفتہ رفتہ صف آرائی میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ یہ بات بھی اہمیت رکھتی ہے کہ مولانا آزادؒ نے آزادی کی لڑائی میں نہایت بے باکی اور جرأت مندی کے ساتھ حصہ لینا شروع کیا جب ہمارے بہت سے رہنما اپنے متعلق فیصلہ نہ کرپائے تھے کہ انھیں اس میدان میں کب اور کیسے اُترنا ہے اور کس طرح حصہ لینا ہے۔“ (ابوالکلام آزاد)
اُردو کے ایک اور صاحبِ طرز دانشور نے امام الہند مولانا ابوالکلام آزادؒ کا سراپا اور شخصیت کا خاکہ اس طرح پیش کیا ہے: ”سروقد، کتابی چہرہ، ذہانت کی روشنی سے منور آنکھیں، چہرے پر علم کا جلال، حاضر دماغ، حاضر جواب، فطانت کا مجسمہ، مثالی حافظہ کے مالک، ادبیات، دینیات، فلسفہ اور منطق کے ماہر، تصوف، حکمت اور شاعری میں داخل، عربی مادری زبان، فارسی رو زمرہ کے استعمال کی چیز اور اردو گھر کی لونڈی، علاوہ ازیں کئی زبانوں میں دخل، حسن پرست، موسیقی کے عاشق، سفید چنبیلی چائے کے دلدادہ، خوش ذوق، خوش پوش، دل کش، وجیہہ ایسے کہ دیکھنے والا دیکھتا ہی رہے، وسیع القلب، روادار، آزادیِ رائے کے قائل، ایماندار اور زبردست اخلاقی قوت کے مالک، یہ تھے مولانا ابوالکلام آزاد جن کے سر پر قوم نے امام الہند کی دستار باندھی تو دوسری طرف شو بوائے کا خطاب ملا، ان کو ملت نے بہ نظر تشکیک دیکھا اور برادر نِ وطن نے اپنانے میں تامّل کیا:
زاہدِ تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلمان ہوں میں
ان کی گردن میں شک کے پھولوں کے ہار ڈالے گئے، عدم اعتماد کی سند سے سرفراز کیا گیا، دامنِ مراد کو ناقدری کے سکوں اور دشنام کی مہروں سے بھر دیا گیا لیکن اس مردِ مومن نے حضورؐ کی طرح یہی کہا کہ خداا نہیں معاف کرے کیوں کہ وہ نہیں جانتے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔مولانا کا قد قوم پرست مسلمانوں میں سب سے نکلتا ہوا تھا، انھوں نے اپنا سیاسی مسلک چن کر صحیح راستہ اختیار کیا جب کہ دوسرے شش و پنج کی گلیوں میں بھٹکتے رہے، جب ان کی عمر کے نوجوان لہو لعب کے گلستاں میں گم عیش و نشاط کی خوشی چینی کر رہے تھے اس وقت وہ سیاست کی پرخار وادی میں اپنی آبلہ پائی کے آبلوں سمیت داخل ہو چکے تھے۔ان سے عوامی مقبولیت ہمیشہ روشنی کے سائے کی طرح روٹھی رہی سوائے خلافت تحریک کے اس مختصر عرصہ کے، جب مسلم عوام کے دل و دماغ پر ’الہلال‘ کی نگار شات نے حکمرانی کی لیکن دانشور وں، عالموں اور تعلیم یافتہ افراد کا ایک ہالہ ہمیشہ ان کے گرد رہا، وہ صرف ذاتی صلاحیت کے زینہ سے بلند ترین مسند پر پہنچے، مہاتما گاندھی نے اپنے اعتماد و اعتبار کا تاج ان کے سر پر رکھا، نہرہ نے سدا ان کے مشوروں کو مقدم جانا اور ان کی رفاقت پر فخر کیا۔ جب کانگریس کی قیادت کا باران کے شانوں نے سنبھالا تو اس وقت ہندوستان کی سیاسی تاریخ کا سب سے پیچیدہ باب اسٹیج ہورہا تھا۔
مولانا آزاد شاید واحد رہنما تھے جنھوں نے مقبولیت کو داؤ پر لگا کر اپنی قوت فیصلہ کی حفاظت کی او رنیک نامی کے سکوں سے اپنے نقطۂ نظر کی بقاء خریدی۔ انھوں نے مصلحت کی آوازوں پر کان نہیں دھرے بلکہ ضمیر کے مشوروں کو ہمیشہ اپنے ذہن کی بارگاہ میں باریاب کیا۔ انھوں نے حالات کا جائزہ جذبات کی عینک سے نہیں، بلکہ دور اندیشی کی دوربین سے لیا، انھوں نے گلیوں کوچوں میں گونجتے نعروں پر دھیان نہیں دیا بلکہ نوشتہء دیوار کو پڑھا، اور قوم کو وہ راستہ دکھایا جو گرچہ اس وقت نامنظور و نامقبول رہا لیکن بعد میں رخشِ تاریخ کی چال اور سیارگانِ سیاست کی گردش نے ثابت کیا کہ مسئلہ کا صحیح حل وہی تھا، جب طوفان گزر چکا اور ناخدا کشتی کو بے سہارا چھوڑ کر محفوظ جزیرے میں چلے گئے تو پریشان حال، منجدھار میں گھری قوم نے اس چھتنار درخت کے سائے میں پناہ لی اور انھوں نے وسیع القلبی سے سب کو گلے سے لگا لیا، مولانا آزاد کا شمار میدان علم و حکمت کے ان چند جیالے شہسواروں میں کیا جاتا ہے جن کو بیک وقت تحریر و تقریر میں یکساں کمال حاصل تھا، شعلہ بیان ایسے کہ پہاڑوں کے دل دہل جائیں، زبان پر ایسی قدرت کہ ایک ایک بات کو سو سو انداز سے کہیں، لہجہ میں تاثیر ایسی کہ سننے والوں پر سکتہ طاری ہو جائے، مولانا نے ایک نئے انداز تحریراور نئے اسلوب کو جنم دیا، ایک ایسا اسلوب جو ان کے قلم سے پیدا ہوا، اور ان کے ساتھ ہی اس کا چراغ گل ہو گیا۔ ان کے قلم سے لفظ ایسے نکلتے تھے جیسے ٹکسال میں سکے ڈھلتے ہیں، ان کے ادارئیے، ان کے خطوط، ان کے انشائیے اور دوسری نگارشات اردو ادب کا ناقابل فراموش، بیش قیمت سرمایہ ہیں، اگر مولانا کے سیاسی کیرئیر کو یکسر نظر انداز کر دیا جائے، تب بھی وہ ایک صاحب طرز ادیب کی حیثیت سے اپنی انشاپروازی کے بل بوتے پر اس وقت تک زندہ رہیں گے جب تک صفحہئ ہستی پر اردو زبان و ادب کا ایک بھی پروانہ باقی ہے۔“ (آئینہئ ابوالکلام آزاد، ص 9-10)
راقم الحروف اس جگہ امام الہند کا سوانحی مقالہ نہیں لکھ رہا۔ یہ اتنا بڑا موضوع ہے کہ اس کے لیے ایک دفتر درکار ہے۔ہمارے اکابرین کی ڈھیروں کتابیں اس پر موجود ہیں۔ یہاں مولانا آزاد کی وسیع اور وقیع شخصیت کی محض کچھ جھلکیاں ہی پیش کی گئی ہیں۔
مولانا ابوالکلام آزادؒ کی ولادت سنہ 1888ء میں مکہ معظمہ میں ہوئی۔ ان کے والد حضرت مولانا خیرالدینؒ نے بچے کا نام فیروزبخت رکھا تھا۔ یہ تاریخی نام تھا، اصل نام محی الدین تھا، بعد میں وہ ابوالکلام آزاد کے نام سے عالمگیر شہرت کے مالک بنے۔ مولانا آزاد کا تعلق اس دینی و روحانی خانوادے سے ہے جو صدیوں سے علمی، دینی اور روحانی دولت سے مالامال تھا۔ آزاد کے جدِّاعلیٰ حضرت مولانا جمال الدین المعروف شیخ بہلول دہلویؒ شہنشاہ اکبر کے ہم عصر تھے جنھوں نے اکبر کو دینی امور کا سربراہ کا درجہ دینے والے محضر پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ان کے صاحبزادے حضرت شیخ محمدؒ حضرت مجدد الف ثانی کے مرید تھے جنھوں نے جہانگیر کے خلافِ شرع احکام کو تسلیم نہیں کیا اور پاداش میں گوالیار کے قلعے میں قید کیے گئے تھے۔ امام الہند کے اجداد مولانا محمد حسنؒ، حضرت شاہ افضلؒ، حضرت مولانا محمد ہادیؒ اور ان کے والد مولانا خیرالدینؒ دہلی کے باشندے تھے۔ مولانا آزاد کے دادا حضرت مولانا محمد ہادیؒ کا شمار دہلی کے مقتدر علماء و فضلاء میں ہوتا تھا۔ ان کے والد حضرت مولانا خیرالدین ؒصاحبِ شریعت و طریقت صوفی و عالم دین تھے۔ ملک و بیرونِ ملک ہزارہا لوگ ان کے حلقہ اراوت میں شامل تھے۔ حضرت مولانا خیرالدین کی عالمانہ عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ترکی کے سلطان عبدالحمید نے انھیں ترکی تشریف لانے کی دعوت دی جہاں آپ نے طویل مدت تک قیام کیا اور وہاں اپنی بہترین تالیفات مکمل کیں۔ اس کے بعد انھوں نے مکہ معظمہ میں سکونت اختیار کی جہاں ان کے اس جواں بخت فرزند نے جنم لیا جو امام الہند بن کر مطلعِ عالم پر پر روشن ہوا۔ آزادؒ کے ایک بھائی ابوالنصر غلام یاسین اور تین بہنیں زینت، فاطمہ اور حنیفہ عرف محمودہ تھیں۔ مولانا آزاد نے دس سال کی عمر تک مکہ معظمہ میں ہی تعلیم و تربیت حاصل کی۔ 1898ء میں اپنے ہزارہا مریدوں کے اصرار پر حضرت مولانا خیرالدینؒ اپنے کنبے کے ساتھ ہندوستان واپس آگئے۔اور کلکتہ میں سکونت اختیار کی۔
مولانا آزادؒکو گھر پر ہی دینی تعلیم دلائی گئی کیونکہ مولانا خیر الدین ؒ انگریزوں کی زبان انگریزی اور ان کی تہذیب سے سخت نفرت کرتے تھے۔ آزادؒ غیرمعمولی ذہانت کے مالک تھے۔ انھوں نے درسِ نظامی صرف چار سال میں مکمل کیا جبکہ عام طور سے اس کی تکمیل میں دس سال لگتے ہیں۔انھیں اعلیٰ دینی تعلیم کے لیے 1905ء میں جامعہ الازہر قاہرہ بھیج دیا گیا۔ دو سال میں وہاں سے فارغ ہوکر واپس ہندوستان تشریف لائے۔ ان کی شادی صرف بارہ سال کی عمر میں مولانا خیرالدینؒ کے ایک مخلص مرید کی صاحبزادی زلیخا بیگم سے ہوئی جن کی عمر صرف سات سال کی تھی۔ بڑی ہوکر وہ عربی فارسی زبانوں سے واقف ایک سلیقہ مند اور باشعار شریکِ حیات ثابت ہوئیں جنھوں نے زندگی کے آخری لمحات تک مولانا کے دشوار ترین انقلابی سفر کے ہر مرحلے پر ان کا ساتھ دیا۔
مولانا آزادؒ کے بارے میں یہ کہنا غلط نہیں ہے کہ انھوں نے بچپن دیکھا ہی نہیں کیونکہ اس عمر میں جب بچوں کے کھیلنے کودنے کا زمانہ ہوتا ہے ان کا شعور جوانوں کی طرح بیدار ہوچکا تھا۔ انہوں نے ہوش سنبھالتے ہی عربی فارسی اور اردو کی بڑی بڑی کتابیں پڑھ ڈالیں۔ علم و ادب اور صحافت کی طرف اس قدر توجہ تھی کہ چھوٹی سی عمر میں ’نیرنگِ عالم‘ کے نام سے ایک جریدہ جاری کردیا۔ اس کے بعد ’المصباح‘ کے ایڈیٹر بنے۔ یہ رسالہ عید کے دن جاری ہوا تھا۔ انھوں نے ’عید‘ کے نام سے جو اداریہ لکھا وہ اس قدر اثرانگیز تھا کہ ملک کے بہت سے اخبارات نے نقل کیا جن میں لاہور کا مشہور ’پیسہ اخبار‘ بھی تھا۔ صرف چودہ پندرہ سال کی عمر میں ان کی پہلی کتاب ’اعلانِ حق‘ شائع ہوئی۔ اسی زمانہ میں انھوں نے اس دور کے سب سے اہم جرائد ’مخزن‘ اور ’احسن‘ لاہور، ’الاخبار‘ کلکتہ اور ’مرقع عالم‘ ہردوئی میں ایسے مضامین لکھے کہ ان کی شہرت ملک کے مقتدر قلمکاروں میں ہونے لگی۔ نوبت رائے نظرؔ نے لکھنؤ سے شائع ہونے والے اپنے مشہور جریدہ ’خدنگِ نظر‘ میں انھیں مستقل لکھنے کی دعوت دی۔ ’خدنگِ نظر‘ کے ایک مضمون ’عکس ریز‘ سے علامہ شبلی نعمانی اس درجہ متاثر ہوئے کہ انھوں نے ’الندوہ‘ کے لیے ہر ماہ مضامین لکھنے کی فرمائش کی تھی۔
یہ ایک حیرت ناک حقیقت ہے کہ اُردو ادب و صحافت ہی نہیں ہندوستان کی پوری علمی، ادبی، سیاسی اور ثقافتی تاریخ میں کوئی ایسی مثال نظر نہیں آتی کہ 12-13 سال کا ایک بچہ اپنے عہد کے علمی، ادبی اور صحافتی منظرنامے پر وہ مقام حاصل کرلے کہ بڑے بڑوں کو پیچھے چھوڑ دے۔ 1903ء میں وہ جریدہ ’لسان الصدق‘ کے ایڈیٹر مقررہوئے۔ علم و ادب کے فروغ کے ساتھ ساتھ مسلم معاشرہ کی اصلاح کرنا اس رسالہ کی پالیسی تھی۔ برصغیر کی اُردو صحافتی دنیا میں اس رسالے کا خیرمقدم کیا گیا۔ تحریر کی خداداد لیاقت کے ساتھ ہی تقریر و خطابت میں ان کا نام شروع سے ہی مشہور ہوگیا تھا۔اور ابوالکلام کے لقب سے یاد کیے جانے لگے،یہی لقب ان کا نام بن گیاآزاد ان کا تخلص تھا اوائل عمر میں انہیں شعرو شاعری کا شوق بھی تھا، لیکن یہ سلسلہ زیادہ آگے نہیں بڑھ سکا کیونکہ ان کی نثر بجائے خود شاعری بن گئی۔ چھوٹی عمر میں طرز اور اسلوب کے وہ موجد بھی تھے اور خاتم بھی ثابت ہوئے۔ 1904ء میں جب وہ انجمن حمایت اسلام لاہور کے اجلاس میں شریک ہوئے تو وہاں اپنی سحرانگیز اور بصیرت افروز خطابت سے لوگوں کو حیرت زدہ کردیا۔ جس وقت آزاد لاہور پہنچے تھے اس وقت مولانا وحیدالدین سلیم پانی پتی اور مولانا الطاف حسین حالیؔ کو تو یقین ہی نہ آتا تھا کہ یہ نوخیز لڑکا ہی ابوالکلام ہے جس کا قلم زر و جواہر اگلتا ہے اور جس کے نطق سے علم و آگہی کے موتی برستے ہیں۔ 1906ء میں وہ امرتسر کے ہفت روزہ جریدہ ’وکیل‘کے ایڈیٹر ہوگئے، لیکن پھر اپنے والد کے حکم پر کلکتہ واپس آکر ہفت روزہ ’دارالسلطنت‘ سے وابستہ ہوگئے۔ 1912ء تک مولانا ابوالکلام آزادؒ کا قومی شعور پوری طرح جوان ہوچکا تھا۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کی اسلامی تحریکِ حریت اور ان کے افکار کے مطالعے نے انھیں برطانوی سامراج کو اکھاڑ پھینکنے والی قوتوں کے ساتھ مردانہ وار آگے بڑھنے کی ترغیب دی۔ جون 1912ء میں انھوں نے کلکتہ سے ’الہلال‘ جاری کیا۔ ان کا قلم ایک نئے جلال کے ساتھ جلوہ گر ہوا۔ انھوں نے قرآن کریم کی تعلیمات کی روشنی میں امتِ مسلمہ کے سامنے انقلاب کا راستہ روشن کیا۔ خوابیدہ قوم کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر جگادینے والی ان کی جادو اثر تحریروں نے غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ذہنوں کو نئے جوش اور ولولے سے ہمکنار کردیا۔ آزادیِ ہند کے عظیم رہنما شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسنؒ نے ’الہلال‘ میں مولانا آزادؒ کے قلم کی شدت اور اثرخیزی پر فرمایا تھا: ”ہم سب سوئے ہوئے تھے، ’الہلال‘ نے ہمیں جگادیا۔“
مولانا آزادؒ نے اپنی شعلہ بار تقریروں اور دل و دماغ پر چھا جانے والی تحریروں سے ہندوستانی مسلمانوں کو 1857ء کے بعدابھرنے والی سرسیّد تحریک کے اس طلسم کو توڑ کر رکھ دیا جس نے مسلمان قوم کی فلاح اور ترقی کے لیے انگریزحکومت سے وفاداری کے ذہنی دائروں میں مقید کر رکھا تھا۔ مولانا آزادؒ نے ’الہلال‘ کے ذریعہ اس ہنگامہ خیز دور میں عالم اسلام کے ان تمام مسائل کو اُجاگر کیا جن کا تعلق مسلمانوں کی زندگی سے تھا۔ انھوں نے جنگِ بلقان کی شیطانی سیاست کے خلاف نعرہئ حق بلند کیا۔ کانپور میں مچھلی بازار والی مسجد کے سانحے پر انھوں نے اپنے دل کا سارا درد اس طرح ظاہر کیا کہ پوری قوم تڑپ اُٹھی۔
کانگریس کے عزائم اور نصب العین سے وہ اس لیے اتفاق کرتے تھے کہ یہ جماعت بلالحاظ مذہب و ملت تمام ہندوستانی عوام کی نمائندگی کرتی تھی۔ وہ اسلامی فکروفلسفہ کے مبلغ و مفسر تھے، لیکن ان کا کھلا ہوا ذہن قومی یکجہتی اور بقائے باہم کی روشنی سے معمور تھا۔ مہاتما گاندھی مولانا آزادؒ کے قومی نظریات کے معترف تھے۔ مہاتما گاندھی کہا کرتے تھے: ”مولانا کی دیش بھکتی اسی طرح پختہ ہے جس طرح اسلام میں ان کا مکمل عقیدہ۔“ خود مولانا کے یہ الفاظ سیکولر جمہوری ہندوستان کی تاریخ میں ہمیشہ روشن رہیں گے: ”ہندوستان کے لیے، ہندوستان کی آزادی کے لیے، صداقت و حق پرستی کے بہترین فرائض ادا کرنے کے لیے، ہندوستان کے ہندوؤں اور مسلمانوں کا اتفاق اور ان کی یکجہتی ضروری ہے۔ ہندوستان کے سات کروڑ مسلمان 22کروڑ ہندو بھائیوں کے ساتھ مل کر ایسے ہوجائیں کہ دونوں مل کر ہندوستان کی ایک قوم اور ایک نیشن ہوجائیں۔“ (خطبہ کانگریس اجلاس آگرہ)
مولانا آزادؒ نے اس وقت ہندو مسلم اتحاد کی آواز بلند کی تھی جب 1911ء میں نہ وہ کانگریس میں شامل ہوئے تھے اور نہ ہی ابھی ’الہلال‘ کی اشاعت شروع ہوئی تھی، لیکن 1923ء میں انھوں نے ہندو مسلم اتحاد کے بارے میں اپنے جس عقیدے کا اعلان کیا تھا اس کی مثال پوری تاریخِ آزادی میں موجود نہیں ہے۔ انھوں نے فرمایا تھا: ”آج اگر ایک فرشتہ آسمان کی بدلیوں سے اُتر آئے اور قطب مینار پر کھڑے ہوکر یہ اعلان کر دے کہ سوراج 24 گھنٹے کے اندر مل سکتا ہے بشرطیکہ ہندوستان ہندو مسلم اتحاد سے دستبردار ہوجائے تو میں سوراج سے دستبردار ہو جاؤں گا مگر اس سے دستبردار نہ ہوں گا۔ کیونکہ اگر سوراج کے ملنے میں تاخیر ہوئی تو یہ ہندوستان کا نقصان ہوگا لیکن اگر ہمارا اتحاد جاتا رہا تو یہ عالمِ انسانیت کا نقصان ہے۔“
’الہلال‘ کے ذریعہ مولانا نے واقعی صورِ اسرافیل پھونک دیا۔ یہ پرچہ اس قدر مقبول ہوا کہ دیکھتے ہی دیکھتے اس کی تعداد گیارہ ہزار کے قریب ہوگئی۔ پنڈت جواہر لعل نہرو مولانا کے اس انقلابی جریدے کے بارے میں لکھتے ہیں: ”اسلام کی صحیح روایات میں رچے ہوئے مولانا آزادؔ اپنی علمی بصیرت اور فضیلت سے اسلامی ممالک میں غیر معمولی شہرت رکھتے تھے، ان کا نظریہئ سیاست پر انے لیڈروں سے جداگانہ تھا، وہ ہر بات میں عقلیت کے علمبردار تھے۔ انھوں نے مسلمانوں سے ’الہلال‘ میں ایک نئی زبان میں خطاب کیا، صرف ان کے خیالات اور نقطۂ نظر ہی میں جدّت نہ تھی، بلکہ ان کی تحریر کارنگ بھی نیا تھا، ان کا اسلوبِ بیان جاندار اور پرزور تھا۔ انھوں نے قدامت پرستی کے قلعہ پر حملہ کیا، علی گڑھ کی روایات کی بیخ کنی کر دی، اگرچہ بوڑھوں نے بہت تیوری چڑھائی مگر نوجوانوں کے دلوں میں ایک ہیجان پیدا ہو گیا۔“ (ڈسکوری آف انڈیا)
مولانا آزادؒ بنگال کے عظیم انقلابی شیام سندر چکرورتی کے ذریعہ وطن پرست انقلابیوں کے ساتھ آزادی کی تحریک کی شاہراہ پر عملی طور پر آگے بڑھے۔ انھوں نے مسلمانوں کے دلوں میں آزادی کی آگ بھڑکا دی۔ وہ وطن کی آزادی کے لیے کام کرنے کو خدا کو خوش رکھنا تصور کرتے تھے۔ مولانا نے اسی زمانے میں لکھا تھا:”اگر خدا کو خوش رکھنا چاہتے ہو تو شیطان کی دشمنی کی پرواہ نہ کرو۔“
انگریزی حکومت ان کی مجاہدانہ سرگرمیوں کو برداشت نہ کرسکی، پریس قانون کے ذریعہ ’الہلال‘ کا گلا گھونٹ دیا گیا۔ 1915ء میں مولانا نے اپنا دوسرا تاریخی اخبار ’البلاغ‘ شائع کرنا شروع کردیا۔ انھوں نے لکھا تھا: ”اگر آسمان کی تمام بجلیاں اُتر آئیں، ہمالیہ کی چٹانیں اپنی صفیں کھڑی کرلیں تو بھی وہ میرے ایمان(آزادی وطن کے جذبے) کو شکست نہیں دے سکتیں۔“
جہادِ آزادی درحقیقت ان کے ایمان کا حصہ ہی تھاجس سے دنیا کی کوئی طاقت انہیں روک نہیں سکتی تھی۔ ان کا قلم برطانوی استعمار کو لرزہ براندام کررہا تھا۔ لیکن ’البلاغ‘ صرف ایک سال جاری رہ سکا۔ برطانوی حکومت نے انھیں رانچی جیل میں نظربند کردیا جہاں سے وہ 1920ء میں رہا ہوئے لیکن ان چار برسوں کی نظربندی کے دوران انھوں نے قرآن کریم کی مشہور عالم تفسیر ’ترجمان القرآن‘ لکھنی شروع کی جو رہائی کے وقت تک 23پاروں تک پہنچ چکی تھی، لیکن 1921ء میں انھیں حکومتِ وقت کے خلاف سرگرمیوں پر گرفتار کرلیا گیا۔ تفتیش اور تلاشیوں کے ہنگاموں میں مولانا کی یہ گرانمایہ تالیف کا مسودہ ضائع ہوگیا۔ لیکن اس نقصانِ عظیم سے بھی مولانا کے عزائم کمزور نہ ہوئے۔ 1927ء میں انھوں نے دوبارہ کوشش کی اور اس بار یہ تاریخ ساز دینی و علمی کارنامہ شائع ہوکر زندہ جاوید ہوگیا۔ ترجمان القرآن کی عظمت اور افادیت کا اعتراف کرتے ہوئے ہندوستان کے مشہور عالم قرآن مولانا احمد سعید دہلویؒ نے لکھا ہے:
”قرآن کریم کی عربیِ مبین مولانا آزادؒ کا انتظار کررہی تھی کہ وہ آکر اسے اُردوئے مبین کے قالب میں ڈھالیں، ترجمان القرآن مولانا آزادؒ کا غیر فانی کارنامہ ہے۔“ رانچی میں نظربندی کے دوران مہاتما گاندھی نے مولانا سے ملاقات کی کوشش کی تھی لیکن انگریز حکومت نے انھیں اجازت نہیں دی۔ 1920ء میں جس وقت مولانا رانچی سے رہا ہوئے خلافت تحریک شباب پر آچکی تھی۔ ڈاکٹر مختار انصاری، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، حکیم اجمل خاں، مولانا عبدالباری فرنگی محلی، شیخ الہند مولانا محمود حسن، مہاتما گاندھی، موتی لعل نہرو، جواہر لعل نہرو، لالہ لاجپت رائے اور سی آر داس جیسے تمام قومی رہنما خلافت تحریک کے ہمنوا تھے جبکہ مسٹر جناح نے اس سے اتفاق نہیں کیا تھا اور وہ کانگریس سے الگ ہوگئے تھے۔ اس کے بعد ہی کانگریس کے ایک بلند مرتبہ قائد کی حیثیت سے ان کی زندگی کی شاندار تاریخ مرتب ہوتی چلی گئی۔ تحریک خلافت، تحریک ترکِ موالات، نمک ستیاگرہ، ہندوستان چھوڑو تحریک، آزادیِ کامل جیسی تمام تر سرگرمیوں اور صدرِ کانگریس کے طور پر مولانا کے مرکزی کردار سے ہندوستان کا ہر باشعور انسان واقف ہے۔ بار بار کی گرفتاریاں اور جیلوں کی صعوبتیں انھیں آزادیِ وطن کی شاہراہ پر آگے بڑھنے سے نہ روک سکیں۔ ان کی عزیز شریکِ حیات کا انتقال اس وقت ہوتا ہے جب وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھے اور اتنا بڑا صدمہ صبر و استقلال کے ساتھ برداشت کرجاتے ہیں۔ جنگِ آزادی میں شروع سے آخر تک مسلم لیگ کی فرقہ وارانہ سیاست اور ملک کی تقسیم کے سخت ترین مخالف مولانا آزادؒ کا قوم پرور کردارہندوستان کی اکثریتی سیاست کو ہمیشہ شرمندہ کرتا رہے گا جس نے برصغیر کی تقسیم کی فرنگی سازش میں شامل ہوکر مادرِ ہند کی عظمت و سالمیت پر وہ زخم لگائے جو آج تک تازہ ہیں۔ تقسیمِ وطن کے نظریے کے خلاف یہ ایک سچے محبِ وطن مسلمان رہنما کی آواز تھی جو 1946ء میں اس وقت بلند ہوئی تھی جب تقسیم کی سازشیں مضبوط ہورہی تھیں۔ امام الہند نے علی الاعلان فرمایا تھا:”میں صاف کہنا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی اصطلاح سے ہی میرا ضمیر بغاوت کرتا ہے۔ اس لفظ سے یہ مفہوم نکلتا ہے کہ دنیا کے کچھ حصے پاک اور کچھ ناپاک ہیں۔ دنیا کے خطوں کی پاک اور ناپاک کی بنیاد پر تقسیم غیراسلامی ہے اور روحِ اسلام کے منافی ہے۔ اسلام ایسی تقسیم قبول نہیں کرتا۔“
امام الہند کی عالمانہ اور خطیبانہ تحریروں اور شاہکار کتابوں میں ترجمان القرآن، تذکرہ، غبارِ خاطر، سیرتِ نبویہ ماخوذ من القرآن، تحصیل السعادتین، سیرت امام احمد بن حنبل،مقدمہئ تفسیر، سیرتِ حضرت شاہ ولی اللہ، سیرتِ حضرت مجدد اور شرح حدیث ضربت وغیرہم ایسے لازوال کارنامے ہیں جن میں مذہب، معاشرہ، حکمت و فلسفہ، نفسیاتِ انسانی اور رموزِ حیات و کائنات کی ایک ایسی دنیا آباد ہے جو انھیں اس صدی کا عظیم ترین مفکرو دانشور ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں۔ لیکن ان کی آخری کتاب جس کے کچھ صفحات کے بارے میں ان کی وصیت تھی کہ ان کے انتقال کے بعد شائع کیے جائیں وہ ہندوستانی سیاسیات کی نہایت اہم دستاویز ’انڈیا وِنس فریڈم‘ ہے۔ مولانا نے اس میں تقسیم کی مکروہ سچائیاں دنیا کے سامنے کھول کر رکھ دی ہیں۔
”میں نے جواہر لعل کو متنبہ کیا کہ اگر اس نے تقسیم کو قبول کرلیا تو تاریخ ہم کو بھی معاف نہیں کرے گی، اور اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کانگریس بھی تقسیم کی اسی قدر ذمہ دار ہوگی جتنی مسلم لیگ تھی۔ 31مارچ 1947ء کو گاندھی سے ملا تو انھوں نے کہا: ’پاکستان نے تو اب دھمکی کی صورت اختیار کرلی ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ جواہر لعل اور ولبھ بھائی دونوں نے ہتھیار ڈال دیئے ہیں۔ اب کیا کریں گے؟ آپ میرا ساتھ دیں گے یا آپ بھی بدل گئے؟“
مہاتما کے اس سوال کے جواب میں مولانا آزادؒ عرض کرتے ہیں: ”میں تو پہلے بھی تقسیم کا مخالف تھا آج بھی اس کے خلاف ہوں۔ آج میں تقسیم کا جس قدر مخالف ہوں اس سے پہلے نہیں تھا۔ مجھے اس کا دُکھ ہے کہ جواہر لعل اور سردار پٹیل نے ہار مان لی۔ آپ کے الفاظ میں، ہتھیار ڈال دیئے۔ اگر آپ تقسیم کے خلاف کمربستہ ہوجائیں تو آج بھی ہم صورتِ حال کو سنبھال سکتے ہیں، لیکن اگر آپ نے بھی ہمت ہاردی تو مجھے خطرہ ہے کہ ہندوستان کا خاتمہ ہوجائے گا۔“
گاندھی جی نے فرمایا: ”کانگریس اگر تقسیم کو قبول کرنا چاہتی ہے تو یہ تقسیم میری لاش پر ہوگی۔ جب تک میری جان میں جان ہے ہندوستان بنٹ نہیں سکتا۔ اگر میرا بس چلا تو کانگریس کو تقسیم قبول نہ کرنے دوں گا۔“
گاندھی جی اسی دن لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے ملے۔ پھر 2اپریل کو ان دونوں نے دوبار ملاقات کی۔ اس واپسی کے بعد ہی سردار پٹیل گاندھی جی کے پاس آئے، اور ان دونوں نے تقریباً دو گھنٹے تک علیحدہ باتیں کیں۔ ان لوگوں میں جو باتیں ہوئیں ان کا مجھے علم نہیں، لیکن جب میں دوبارہ گاندھی جی سے ملا تو مجھے شدید ترین دھکا لگا کیونکہ گاندھی جی اب بدل چکے تھے۔ وہ اب بھی علانیہ تقسیم کے حق میں نہ تھے لیکن ان کا لہجہ اب دھیما ہوچکا تھا۔ مجھے سب سے زیادہ تکلیف اس بات سے ہوئی کہ تقسیم کی حمایت میں مہاتما گاندھی جی بھی وہی دلیلیں پیش کررہے تھے جو سردار پٹیل نے پیش کی تھیں (کہ دو بھائی اگر ایک جگہ نہیں رہ سکتے ہیں تو وہ الگ ہوجاتے ہیں۔ جب دونوں کو اپنے اپنے حصے مل جاتے ہیں تو پھر ایک دوسرے کے دوست بن جاتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر ان کو زبردستی ایک ساتھ رکھا جاتا ہے تو آئے دن جھگڑے ہوتے ہیں، روز روز کی تو تو میں میں سے یہ اچھا ہے کہ ایک بار کھل کر لڑلیں اور الگ ہوجائیں) میں گاندھی جی کو دو گھنٹے تک سمجھانے کی کوشش کرتا رہا لیکن میری دلیلیں ان کو متاثر نہ کرسکیں۔“
تقسیم کا درد سہنے کے بعد مولانا کانگریس کے سب سے اہم رہنما ہونے کے باعث مرکزی کابینہ میں شامل کیے گئے۔ ہندوستان کے اوّلین وزیر تعلیم کی حیثیت سے ان کی تعمیری خدمات جگ ظاہر ہیں۔ انھوں نے آزاد ہندوستان کے شاندار مستقبل کے لیے سائنس، ٹیکنالوجی اور میڈیکل سائنس کی تعلیم کے لیے بہترین ادارے قائم کرنے میں اپنی بے پناہ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔تعلیم کے میدان میں آج جتنی بھی ترقیات ہم دیکھ رہے ہیں ان کی بنیادیں امام الہند مولانا ابوالکلام آزادؒ نے ہی رکھی تھیں۔ یہ وقت کی کتنی بڑی ستم ظریفی تھی کہ آزاد ہندوستان میں اُردو زبان کے سب سے بڑے دانشور اور مرکزی وزیر تعلیم کے دور میں ہی اُردو عوام کو اُردو تعلیم سے محروم کیا گیا۔ شاید جمہوری دور کی اکثریتی سیاست کی طرف سے مولانا علیہ الرحمہ اور کروڑوں اور عوام کی وطن پروری اور آزادی کے لیے دی گئی ان کی عظیم قربانیوں کا انعام تھا۔
23فروری 1958ء کو علم و حکمت کا یہ آفتاب ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا۔ تاریخی جامع مسجد شاہجہانی کے سائے اور فنا فی اللہ حضرت صوفی سرمد شہیدؒ و سیّد ہرے بھرے شاہؒ کے جوار میں ان کی آخری آرام گاہ مرجع خلائق ہے۔ رحمۃ اللہ علیہ۔