شری اوم برلا
اسپیکر، لوک سبھا
آزادی کے بعد، بھارت نے 26 نومبر 1949 کو اپنا آئین اپنایا، جو ایک تاریخی دن ہے۔ آج اس اہم تاریخی واقعہ کی 71 ویں برسی ہے، جس نے آزاد بھارت کی بنیاد رکھی ہے۔ ڈاکٹر راجندر پرساد، پنڈت جواہر لال نہرو، ڈاکٹر بھیم راؤ امبیدکر، سردار ولبھ بھائی پٹیل، شریمتی سوچیتا کرپلانی، شرمتی سروجنی نائیڈو، مسٹر بی۔ این۔ راؤ، پنڈت گووند ولبھ پنت، شری شریت چندر بوس، شری راج گوپالچاری، شری این گوپالاسوامی آیانگر، ڈاکٹر شیام پرساد مکھرجی، شری گوپی ناتھ برڈولوئی، شری جے بی کرپلانی جیسے اسکالروں نے آئین کی تشکیل میں اپنا کلیدی کردار نبھایا۔ بھارتی آئین کو
تشکیل دینے کے لئے دنیا بھر کے تمام آئینوں کا مطالعہ اور وسیع تبادلہ خیال کیا گیا۔ آئین بنانے والوں نے اس کا مسودہ تیار کرنے کے دوران اس پر بڑے پیمانے پر غور وخوض کیا۔ اس حقیقت کو آئین کی مسودہ کمیٹی سے سمجھا جاسکتا ہے، جس نے کم وبیش 141 میٹینگیں کیں اور اس طرح 2 سال، 11 ماہ اور 17 دن کے بعد آزاد ہندوستان کے آئین کی ایک تجویز، 395 مضامین اور 8 شیڈول کے ساتھ سامنے آئیں اور اس طرح بھارت کے آئین کے بنیادی مسودہ کے کام کو پائے تکمیل تک پہنچایا۔
ملک کے اصل آئین نے ایک طویل سفر طے کیا ہے اور اس عرصے کے دوران، آئین میں وقت کے مطابق متعدد ترامیم بھی کی گئیں۔ اس وقت ہمارے آئین میں چار سو سے زیادہ شک اور بارہ شیڈول موجود ہیں، جو اس بات کی عکاسی کرتے ہیں کہ ملک کے شہریوں کی بڑھتی ہوئی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے وقت کی ضروریات کے مطابق حکمرانی کا دائرہ وسیع کیا گیا ہے۔ آج، ہندوستانی جمہوریت نہ صرف وقت گزرنے کے ساتھ اس کی راہ میں حائل بہت سارے چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کے ساتھ مضبوطی سے کھڑی ہے بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنے لئے ایک الگ شناخت بنا چکا ہے اور اس کا سہرا ہمارے آئین کے ذریعہ فراہم کردہ مضبوط ڈھانچے اور ادارہ جاتی نظام کو جاتا ہے۔ ہندوستان کا آئین سماجی و معاشی اور سیاسی جمہوریت فراہم کرتا ہے۔ یہ بھارتی عوام کے پرامن اور جمہوری نقطہ نظر سے مختلف قومی اہداف کے حصول کے عزم کی نشاندہی کرتاہے۔
حقیقت یہ ہے کہ، ہمارا آئین صرف ایک قانونی دستاویز نہیں ہے بلکہ یہ ایک اہم آلہ ہے جو معاشرے کے تمام طبقات کی آزادی کی حفاظت کرتا ہے اور ہر شہری کو ذات پات، نسل، جنس، علاقہ، فرقہ یا زبان کی بنیاد پر بلا امتیاز مساوی کا حق فراہم کرتا ہے اور یہ یقینی بناتا ہے کہ قوم ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے آئین کے معماروں کو بھارت کی قوم پرستی پر مکمل اعتماد تھا۔ اس آئین کے آخری سات دہائیوں کے نفاذ کے دوران، ہم نے بہت سارے سنگ میل حاصل کئے ہیں۔ ہمیں دنیا کی سب سے بڑی اور کامیاب جمہوریت ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ یہاں تک کہ رائے دہندگان کی ایک بڑی تعداد، جاری مسلسل انتخابی عمل کے باوجود ہماری جمہوریت کبھی بھی عدم استحکام کا شکار نہیں ہوئی، اس کے بجائے انتخابات کے کامیاب انعقاد سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہماری جمہوریت وقت کے امتحان کا مقابلہ کر چکی ہے۔ سات دہائیوں پر پھیلے اس جمہوری سفر کے دوران، ملک میں سترہ لوک سبھا اور تین سو سے زیادہ ریاستی اسمبلی انتخابات ہوچکے ہیں، جس میں رائے دہندگان کی بڑھتی ہوئی شرکت ہماری جمہوریت کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ ہندوستانی جمہوریت نے دنیا کے سامنے یہ مظاہرہ کیا ہے کہ کس طرح سے سیاسی اقتدار کو پرامن اور جمہوری انداز میں منتقل کیا جاسکتا ہے۔
ریاست کے اجزاء کے مابین اختیارات کی علیحدگی کی تعریف بھارتی آئین میں کی گئی ہے۔ ریاست کے تینوں ستونوں کے حلقہئ اثر (ڈومین) یعنی قانون ساز، ایگزیکٹو اور عدلیہ کی اپنی الگ الگ اور آزاد شناخت ہے اور وہ متعلقہ شعبوں میں خودمختار ہیں۔ اس طرح سے، وہ ایک دوسرے کے دائرہ اختیار پر حاوی نہیں ہو جاتے ہیں۔ ہندوستانی جمہوری نظام میں پارلیمنٹ بالاتر ہے، لیکن اس کی بھی اپنی حدود ہیں۔ پارلیمانی نظام آئین کی روح کے مطابق کام کرتا ہے۔ پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار حاصل ہے، لیکن وہ اپنے بنیادی ڈھانچے میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکتی ہے۔ جب سے یہ نافذ العمل ہے، آئین میں سو سے زیادہ ترامیم کی گئیں۔ بہت ساری ترامیم کے بعد بھی اس کی اصل روح برقرار ہے۔
آئین ہند شہریوں کے مفادات پر خصوصی زور دیتا ہے اور آئین کے حصہ سوم کے آرٹیکل 12 سے آرٹیکل 35 تک درج کردہ بنیادی حقوق کے دفعات اس کا ایک بہت بڑا ثبوت ہے۔ ان دفعات سے یہ یقینی بنتا ہے کہ ہندوستان کے تمام شہریوں کے ساتھ یکساں سلوک کیا جائے تاکہ ایک منظم اور مستحکم قوت کے طور پر کام کیا جاسکے۔ اصل آئین میں شہریوں کو سات بنیادی حقوق حاصل ہیں۔ تاہم، ملکیت کے حق کو 44 ویں آئین ترمیمی ایکٹ کے ذریعے الگ کردیا گیا تھا اور اس کے بعد، اس حق کو آئین میں شامل قانونی حقوق کے تحت رکھا گیا تھا۔ اس طرح، اس وقت، ہمارا آئین شہریوں کو چھ بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے۔ اُن کے بنیادی حقوق میں برابری کا حق، آزادی کا حق، استحصال کے خلاف حق، مذہبی آزادی کا حق، ثقافت اور تعلیمی حقوق اور آئینی علاج کا حق شامل ہیں۔ آئین نے ان حقوق کے ذریعے شہریوں کو ثقافتی تنوع کے باوجود ایک ہی پلیٹ فارم پر لانے کی کوشش کی ہے۔ در حقیقت، ہمارے شہریوں کو فراہم کردہ حقوق ہمارے آئین کی روح ہیں۔
بنیادی حقوق کے ساتھ ہمارا آئین اس کے شہریوں پر بھی متعدد بنیادی فرائض عائد کرتا ہے۔ اصل آئین میں ہی بنیادی حقوق کا اندراج کیا گیا تھا، تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ محسوس کیا گیا کہ ہندوستان کے شہریوں کو بھی بنیادی حقوق کے ساتھ کچھ بنیادی فرائض بھی تفویض کرنا چاہئے جو انہیں حاصل ہیں۔ اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے آئین میں 42 ویں آئینی ترمیمی ایکٹ کے ذریعے بنیادی فرائض شامل کیے گئے۔ آج کل، ہمارے آئین کے آرٹیکل 51 (اے) کے تحت کل 11 بنیادی فرائض کا تذکرہ کیا گیا ہے جن میں 10 فرائض کو 42 ویں ترمیم نے شامل کیا تھا اور 11 ویں بنیادی فرائض کو سال 2002 میں 86 ویں آئینی ترمیمی ایکٹ کے ذریعہ شامل کیا گیا تھا۔
جیسا کہ ہمارے آئین میں درج بنیادی فرائض اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ ملک کے شہریوں کو مطلق طاقت حاصل نہ ہو، اس آئین کے تحت دئے گئے بنیادی حقوق کے ساتھ ساتھ، انہیں جمہوری طرز عمل اور روئییکے کچھ بنیادی اصولوں پر بھی عمل پیرا ہونا چاہئے۔
اس تناظر میں، آج ہمارے ملک کو درپیش چیلنجز اور ہمارے ذریعہ طے کردہ اعلی اہداف اپنے شہریوں میں قوم کے لئے سرشار فرائض کے احساس کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اگر ہمیں اکیسویں صدی کو ہندوستان کی صدی کی حیثیت سے سرشار کرنا ہو تو، یہ بات بالکل غلط نہیں ہے کہ ہندوستان کیہر شہری کو ملک کو آگے لے جانے کے لئے اعلی ذمہ داری کے ساتھ اپنا حصہ ادا کرنا ہوگا۔ چاہے یہ نئے ہندوستان کی تعمیر کا تصور ہو یا آتمانیربھربھارت کا ہدف، یہ سارے اہداف اُسی وقت حاصل ہوسکتے ہیں جب ملک کے شہری اپنے آئینی فرائض کے بارے میں پوری طرح سرشار اور شعور رکھتے ہوں گے۔ میں امید کرتا ہوں کہ ملک کا ہر شہری خصوصاً ہمارے نوجوان آئین میں درج اپنے بنیادی فرائض کے بارے میں ہوشیار رہیں گے جو اور ان کے کاموں میں بھی اس کی عکاسی ہونی چاہئے۔
آج ہمارے آئین کو اپناتے ہوئے 71 سال گزر چکے ہیں۔ اس موقع پر ہمارے آئین کے بصیرت یافتہ بانیوں کو سلام پیش کرتے ہوئے، ہمیں لازمی طور پر یہ عہد کرنا ہوگا کہ ہم خود کو آئینی اصولوں پر عمل پیرا ہونے کے لئے پرعزم رہیں اور امن، ہم آہنگی اور برادری پر مبنی ’اِک بھارت شریستھا بھارت‘ کی تعمیر میں اس قوم کو آگے لے کر چلیں گے۔ حقیقت میں آج ہندوستان کے شہری کی حیثیت سے ہمیں اپنے آئین کے حقوق سے زیادہ فرائض کی طرف زیادہ دھیان دینا ہوگا۔ ہمارے اپنے حقوق ہیں اور وہ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گے لیکن ہمیں بحیثیت شہری بھی اپنے فرائض کی پاسداری کرنی ہے اور اسی کے مطابق کام کرنا ہے، تب یہ صدی یقینی طور پر ہندوستان کی صدی ہوگی۔