از تحریر : وسیم احمد گنائی
ساکنہ: گنڈجہانگیر سوناواری
دنیا کے تمام پڑھے لکھے انسانوں سے بہت بڑی توقعات وابستہ ہوتی ہیں ۔وہ اپنی عمل سے بہت کچھ دے سکتے ہیں ۔قوم اور ملک کو ترقی کی طرف لے جا سکتے ہیں ۔اس کے ارادے بلند مضبوط اور مکمل ہونے چاہیے ۔تاکہ اس کا ملک اور اس کی قوم دنیا کے نظروں میں بلند مقام حاصل کرے۔اپنی عملی سائنسی اور تعلیمی سرگرمیوں سے اس کو مشاہدے ہوتے ہیں ۔اب ان کو اپنے فرائض سمجھنا چاہیے ۔تاکہ ان سے اس قوم کو فائدہ حاصل ہو ۔اس انسان کے لیے ملک یا قوم نے اس انسان کے لیے تعلیمی سہولتیں میسر رکھی ہوتی ہیں ۔اس کے دل میں خلوص اور پاکیزہ جذبات موجود ہونا بھی ضروری ہیں ۔
جن کے مدد سے قوم یا ملک ایسے ہی جذبات اور خیالات کے پروان چڑھنے پر کافی جتن کرتے ہیں تاکہ ہمارا ملک، قوم کسی عروج پر پہنچے ۔ماں کے آغوش سے نکل کر دائرہ شباب میں قدم رکھنے تک وہ اپنی علمی سرگرمیاں جاری رکھیں ۔اور مختلف نشیب و فراز جو کہ اس پڑھے لکھے انسان کے راستے میں حائل ہوتے ہیں ۔ان کو ہٹا کر وہ آگے بڑے ۔
دراصل یہ جدوجہد اس کے لیے اور اس کی قوم کے لیے سبق ہیں ۔وہ جب بھی دوسروں کو زندگی کے علمی میدان میں اترنے کو کہے ۔تو وہ لوگ اس کی باتوں پر پوری طرح سے عمل کر کے آگے جاہیں ۔اس کا فائدہ اس قوم یا ملک کو ملے گا ۔اس انسان کو مصائب و مشکلات کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ بڑھ جاتا ہے ۔تب جا کے یہ ایک زی شعور شہری کی حثیت سے کام شروع کرسکتا ہے ۔اس انسان کو اپنی زاتی مفاد کو قربان کر کے قومی مفادات کو ترجی دینا چاہیے ۔زندگی کے ہر منزل میں اس کا یہی مقصد ہونا چاہیے ۔اس کی ہمیشہ یہی کوشش ہو ۔کہ ہر ایک انسان علمی دنیا سیر کر کے آگے بڑے ۔تاکہ وہ ان چیزوں سے خبردار ہو جائے ۔کہ ہمارا قوم ہمارا ملک ترقی یافتہ ہو جائے ۔
ہمارے سماج میں بہت ساری خامیاں موجود ہیں ۔اور جو آہستہ آہستہ عادتوں کی صورت میں ہمارے سماج میں تبدیل ہو جاتی ہیں ۔مشلا صفائی کی طرف دھیان نہ دینا، وقت کی پابندی کا خیال نہ رکھنا، بزرگوں کے سامنے ادب کے ساتھ نہ رہنا، کسی بزرگ کا خیال نہ رکھنا ۔یہ باتیں بے قابو ہو کر انسان کی ہستی پر برا اثر ڈالتی ہیں ۔لہذا ایک پڑھے لکھے انسان پر یہ فرض عائد ہوتا ہے ۔کہ ان پڑھے لکھے لوگوں میں نیک عادتیں پیدا کرنے کی کوشش کرے ۔تاکہ ہمارا سماج ان بری عادتیں سے دور ہو جائے ۔
پڑھے لکھے انسان پر دنیا میں بے شمار فرائض عاید کئے گئے ہیں ۔اگر ان فرائض کی طرف پوری طرح سے غور کیا جائے ۔تو کتابوں کے اوراق پوری طرح لکھنے کے بعد ختم ہو جائیں گے ۔ایک پڑھا لکھا انسان ان برائیوں کو بھی روک سکتا ہے ۔جن کی طرف ایک عام انسان کی نظر نہیں پہنچ سکتی ہیں ۔خاص کر گھریلو معاملات سماجی نا برابری لوگوں میں معمولی باتوں پر جگڈا اور نشہ آور چیزوں کا استعمال ایک Qualified انسان آگر ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد گھر میں بیھٹا رہے ۔اور باہر سماج میں برائیاں کھلے عام ہوتی رہیں ۔تو پھر ان ڈگریوں کو حاصل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔علم ایک انسان کو عقل، شعور، لیاقت ، خودداری اور قوت برداشت عطا کرتا ہے ۔اور پڑھے لکھے انسان کو ان تمام خصلتوں کا استعمال کرنا چاہتے ۔اور لوگوں کو ان باتوں اور ان معاملوں کی طرف راغب کرنا ہے ۔جن کی بناء پر سماج میں نئی جیت اور ترقی وجود میں آجائیں ۔
ایک پڑھے لکھے Qualified انسان لوگوں کو لڑائی کرنے سے روکے اور ان میں اصل اور خراب میں فرق محسوس کرنے کی صلاحیت پیدا کرے ۔اس کے علاوہ لوگوں میں مذہبی ، سماجی، اقتصادی اور معاشی معاملوں میں خبردار کریں ۔ایک پڑھا لکھا انسان حق اور نا حق میں فرق کرنے کر ترغیب دے ۔ملک میں بہت سارے مشکلات اس وقت درپیش ہیں ۔ایک Qualified طالب علم ان مشکلاتوں کو اپنے علم کی وجہ سے بھی کر سکتا ہے ۔Geographical and Astronomical تحریری کتابوں کو پڑھنے کے بعد نئے record قائم کرسکتا ہے ۔زمینی اور سماجی سطح پر کے معاملوں کو اپنے زہن میں رکھکر اپنے ملک کو ترقی پزیر بنا سکتا ہے ۔