از قلم منتظر مومن وانی
بہرام پورہ کنزر
رابط 6006952656
وادی کشمیر جہاں خوبصورتی میں امامت کا درجہ رکھتی ہے وہی پر یہاں کی علمی تاریخ بھی عظیم اور مقام کی حامل ہے. اس علمی وراثت کی تحفظ اور اپنے مزاج کواس کا مقلد بنانا ایسا جنون موجودہ دور میں بھی یہاں کے نوجوان رکھتے ہیں. جن کو پڑھ کر یا جن کی صلاحیت دیکھ کر ہر باشعور یہ کہنے پر مجبور ہوتا ہے کہ”ذرا نم ہو تو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی”.
ان ہی شاہینوں میں ڈورو سوپور کا مصیب الطاف ایک نام ہے. مصیب اگرچہ عمر کے اس شاہراہ پر ہے جہاں پر طفلگی کا ہی سایہ رہتا ہےلیکن اللہ تعالی نے اقبال کے اس شاہین کو ایسی سنجیدگی عطا کی ہے کہ یہ قوم کے درد کا نبض دیکھنے کا فن رکھتا ہے.مصیب ایک تعلیمی گھرانے کا چراغ ہے اور بی ٹیک کے سالِ اول میں زیر تعلیم ہے.مصیب کی سنجیدگی نے اسے سماجی دنیا کے مسائل اور پریشانیاں سمجھنے پر زور دیا.جہاں وادی کشمیر کے حالات عرصہ دراز سے دگر گوں اور تمام انسان اس درد کو محسوس کرتے ہیں اور ذہنی تناو کے شکار ہے وہی پر یہاں کے کم عمر طالب علم بھی اس مسلے کا شدت سے احساس رکھتے ہیں. ان ہی فہیم جوانوں میں مصیب الطاف ایک ایسا نام ہے جو ہماری اس نفسیاتی درد کو سمجھ کر اس کی ترجمانی کا ہنر رکھتا ہے.
مصیب الطاف نے”اے واک آوٹ آف انزائٹی "قلمبند کرکے اس بات کا واضح اظہار کیا کہ ہم وادی کے مظلوم لوگ ہزاروں مسائلوں کے گرفت میں ہیں جس کے سبب ہمارا ذہنی توازن بہت متاثر ہوا ہے. اس پورے منظر سے نکلنے کے لیے مصیب الطاف کی تصنیف ایک قیمتی مشورہ ہے. کتاب اکاسی صفحوں پر مشتمل ہے جس کے ہر صفحے پر ذہنی تناو کے بارے میں بہترین مشورے درج ہیں.
یہ کتاب دراصل ہے ایک کہانی ہے جس میں اس بات پر مدلل بحث ہوئی ہے کہ تناو کوئی بیماری نہیں ہے باقی احساسوں کی طرح ایک احساس ہے.کتاب کے آغاز میں ہی محترم ظہور صاحب نے قلمکار کے بارے میں اپنی رائے کو بہترین انداز میں پیش کیا ہے. کتاب میں ڈپریشن کاتعرف اور اس احساس پر وضاحت سے بات ہوئی ہے کہ یہ کسی بھی اعتبار سے بیماری نہیں ہے بلکہ انسان کے سوچ میں جیسے دیگر احساس تولد ہوتے ہیں ایسے ہی ڈپریشن بھی ایک ہے. قلمکار نے انتہائی عرق ریزی سے واضح کیاہےکہ کیسے سوشل میڈیا یا دیگر مسلوں کے ذریعے نوجوان طبقہ متاثر ہوا ہے. قلمکار نے قرآن سے بھی اپنے دعوا کو ثابت کیا ہے.
Don’t Kill or destroy yourselves, for surely God has been most merciful to you(Quran4:29)
قلمکار نے پڑھنے والوں کے دل میں امید کو زندہ کیا ہے اور زندگی کے ہر مسلے کو آسانی سے حل کرنے کق مشورہ دیا ہے. قلمکار نے عام سماجی زندگی کی عکاسی کی ہے جس میں کسی دوست کی ذکر ہے یا ہم مسلوں یا پریشانیوں کو دل کے قبرستان میں خاموشی سے دفناتے ہیں جن چیزوں سے ذہن متاثر ہوکر خود کو پریشان مجسوس کرتا ہے. قلمکار نے ایک ایسے مسلے کو زبان دی ہے جو ہمارے سماج میں اب نوجوانوں میں عام ہورہا ہیں.
اس میں ایک محبت کہانی کا ذکر ہے جہاں بندہ پہلے شرمیلا نظر آتا ہے بعد میں اپنے اندر تولد ہونے والے احساسوں میں قلمکار نے ایسے کردار ترتیب دئے ہیں جو سماج کے کئی مسلوں کو اجاگر کرتے ہیں.کہانی میں سوشل میڈیا کے نوجوانوں پر پڑھ رہے غلط اثرات کو بھی زبان دی گئی جس میں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ ایک باصلاحیت نوجوان سوشل میڈیا کے ذریعے پریشانی اور بربادی کی گرفت میں آتا ہے. کتاب کا مکمل مطالعہ کرکے یہی حاصل ہوتا ہے کہ انسان میں کئی مسلوں سے جزبات تولد ہوتے ہیں ان جذبوں کو قابو میں رکھنا چاہیے. باقی انزائٹی یا ڈپریشن کوئی بیماری نہیں بلکہ دیگر احساسوں کی طرح ایک احساس ہے. ہمیں ڈپریشن یا انزائٹی کو بیماری نہ سمجھتے ہوئے اسے حقیقت میں پاکر سے ایک احساس کا ہی درجہ دینا چاہیے. ولر پبلشنک ہاوس نے کتاب کی سجاوٹ میں کمزوری پیش کیا ہے کیونکہ کتاب کی باہری سجاوٹ زیادہ متاثر کن نہیں ہے. اللہ اس اقبال کے شاہین کو زور قلم عطا کرے.آمین