کالم ’فہم و ادراک‘
عمران بن رشید
سیر جاگیر سوپور،کشمیر
فون: 8825090545
انسان کی شخصیت اُس کی سوچ سے بنتی ہے،لہذا عقل کی تطہیر لازمی ہے۔ دراصل سر تا پا انسان کا پورا جسم ہی عقل کے ماتحت ہے،کیوں کہ یہ عقل ہی ہے جس کے اشارے سے ایک انسان کا جسم متحرک ہوتاہے۔ اور عقل کی بدولت ہی ایک انسان علم و انکشافات کے مختلف مرحلے طے کرتا ہے۔ لہذا انسان کے پاس عقل کا ہوناقدرے اہم ہے۔
عقل (intellect)اصل میں عرنی زبان کا لفظ ہے اور اردو میں 1503ء سے مستعل ملتا ہے۔کہتے ہے کہ اشرف بیابانیؔ کی مشہور و معروف اردو مثنوی ”نوسرہار“ میں یہ لفظ پہلی بار استعمال ہوا ہے۔عقل کے لغوی معنی شعور،فہم،دانشمندی،نفسِ ناطقہ اور ادراک کے ملتے ہیں۔جبکہ فارسی زبان میں اسے ’خرد‘بھی کہا گیا ہے۔ یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ عربی زبان میں ’لُبْ‘کا لفظ بھی عقل کے ہم معنی ملتاہے،البتہ دونوں میں ایک واضح فرق ہے جسے مولانا عبدالحفیظ بلیاویؔ نے یوں رقم کیا ہے:۔
”لُب یعنی خالص عقل،جووہم وغیرہ کی آزمائش سے پاک ہو یا تیز فہمی۔اس لئے لُب پر عقل کا اطلاق ہوگا مگر عقل
پر لُب کا اطلاق ضروری نہیں“
(مصباح اللغات)
عقل یا شعور قدیم زمانے سے علماء اور فلاسفہ کا موضوعِ بحث رہاہے۔چنانچہ اسلام سے قبل تاریخ میں جو قدآور فلسفی گزرے ہیں جیسے ارسطو، سقراط، افلاطون،ویمقراطیس اور جالینوس وغیرہ۔ان سب کے یہاں عقل اور شعور پر سیر حاصل بحثیں ملتی ہیں۔ اور وہ سب اسے ”Nous“ کا نام دیتے ہیں۔ارسطو کے نزدیک عقل اور شعور ایک ایسی صلاحیت کا نام ہے جو ایک انسان کو دانشمندانہ سوچ اور فکر عطا کرتی ہے۔یہاں تک کہ ارسطو کے بعد جو فلسفی آئے انہوں نے بھی قریب قریب اسی رائے پر عقل اور شعور کو لیاہے۔عقل سے متعلق ان کا یہ تصور اگر چہ کسی حد تک درست تھا تاہم ان میں سے ہر فلسفی کے اندر یہ عیب اور خامی تھی کہ وہ ہر چیزمیں عقل کوہی معیار بناتے،جبکہ اس وسیع وعریض کائنات میں بہت سی چیزیں عقل اور شعور کی سطح سے حددرجہ اوپر ہیں،اور انسانی عقل بہت کچھ ہونے کے باوجود محدود ہے کہ یہ ہر چیز کا احاطہ نہیں کرسکتی۔چنانچہ انیسویں صدی کے وسط میں جرمنی کے ایک فلسفی نٹشے (Friedrich Nietzsche)نے جب ہر حقیقت کو عقل کے معیار پر، پرکھنے کی کوشش کی تو وہ گمراہی کے ایک ایسے دلدل میں جا گراکہ کبھی ابھر ہی نہ پایا۔علامہ اقبال ؒ نے اُس کی سوچ اورشخصیت کا مکمل احاطہ کیا ہے۔ ؎
اگر ہوتا وہ مجذوب فرنگی اس زمانے میں
اقبال اس کو سمجھاتا مقامِ کبریا کیا ہے
حریفِ نکتہ توحید ہوسکا نہ حکیم
نگاہ چائیے اسرار لا الہٰ کے لئے
بہر حال فلسفہ اور فلسفی چاہے کچھ بھی کہے حقیقت یہی ہے کہ فلسفہ میں حیرت کے سوا کچھ بھی نہیں۔اس ضمن میں افلاطون ؔکا وہ قول اہمیت کا حامل ہے جس سے پروفیسر میور ہیڈ(Muirhead)نے اپنی کتاب ”علم الاخلاق“ کی ابتداء کی ہے،یعنی ”فلسفہ کی ابتداء بھی حیرت سے ہوتی ہے اور انتہا بھی حیرت پر ہی ہوتی ہے“۔ لہذا فلسہ ہمیشہ بحث و مباحثہ تک ہی محدودرہاہے زندگی کے نشیب و فراز اورلوگوں کی رشدوہدایت میں یہ کوئی مثبت رول ادا نہیں کرسکا، اس کام کے لئے ربِ کائنات نے ہمیشہ انبیاء ورسل کومبعوث کیا ہے۔جو اپنے رب کی طرف سے نازل شدہ تعلیمات کے ذریعے بنی نوح انسان کا تزکیہ کرتے رہے۔اِس سلسلے کی آخری کڑی پیغمبرِ اسلام حضرت محمدِ عربی ؐ ہیں، جنہیں اللہ تعلی نے قرآنِ حکیم دے کر بھیجا۔قرآن نے دنیا کے تمام فلسفوں اور تصورات کا رد کرتے ہوئے انسان کو اس کی حقیقت اور مقام سے آگاہ کیا۔بلکہ قرآن نے ہی انسان کو غوروفکر پر بھی ابھارا،یادوسرے الفاظ میں کہیں تو قرآن نے ہی انسان کی عقل،فہم اور شعور کو یہ وسعت عطا کی کہ وہ اپنے رَبْ کو پہچان کر اُس کی اطاعت کرسکے۔قرآن میں ارشاد ہوا ہے:۔
”بے شک آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے اور رات اور دن کے بدلنے میں اور ان کشتیوں میں جو سمندر
میں وہ چیزیں لے کر چلتی ہیں جو لوگوں کو نفع دیتی ہیں اور اس پانی میں جو اللہ نے آسمان سے اتارا،پھر اس
کے ساتھ زمین کو اس کی موت کے بعد زندہ کردیااور اس میں ہر قسم کے جانور پھیلادئے اور ہواؤں کے
بدلنے میں اور اس بادل میں جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر کیا ہوا ہے،اُن لوگوں کے لئے یقینابہت
سی نشانیاں ہیں جو عقل(یا شعور) رکھتے ہیں“
البقرہ۔164
قرآن نے ”شعور“ اور ”عقل“کے ذریعے کائنات پر ٖغور کرنے کی ترغیب دی ہے۔تاکہ انسان کو اپنے رب کی معرفت ہوسکے،سمجھنے کی بات یہ ہے کہ قرآن نے خالص اُن لوگوں کو باشعور کہا ہے جوغور وفکر اور تدبر سے کام لیتے ہوں۔لیکن اس کا قطعاََ یہ مطلب نہیں ہے کہ باقی لوگ عقل اور شعور سے محروم ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ اُن لوگوں کی عقل اور شعور پر کسی خارجی قوت(مادیت وغیرہ) کا غلبہ ہوتا ہے جو اُن کے شعور کو ابھر نے نہیں دیتی۔مشہور ماہرِ نفسیات فرائیڈ(Freud)نے انسانی شعور کی تین سطحیں بیان کی ہیں لاشعور(Libido) شعور (Ego)اور فوق الشعور(Super ego)۔تیسری سطح یعنی فوق الشعور ہی شعور کی وہ سطح ہے جو انسان کو کائنات کے ساتھ ساتھ باقی موجودہ چیزوں پر غور وفکر کے لئے ابھارتی ہے۔جس کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے انسان پر اس کائنات کی حقیقت منکشف ہوجاتی ہے۔اور وہ اپنی ذات کو دریافت کرتا ہے۔ ؎
فطرت کو خرد کے روبرو کر
تسخیر مقام ِ رنگ و بو کر
۔۔