تحریر: ترآب
نجم الدین نامی ایک شخص سے جب کوئی رشتے کی بات کیا کرتا تھا تو نجم الدین اس رشتے کو محض اس غرض سے ٹال دیتے تھے کہ مجھے کسی ایسی عورت کے ساتھ نکاح کرنا ہے جو مجھے ایسی اولاد دے گی جو بیت المقدس کو فتح کر سکے اور ایسے ہی رشتے ٹھکراتے ایک عرصہ گزر گیا اور نجم الدین حسب معمول اپنے سفر پر تھا کے ایک بستی سے گزر ہوا ایک گھر کے نزدیک پہنچے تو ایک عورت کی آواز آئی جو دوسری عورت سے کہہ رہی تھی کہ مجھے ایک ایسے آدمی سے شادی کرنی ہے جو مجھے ایسی اولاد دے جو مسلمانوں کے قبلہ اول بیت المقدس کو فتح کر سکے یہ اس بستی کا سب سے غریب گہرا نہ تھا اور کچھ روز کے بعد نجم الدین نے اپنا رشتہ بھیجا اور بالآخر ان دونوں کی شادی ہوگی
نجم دین بذات خود ایک قلے کا پہرے دار ہوا کرتا تھا جو اپنے فرائض سرانجام دیتا تھا اور بادشاہ کا کافی زیادہ وفادار رہا تھا
ایک دن ایسا ہوا کہ سلطان نور الدین زنگی رحمتہ اللہ علیہ اپنے کچھ حواریوں کے ساتھ پناہ لینے کے لیے جگہ ڈھونڈ رہے تھے کہ اچانک ان کی ملاقات نجم الدین سے ہوئی اور نجم الدین نے انہیں قلے میں پناہ دی اور کئی روز تک وہ اپنے حواریوں کے ساتھ وہی رہے اور نکلتے وقت سلطان نور الدین زنگی رحمۃ اللہ علیہ نے نجم الدین سے کہا کہ اس احسان کا بدلہ میں کسی دن احسان سے ہی چکاوں گا
دن گزرتے گئے اور گزرتے دنوں کے ساتھ ساتھ نجم دین کی خواہش حقیقت میں تبدیل ہونے لگی کہ جب اس کو پتہ چلا کہ وہ باپ بننے والا ہے اور اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا
کچھ عرصہ بعد وقت نے نجم الدین کو ایسے دوراہے پر لا کر کھڑا کر دیا کہ اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا کہ وہ کیا کرے تو کیا کرے کیونکہ اس کو قلہ بردار کے عہدے سے سبکدوش کیا گیا تھا اور اسے نقل مکانی کے لیے تین دن کا وقت دیا گیا تھا اس پریشان کن حالت میں نجم دین اپنے کمرے کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک جا کر گہری سوچ میں کھویا ہوا تھا کہ دروازے پر کنیزہ نے دستک دی جو اپنی گود میں ایک خوبصورت حسین و جمیل بچے کو دیے ہوئے تھی اور جس نے نجم الدین سے کہا کہ آپ کو مبارک ہو آپ کے ہاں بیٹا ہوا ہے نجم دین نے غصے میں آکر کہا کس منہوس کو میری نظروں کے سامنے سے لے جاؤ میں اس کا چہرہ بھی نہیں دیکھنا چاہتا کنیز ڈر کے مارے دبے پاؤں پیچھے ہٹ گئیں اور نجم دین کی بیوی کو جاکر یہ سارا ماجرہ بیان کیا اس پر نظم دین کی بیوی زبردست غصے کی حالت میں آ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اتنے میں نجم دین کا چھوٹا بھائی شہاب الدین اس کے کمرے میں داخل ہوا اور اس کو روتا دیکھ کہ سارا معاملہ دریافت کیا اس کے بعد شہاب الدین نے بچے کو ہاتھ میں اٹھا یا جو بڑا ہی خوبصورت اور نہایت تندرست تھا چودھویں کا چاند جیسا چہرہ دیکھ کر شہاب الدین کی منہ سے بے ساختہ نکلا میرا یوسف اور اس کے بعد اس کے کان میں اذان دی اور اس کے بعد کمرے سے نکل کر نجم الدین کی طرف چلے اور بڑے ادب کے ساتھ اپنے بھائی سے پیش آئے اور ان سے دریافت فرمایا کہ آپ نے کس وجہ سے اپنے بیوی اور بچے کے ساتھ ایسا کیا
نجم دین نے اپنے چھوٹے بھائی کو ساری بات سے آگاہ کیا اس کے بعد شہاب الدین نے کہا تو پھر اس میں اس چھوٹے سے بچے کا کیا قصور ہے اس پر نجمدین نے کہا کہ جس دن یہ منہوس اس دنیا میں آیا اسی دن میری نوکری چلی گئی اور پتہ نہیں اب اس کے بعد کن مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑے گا ہم جائیں گے کہاں اور رہیں گے کہاں اور ہمارے مستقبل کا تو کوئی اتا پتا بھی نہیں ہے
اس پریشانی کی حالت میں کچھ سوچتے ہوئے اچانک نجم دین بول پڑا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کاش اس کو یاد آجائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کاش اس کو یاد آجائے
شہاب الدین نے کہا کس بارے میں کہہ رہے ہیں آپ
نجم الدین نے کہا فوراً اپنا سامان باندھو ہم یہاں سے نکل رہے ہیں
اور صبح کے وقت یہ سارے لوگ وہاں سے نکلے اور بڑی مشکل دشوار گزار راستوں سے ہو کر سلطان نور الدین زنگی علیہ الرحمہ کے علاقے میں پہنچے اور مہر خانے کے دروازے کے باہر کھڑے ہو کر دربان سے کہا کہ میں فلاں آدمی ہوں آپ میرا یہ پیغام سلطان تک پہنچا دے
جب سلطان نور الدین زنگی کے پاس یہ دربان پہنچا تو سلطان نور الدین زنگی خود انہیں لینے کے لیے دروازے تک آ پہنچے اور انہیں پناہ دی اور یہ کہا کہ آپ جب تک چاہے ہمارے ساتھ رکھ سکتے ہیں اس طرح نجم الدین اور اس کے گھرانے کو رہنے کے لیے ایک بڑھیا جگہ ملی
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نجم الدین اور شہاب الدین کی بہادری کو دیکھ کر نجم الدین کو سلطان نے اپنا سپہ سالار مقرر کیا اور کہیں جنگیی سلطان کے ساتھ لڑی اور فتوحات حاصل کیں
یوسف سات سال کی عمر میں پہنچ چکا تھا اور اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکا تھا ایک دن ایسا گزرا کہ سلطان کے یہاں ایک تلاوت کے مقابلے کا انعقاد کیا گیا جس میں یوسف نے بھی حصہ لیا یہ پہلی بار تھا کہ کسی سپہ سالار کے بیٹے کو وزراء اور بادشاہوں کے بیٹوں کے ساتھ مقابلے میں حصہ لینے کا موقع ملا اور یوں مقابلے کا آغاز ہوا جس میں سبھی بچوں نے ایک سے بڑھ کر ایک کارکردگی دکھائ جب یوسف کی باری آئی اور یوسف نے اپنے منفرد انداز میں جب تلاوت کلام پاک کو شروع کیا تو ہر خاص و عام جو اس وقت اس مجلس میں موجود تھا ان کی آنکھیں نم ہو گئیں اور کچھ زارو قطار رونے لگے کہ ایسی دلکش آواز سن کر سلطان نور الدین زنگی بھی رونے لگے اور تلاوت ختم ہونے کے بعد انہوں نے یوسف کو اپنے مسند پر بٹھایا اور ان کے ماتھے پر بوسہ دیا اور کہا کہ بیٹا میں تمہارے دل میں اسلام کے لیے درد دیکھ سکتا ہوں اور تمہاری آواز اس قدر پر اثر ہے کہ ہر دل کو ایمان کے نور سے منور کردے اور سلطان نور الدین زنگی نے اپنے دربان سے کہا جاؤ جاکر میری شاہی تلوار لے آؤ اور سلطان نور الدین زنگی نے اپنی شاہی تلوار اس بچے کو تحفے میں عطا کی ۔
کچھ دنوں بعد سلطان مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے امراء کو بلوایا اور ان کے ساتھ مشاورت کرنے بیٹھ گئے اور یہ مجلس ایسی تھی کہ اس میں خوف ہر خاص وعام موجود تھا اور اس میں یوسف اپنے والد نجم الدین کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا جوں ہی مجلس اقدام پذیر ہوئی تو لوگ نکلنے لگے ان لوگوں میں ایک بڑا عیسائیوں کا پادری بھی موجود تھا نکلتے وقت جب اس کی نظر یوسف کے چہرے پر پڑی تو اس نور بھرے چہرے کی طرف ایک طرف دیکھتا ہی رہا اور ایک عجیب کیفیت اس کے چہرے پر تھی جس کو نجم الدین نے محسوس کرلیا اور دوسرے دن صبح نجم الدین نے اپنے بیٹے یوسف کو لیا اور اس پادری کی طرف چل دیے جب وہاں پہنچے تو اس کے بعد ری نے یوسف کو اپنے سامنے بٹھایا اور اپنے داہنے ہاتھ کو اس کے ماتھے پر رکھا اور کچھ پڑھنے لگا اور بڑی حیرت سے یوسف کے چہرے کو تکتا رہا
پھر نجم دین کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ ہاں یہ وہی لڑکا ہے جس کی قسمت میں عیسائیوں اور یہودیوں کی ناکامی اور اسلام کا غلبہ ہے یہ ایک دن ایسا کام کرے گا کہ دنیا یاد رکھے گی
(جاری)