تحریر:حافظ میر ابراھیم سلفی
مدرس سلفیہ مسلم ہائر سکینڈری پرے پورہ
رابطہ نمبر:6005465614
گرچہ ہے گناہوں میں گرفتار چلاآ
آ پاس مرے میرے خطا کار چلا آ
بخشش مری ہر سمت تجھے ڈھونڈ رہی ہے
کیوں مجھ سے گریزاں ہے مرے یار چلا آ
ماہ رمضان المبارک اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے۔یہ عظیم اور بابرکت مہینہ ہم سے الوداع ہورہا ہے اور اس طرح عید الفطر کی چاند ہم پر طلوع ہونے والا ہے۔وقت تیزرفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہا ہے، جنہوں نے اس مقدس مہینے کی قدر و منزلت کی معرفت حاصل کی وہ کامیاب ہوگئے اور جو افراد حصول رمضان کے باوجود اپنی مغفرت نہ کرواسکے وہ خسارا اٹھا گئے۔ وبائی قہر کی وجہ سے اکثر لوگ مساجد بھی نہ آسکے، سابقہ سال کی طرح رواں سال میں بھی کثیرکثیرج تعداد میں مساجد مغلق رہیں۔جس کی وجہ سے مسلم دنیا کافی مایوس ہے۔ماہ رمضان المبارک کو الوداع کہنے سے قبل ہمیں بعض چیزوں کا خیال رکھنا ہے تاکہ یہ مہینہ ہماری مغفرت کا باعث بنے۔مختصراً دس نصیحتوں کا بیان آرہا ہے۔
(۱)اللہ کی ناراضگی سے پناہ———————-
جب اللہ عزوجل کسی قوم سے ناراض ہو جائیں، تو اس قوم کی عبادات انہیں کوئی فائدہ نہیں دیتی۔نماز، روزہ، قیام اللیل، صدقہ و خیرات و دیگر عبادات تب ہی نفع دے سکتی ہیں جب اللہ کی رضامندی اور خوشنودی حاصل ہو جائے، جس قوم پر اللہ کا غضب نازل ہوچکا ہے، اس قوم کو اللہ عزوجل مختلف طریقوں سے اپنی گرفت میں لیتا ہے۔ حالات دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ اللہ ہم سے سخت ناراض ہیں، تبھی تو اللہ عزوجل نے مساجد کے ابواب ہمارے لئے بند کردئیے۔ اللہ عزوجل نے ہمیں اپنے گھروں سے نکال دیا۔ اب ماہ رمضان گزرنے کے بعد ہمیں اپنے آپ کو تبدیل کرنا ہے، منکرات کو حسنات میں تبدیل کرنا ہے، اپنی خلوت و جلوت کو لغویات سے دور رکھنا ہے، اللہ سے معافی طلب کرنی ہے تاکہ یہ عذاب ہم سے ٹل جائے۔
(۲) دلوں کا علاج————————
جو بھی فساد قائم ہوچکا ہے اس کے پیچھے ابن آدم کے سیئات ہیں، اور بنی آدم تب تک محرمات سے اجتناب نہیں کرسکتا جب تک اس کا دل، قلب سلیم نہ ہو۔ ہمارے قلوب سخت اور زنگ آلود ہوچکے ہیں ہمارے اعمال کے باعث، ہمارے دلوں پر قرآنی آیات، فرامین نبوی ﷺ، اہل علم کی نصیحتیں اثر نہیں کرتی کیونکہ گناہوں کی وجہ سے ہمارے دل اب معروف اور منکر میں تمیز بھی نہیں کرپاتے۔وجوہات بہت ساری ہیں جیسے کثرت طعام، کثرت کلام، لا یعنی افعال، کثرت ضحک، گناہوں کی کثرت، حرام دولت، برے ساتھیوں کی ہم نشینی وغیرہ ان تمام راستوں سے پلٹ کر واپس آنا ہے اور اللہ کے در پر جھک کر اپنے دل کی تطہیر کرنی ہے اور ایمان و نفاق کا مرکز،اسلام و کفر کا مرکز، ھدایت و گمراہی کا مرکز یہی دل ہے، اگر یہ سالم ہو انسان کا پورا وجود ٹھیک ہوتا ہے، اگر اس کے اندر بگاڑ ہو انسانی وجود بکھر کے رہ جاتا ہے۔
(۳) تطہیر نفس—————————–
روزوں کا بنیادی مقصد حصول تقوی ہے۔ اور تقوی کی شرح میں بہترین کلام سلف سے یہ مروی ہے کہ خاروں بھری راہ میں جس طرح ہم اپنے دامن کو بچاکے رکھتے ہیں بالکل اسی طرح گناہوں سے اپنے جسم و روح کو بچانے کا نام تقوی ہے۔انسان کا باطن، ظاہری حالات پر اپنا اثر چھوڑ جاتا ہے۔نفس کے شر سے نبی کریم ﷺ ہر خطبہ کے اندر پناہ طلب کیا کرتے تھے، نفس امارہ سے کنارہ کشی اختیار کرکے نفس لوامہ سے گزرکر بالآخر نفس مطمئنہ تک پہنچ جائیں تاکہ جنت کی راہ، مغفرت کا حصول آسان ہو جائے۔
(۴) جسمانی اعضاء کی حفاظت—————
روزہ فقط طعام و شراب سے دور رہنے کا نام نہیں بلکہ اپنے جسم کے ہر عضو کو رب کے تابع رکھنے کا نام روزہ ہے۔زبان کی حفاظت ایمانی کمال حاصل کرنے کے لئے لازمی ہے۔ آنکھوں کی حفاظت جب تک نہیں ہوگی، تب تک ہماری تنہائی پاک نہیں ہوسکتی۔ حرام راہوں کی طرف بڑھتے ہوئے قدم آپ کو دوزخ کے قریب کررہے ہیں، روک لو اپنے قدموں کو۔ اپنے ہاتھوں کو ظلم کرنے اور کسی کو تکلیف پہنچانے سے روکے رکھو، عقائد و عبادات کے ساتھ ساتھ معاملات اور اخلاقیات پر بھی توجہ مرکوز کریں۔
(۵) راہ حق پر استقامت————————-
اسلام کے احکامات کسی خاص وقت یا خاص زمن کے لئے مقید نہیں بلکہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات کا نام ہے۔ یا یوں کہا جائے کہ اسلام "seasonal practice” کا نام نہیں بلکہ "A complete way of life” کا نام ہے۔ رمضانی چھوڑ کر ربانی بن جانا ہے، اپنے اعمال میں دوام اختیار کرنا ہے۔ اللہ عزوجل کے نزدیک وہ عمل زیادہ محبوب ہے جس پر استقامت دکھائی جاۓ اگرچہ عمل قلیل ہی کیوں نہ ہو۔نمازوں کی حفاظت، نفلی روزوں کی حفاظت، صدقہ و خیرات میں پہل، حرام سے اجتناب، کسی پر ظلم کرنے سے اجتناب، کسی کا حق کھانے سے تحذیر اختیار کرنا ماہ رمضان کے تقاضوں میں شامل ہے۔بے حیائی، عریانی، فحاشی کے مراکز پر تالا لگانا صائم کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔
ہماری زندگی بکِھری ہوئی ہے
مِرے مولا! اِسے منظوم کر دے
ہمیں دنیا نے مہمل کر دیا ہے
ہمیں اب صاحبِ مفہوم کر دے
(۶) مظلوم کی آہ سے بچ جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس lockdown کے وقفے کے دوران بھی بعض افراد ایسے ہیں جو موت کو بھلا کر دولت جمع کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور ہر ممکن راہ اپنا کر غریبوں، مظلوموں کا حق چھین رہے ہیں۔ اللہ کی دی ہوئی مہلت نے انہیں غفلت میں ڈال دیا ہے، انہیں اللہ سے ڈرنا چاہیے اور حق، اہل حق تک پہنچا دینا چاہیے اس کے قبل کہ لاشعوری میں اللہ کی پکڑ آجاۓ۔تاریخ کے اوراق رقم ہورہے ہیں، مؤرخین لکھ رہے ہیں کہ کس طرح روۓ ارض پر مظلوموں کا ناحق خون بہایا گیا۔ ارض فلسطین میں یہود نے اپنا ظلم و جبر کا بازار گرم کیا ہے، برما کے اندر اہل ایمان پر وحشیانہ ظلم کس طرح بھلایا جاسکتا ہے، برصغیر کے اندر بالخصوص وادی کشمیر میں کس طرح بے کس اور مظلوم نو نہالوں، گلابوں کو قبروں میں دفنایا گیا۔عرب و عجم اس بہتے ہوئے خون کا تماشا دیکھ رہے تھے لیکن بالاخر اللہ نے اس خون کا بدلہ لینے کی ابتداء کردی۔ مظلوم کی فریاد اور رب ذوالجلال کے درمیان کوئی حجاب و پردہ نہیں ہوتا۔ لوگ عید الفطر کے منتظر ہیں لیکن کیا کسی نے کوشش کی کہ ان افراد کے چہروں پر مسکراہٹ لائیں جو پچھلے تیس برس سے اپنے کھوۓ ہوۓ اولادوں کے منتظر ہیں۔ کیا ہم نے کبھی اس درد کو محسوس کرنے کی کوشش کی جس درد سے وہ والدین گزر رہے ہیں جن کے سامنے ان کے سہاروں کو لوٹا گیا۔ ہم اپنی ہی دنیا میں مشغول و مصروف ہیں لیکن اللہ کی پکڑ سے کب تک خود کو بچاکے رکھیں گے۔ یہاں خون کا سودا تب بھی ہورہا تھا، آج بھی ہورہا ہے۔
(۷) بے کسوں کے سر پر ہاتھ رکھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عید الفطر سے قبل ہی صدقہ فطر و نفلی صدقات غریبوں تک پہنچادیں۔ یہاں لوگ معاشی طور پر بھی استحصال کئے گئے ہیں، ذہنی طور پر بھی لوگ یہاں مریض بن چکے ہیں،ہر طرف سے پریشانیوں نے ہمیں اپنے گیرے میں لیا ہے۔ دل بے سکون ہے، دل بے چین ہے، نہ دنوں کا سکون نہ راتوں کا آرام۔فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "جس نے کسی مومن کی دنیا کی پریشانیوں میں سے کوئی پریشانی دور کردی، اللہ تعالیٰ بروز قیامت اس کی پریشانیوں میں سے ایک پریشانی دور کردے گا۔۔ جس نے کسی تنگ دست پر آسانی کی، اللہ اس پر دنیا وآخرت میں آسانی کرے گا۔ جس نے کسی مسلمان کی پردہ پوشی کی، اللہ تعالیٰ دنیا وآخرت میں اس کی پردہ پوشی فرمائے گا۔ اللہ تعالیٰ برابر بندے کی مدد میں ہوتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں ہوتا ہے”.(صحیح مسلم) صدقہ فطر رفاعی و فلاحی اداروں کو نہ دیں بلکہ خود اپنی بستی میں ایسے افراد کو تلاش کریں جو اس کے اولین مستحقین ہیں۔
(۸) عید الفطر کے حقیقی مقصد کو حاصل کرلیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عید کی اصل خوشی اسے نصیب ہوتی ہے جو اپنی مغفرت کروانے میں کامیاب ہوا۔عید کی حقیقی خوشی اسے حاصل ہوئی جو جہنم کی آگ سے بچایا گیا، جس نے تزکیہ نفس کیا، جس نے خود کو اخلاق رضیلہ سے تحذیر اختیار کرکے اخلاق ممدوحہ کا جام نوش کیا۔ کورونا وائرس (covid-19) کی دوسری قہر اپنے عروج پر ہے۔ جس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ عید کے دن احتیاطی تدابیر اپنا کر اپنی بھی حفاظت کی جاۓ اور دیگر لوگوں کو بھی اس تکلیف سے محفوظ رکھیں۔ اسی طرح اس سال خریداری میں کمی لاکر ضرورت مندوں تک ضروری اشیاء کی رسائی ممکن بنائیں۔ علماء دین اور طبیبوں کے پیش کردہ تجاویز پر عمل پیرا ہوں۔عید الفطر کا ہر عمل سنت کے مطابق انجام دیں۔بعض بدنصیب ایسے بھی ہوتے ہیں جو شوال کا چاند نکلتے ہی خود کو شریعت الہی سے آزاد سمجھتے ہیں جو کہ اسلام کے منافی کردار ہے۔ توبہ استغفار کو لازمی پکڑیں، اپنی آخرت کی فکر کریں کیونکہ موت کا فرشتہ جھال بچھاۓ ہوۓ نفوس کو اپنی پکڑ میں لے رہا ہے۔
(۹) شوال کے چھ روزوں کی تیاری——————-
ماہ رمضان المبارک کے اختتام کے بعد ہی ماہ شوال طلوع ہوتا ہے۔ عید کے دن روزہ رکھنا حرام ہے۔ البتہ عید کے بعد اہل اسلام کو چاہیے کہ وہ شوال کے چھ روزے رکھیں جن کی فضیلت صحیح صریح احادیث میں وارد ہوئی ہے۔ فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "جس نے رمضان کے روزے رکھے اس کے بعد شوال کے چھ (نفلی) روزے رکھے تو یہ پورے زمانے کے روزے رکھنے کی مانند ہے۔” (صحیح مسلم) کئی ائمہ نے اس حدیث کی رو سے شوال کے چھ دن کے روزوں کو مستحب کہا ہے، ابن مبارک کہتے ہیں: یہ اچھا ہے، یہ ہر ماہ تین دن کے روزوں کے مثل ہیں۔ اور عبد اللہ ابن مبارک کہتے ہیں: بعض احادیث میں مروی ہے کہ یہ روزے رمضان سے ملا دیئے جائیں، ۔۔ اور ابن مبارک نے پسند کیا ہے کہ یہ روزے مہینے کے ابتدائی چھ دنوں میں ہوں۔ اگر کوئی شوال کے چھ دن کے روزے الگ الگ دنوں میں رکھے تو یہ بھی جائز ہے۔(جامع ترمذی) شوال کے چھ روزے رکھنے کے اہم فوائدمیں یہ شامل ہے کہ یہ روزےرمضان المبارک میں رکھے گئے روزوں کی کمی وبیشی اورنقص کو پورا کرتے ہیں اوراس کے عوض میں ہیں ، کیونکہ روزہ دار سے کمی بیشی ہوجاتی ہے اورگناہ بھی سرزد ہوجاتا ہے جوکہ اس کے روزوں میں سلبی پہلو رکھتا ہے ۔روزقیامت فرائض میں پیدا شدہ نقص نوافل سے پورا کیا جائے گا۔
صحیح ابن خزیمہ کی ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ، "ما ہ رمضا ن کے روزے دس ما ہ کے برابر ہیں اور اس کے کے بعد شوال کے چھ روزے دو ما ہ کے مسا وی ثواب رکھتے ہیں اس طرح یہ سال بھر کے روزے ہوئے”.(سند پر تحقیق کی جاسکتی ہے، صحیح ہے یا ضعیف)
(۱۰) قبولیت کے لئے دعا ————————-
شیخ ربیع المدخلی حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ، "سلف صالحین اس ماہ مبارک میں خاص اہتمام وعنایت فرمایا کرتےتھے۔ باکثرت تلاوت قرآن کرتے، ذکر کرتےاورگناہوں سے پرہیزکرتے۔ کیونکہ روزہ اسی بات کا متقاضی ہے۔ روزہ محض کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں بلکہ یہ تو ہر اس چیز سے رکنے کا نام ہے جو غضب الہی کا موجب ہو جیسے گناہ وغیرہ۔ اور اللہ تعالی کی اطاعت کی جانب اور عمل میں اخلاص پیدا کرنے کی جانب پیش قدمی کرنے کا نام ہے۔”شیخ صالح الفوزان حفظہ اللہ رقمطراز ہیں کہ، "سلف کا حال جیسا کہ ثقات کی اسانید سے مروی شدہ کتب میں مدون ہے کہ وہ رمضان داخل ہونے سے پہلے اللہ تعالی سے دعاء فرمایا کرتے تھے کہ انہیں رمضان تک پہنچا دے اس خیر عظیم اور عام نفع کو جانتے ہوئے کہ جو اس میں پنہاں ہیں۔ پھر جب رمضان داخل ہوجاتا تو اللہ تعالی سے دعاء فرماتے ہیں کہ وہ انہیں اس میں عمل صالح کرنے میں مدد فرمائے۔ اور جب رمضان ختم ہوجاتا تو دعاء فرماتے کہ ان کے یہ اعمال بارگاہ الہی میں شرف قبولیت پاجائیں۔”فرمان باری تعالیٰ ہے کہ، "اور جو لوگ (اللہ کی راہ میں) دیتے ہیں جو کچھ دیتے ہیں مگر اس کے باوجود ان کے دل کپکپاتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں، یہی ہیں جو بھلائیوں میں جلدی کرتے ہیں اور یہی ہیں جو ان کی طرف سبقت کرنے والے ہیں”.(سورہ مومنون)
اب ہمیں بھی ندامت کے آنسو بہانے چاہیں۔ کب تک ہم خود کو دھوکہ میں رکھ کر آخرت کا سودا کرتے رہیں گے۔ بقول رومی
قطرئہ اشکِ ندامت در سجود
ہمسری خون شہادت می نمود
(ندامت کے آنسوؤں کے وہ قطرے جو سجدہ میں گنہگاروں کی آنکھوں سے گرتے ہیں، اتنے قیمتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ان کو شہیدوں کے خون کے برابر وزن کرتی ہے)
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمارے اعمال کو شرف قبولیت عطا کرے۔ ہماری عبادات میں اخلاص پیدا کرے اور ہمارے خطاؤں کو معاف فرمادے۔۔۔۔۔۔آمین یا رب العالمین۔