خواہشیں مردہ ہونے لگیں تو پہلے انسان چپ ہوتا ہے، اپنے اندر خوابوں کی قبریں بناتے بناتے انسانوں سے کٹ جاتا ہے، پہلی قبر دوسری قبر، اور پھر تیسری، دل دل نہیں رہتا قبرستان ہو جاتا ہے اور پھر کچہ بھی اچھا نہیں لگتا نہ رنگ نہ خوشبو نہ روشنی نہ آوازیں نہ رابطے نہ لوگ اور نہ ہی اپناآپ بس جی چاہتا ہے کہ اس دنیا سے تمام رابطے منقطع کرلئے جائیں۔ کہیں رات کی تاریکی کی گود میں چھپ کر خاموشی کی بکل میں خود کو لپیٹ کر بہت سا وقت خاموشی اور سناٹے کو سنتے ہوئے گزارا جائے کوئی کچہ سنے نہ بولے ہر حس بے حس ہو جائے، زندہ ہوتے ہوئے بھی کچہ عرصے کیلئے کیفیت مرگ سی ہوجائے نجانے کیوں کبھی کبھی بس یونہی جی چاہتاہے۔ میرا دل کرتا ہے ہر اس شخص کی کہانی سنو جس نے محبت میں سکون گوایا ہے اور اب درد کو الفاظوں کی چادر میں لپیٹتا ہے۔
کچھ غم، کچھ چوٹیں اس قدر گہری اور تکلیف دہ ہوتی ہیں، نہ تو وہ چوٹیں قابل رحم ہوتی ہیں اور نہ ہی انسان کسی کو دکھا پاتا ہے۔۔۔اور نہ ہی اپنا غم کسی کو بتا پاتا ہے۔ وہ غم جو اسے اندر ہی اندر ختم کر دیتا ہے،زندگی کی خواہشات کو، چھوٹی چھوٹی خوشیوں کو اور شاید کبھی کبھی حوصلے کو بھی۔۔۔
ہم جیسوں کے دکھ بہت گہرے ہوتے ہیں ہمارے کمروں کی دیواریں ساونڈ پروف نہیں ہوتیں ہمیں ایک ہی کمرے میں اپنے دکھ کسی کی خوشی کسی کے سکون کی خاطر سینے میں دفن کرنے پڑتے ہیں ہمارے گھروں میں نیند کی گولیاں نہیں ہوتی،ہم رات جاگ کر کاٹیں تو صبح تھکن زدہ آنکھوں کے ساتھ اگلی رات کا انتظار کرنا پڑتا ہے ہمارے پاس آنسووں کو بہانے کا رستہ یہی ہوتا ہے کہ پانیوں سے بھرے نین انگلیوں کی پوروں میں سمیٹو اور مسکرانے لگ پڑو محبت ہم جیسوں کیلئے رحم کبھی نہیں رکھتی ہمارا نروس بریک ڈاون نہیں ہوتا ہمیں موت آنے تک جینا پڑتا ہے۔۔۔!
صبر آخر اتنا مشکل کیوں ہوتا ہے؟اور مسلہ یہ ہے کہ اسکے بغیر چین بھی نہیں پڑتا۔۔۔یہ سوال میں اکثر خود سے پوچھا کرتا تھا۔۔لیکن پھر رفتہ رفتہ میں نے زندگی کو سمجھنا شروع کیا تو پتہ چلا کہ زندگی تو صبر کے سوا کچھ بھی نہیں۔۔کوئی بچھڑ گیا تو صبر!کوئی روٹھ گیا تو صبر! کسی نے کردار پہ انگلی اٹھائی تو صبر!جو مانگا وہ نہ ملا تو صبر! ماضی ستائے تو صبر اور کسی کا ذکر کرتے ہوئے آنکھ بھر آئے تو صبر! مگر صبر تب ہی آتا ہے جب انسان اللّہ کی رضا میں راضی ہونا سیکھ لیتا ہے۔” کہانی ختم ہو جائے تو یہ نہیں سوچتے کہ؛ کون سی چیز ادھوری رہ گئی، کاش ایسا کر لیتے، کاش ایسا ہو جاتا، کاش ویسا ہو جاتا، کہانی ختم ہو چُکی ہے، آخری صفحے پر وہ آخری الفاظ لِکھے جا چُکے ہیں، ادھوری چیز ادھوری ہی ختم ہو جائے تو سمجھو کہ کہانی بس یہیں ختم ہو چُکی ہے، اب وہ مُکمل نہیں ہو سکتی، کُچھ ایسی ہی کہانیاں ہماری زندگی میں بھی ہوتی ہیں جو ادھوری ہی ختم ہو جایا کرتی ہیں، اور پھر اُس کا ملال ساری زندگی ساتھ رہتا ہے۔ ”
مجھے ایسے لگتا شاید میں گزرتے دنوں کے ساتھ اپنا ذہنی توازن کھو رہا ہوں یونہی بیٹھے بیٹھے آنکھیں نم ہو جاتی ہیں کہنے کو میرے پاس ہر رشتہ ہے لیکن پھر بھی میں خود کو لاوارث محسوس کرتا ہوں۔ ہجوم میں ہوتے ہوئے ایک سناٹا محسوس ہوتا ہے
ایسے لگتا ہے جیسے میرا سب کچھ چھن گیا ہو مجھ سے۔کسی بھی چیز میں دل نہیں لگتا موبائل کو پکڑ کر گھنٹوں سوچتا ہوں کہ کیا کرنا ہے۔۔عجیب بے چینی ہے ایک جگہ رکا ہی نہیں جاتا بس دل کرتا۔۔کہیں دور چلا جاؤں ایسی جگہ جہاں میرے علاوہ کوئی نہ ہو۔
وہاں جا کر بہت زور سے چیخوں۔ میں زندہ ہوں یا مر چکا ہوں۔میں نہیں جانتا..میں نہیں جانتا
زندگی احساس کے بل پر انداز بدلتی ہے___!!
ہم لوگوں کو جینے کے لیئے بنیادی احساسات سانسوں کی طرح ضروری ہوتے ہیں، سب رشتے ناطے ہمارے ماضی کی تلخ و شیریں یادیں __ یہ زندگی کئی ایسی باتیں لاتی ہے جو ہم سے ہمارے احساسات چھین لیتی ہیں، ہمارے بھرم ٹوٹ جاتے ہیں.
دو طرح کے احساس قابلِ ذکر ہیں ایک وہ ہیں جو ہمیں لوگوں سے ملتے ہیں اور دوسرے وہ جو خود ہمیں اپنی ذات سے ملتے ہیں جو ڈھارس بندھاتے ہیں.
غضب یہ ہوتا ہے جب لوگوں سے ہمیں اداسی ملتی ہے لوگ ہمیں توڑتے ہیں تو ہم اپنی ذات کو بھی کہیں کھو دیتے ہیں ہمارے اندر ہمارے خیالات کے دھاگے الجھ کے رہ جاتے ہیں. ہم لوگوں میں الجھ کر اپنی ذات کو گنوا دیتے ہیں پھر ہم دوہری تنہائی کا شکار ہوجاتے ہیں.
اپنی ذات کو تلاش کرنا اس کے مثبت پہلوؤں کو تازہ رکھنا بھی ایک جنگ ہے. ہم اپنے آپ کو تھام کر چلیں تو بھی بڑی کمال کی بات ہے. ایسا بھی ہوتا ہے کبھی ہم ٹوٹ کر اندر ہی اندر ایک لمبی نیند میں کھو جایا کرتے ہیں، پھر کوئی بات کوئی چیز، جب ہمیں اپنے آپ کے قریب لے آتی ہے اس دن ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہماری تسلی کا سامان خود ہم میں بھی موجود تھا بس ہم سے اوجھل تھا. ہم سے لوگ کھو جائیں تو ہم انہیں دوبارہ پا سکتے ہیں یا شاید نہ بھی پاسکیں. لیکن اپنے آپ کو ہم ہمیشہ پا سکتے ہیں جب ہم خود سے کھو جائیں تو پہلے ہمیں اپنی تلاش کرنی چاہئے___!
کاش کبھی کسی پر ایسا وقت نہ آے جب کسی انسان کی کمی اندر ہی اندر ختم کرنے لگے۔ اذیت کہ انتہاء ہوتی خود کو گھنٹوں کمرے میں بند کر کے رونا اور پھر خود ہی اپنے آنسووں کو صاف کرنا،اپنے کرب کو کسی پر بھی ظاہر نہ ہونے دینا کہ آخر کیوں وہ ہم سے محبت نہیں کرتے،ہم انکے قابل کیوں نہیں ہے، اپنی ہی ذات میں خامیاں تلا ش کرتے رہنا اور کوشش میں خود سے اپنی ذات سے نفرت ہوجانا۔ یہ یکطرفہ محبت کے زخم بہت ہی گہرے ہوتے ہیں، ہم انکی آرزو کرتے ہیں جن کی نگاہ میں ہم کوئی وقعت ہی نہیں رکھتے۔
از تحریر: اعجاز بابا
نائدکھئے سوناواری
انڈرگریجوٹ طالب علم
ڈگری کالج سوپور
رابطہ: 7889988513