تحریر: الطاف جمیل ندوی
ننگے پاؤں جھلستے صحراء میں چلنا جہاں کی گرمی کی شدت سے پاؤں جلے جارے تھے وہ قلیل لباس بھوک پیاس کی شدت سے تڑپ رہے وہ مستانہ وار جھلسا دینے والی گرمی میں اسی امید پر چلے جارہے تھے کہ پیارے نبی صل اللہ علیہ وسلم بھی ہماری طرح بھوکے پیاسے ہی ہیں گرمی اس قدر کہ پتھر پر قدم رکھتے ہی چیخیں نکل جاتیں پر اک جذبہ سے سرشار ہوکر یہ رب الکریم کے بندے چلے جارہے تھے بنا کوئی تحقیق کئے بغیر کچھ سوچے کیونکہ یہ حکم نبوی علیہ السلام تھا یہ منشاء ربی تھا انہیں اس بارے میں ذرا بھی غلط فہمی نہ تھی کہ کامیابی ہمارے قدم چومے گئی کیوں کہ ان کے قائد ان کے پیارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو تھے انہوں نے ہماری طرح کی کوئی تاویل نہ کی ہماری طرح کوئی بہانہ نہ بنایا ہماری طرح کوئی دانشوری کا مظاہرہ نہ کیا بس حکم کی تعمیل ان کا شیوہ تھا سو چل پڑے .
اور کائنات ورطہ حیرت میں تھی کہ یہ کیسے رب الکریم کے پیارے بندے ہیں جنہیں اپنا کوئی خیال نہیں بس رب کے حضور اپنا تعلق بنائے رکھنے کے لئے اپنی زندگیوں سے اپنی خوشیوں سے بے پرواہ ہوکر رب کے بھروسے چل پڑے کیونکہ انہیں یقین تھا کہ ان کا مالک و مولا اللہ تعالی ان کی مدد و نصرت ضرور کرے گا .
۳۱۳ کی رٹ لگانا کوئی آسان بات نہیں کہ ہم سوچیں اب بھی ایسا ہوسکتا ہے ایسا ہونا ممکن ہی نہیں کیونکہ وہاں جو قائد و سالار تھے اب نہیں ہوسکتے وہاں جو ایمان غیرت و حمیت تھی اب ممکن ہی نہیں وہاں جو عزم مصمم تھا اب ناپید ہے وہاں جو قوت ایمانی تھی اب کہیں ہوہی نہیں سکتی وہاں جس عشق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حالت تھی اب ہوہی نہیں سکتی وہاں جو ابوبکر و عمر تھے اب نہیں ہوسکتے وہاں جو بلال و ابوہریرہ تھے اب ہوہی نہیں سکتے وہاں جو ندائے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بلند ہوئی تھی اب ہوہی نہیں سکتی وہاں جو آنسو بہے تھے وہ ممکن ہی نہیں کہ کوئی آنکھ اتنی مقدس ہو اور کوئی زبان اتنی عظیم ہو کہ الفاظ نکلیں دعا ادا کریں اور رب کی مدد و نصرت اتر آئے وہ آنسو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تھے وہ زبان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی۔