تحریر:حافظ میر ابراھیم سلفی
مدرس و خطیب
بارہمولہ، رابطہ نمبر:6005465614
یہ نغمہ فصلِ گُل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں، لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
اگرچہ بُت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حُکمِ اذاں، لَا اِلٰہَ اِلّاَ اللہ
اہل فکر اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ عصر حاضر میں تعلیم و تعلم کے نام پر ملت کو لوٹا جارہا ہے۔ راقم کی مراد خصوصاً ایسے تعلیمی ادارے ہیں جنہیں ہم "Coaching centres” یا "Tuition centres” کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ نقطہ اظہر من الشمس ہے کہ عصر کے اکثر تعلیمی ادارے الحاد( Atheism) و دیگر وبائی امراض پھیلانے میں قلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔پہلے اس بات کو ذہن نشین کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ مذکورہ دعویٰ کوئی بے بنیاد الزام نہیں بلکہ حقائق پر مبنی واضح حقیقت ہے۔ اہل شعور سمجھتے ہیں کہ عصر حاضر میں تعلیم ہی مال و دولت سمیٹنے کا اعلیٰ ترین ہتھیار ہے جس سے شکاری شکار کرنے میں بھی کامیاب ہو جاتا ہے اور شبخون کا الزام بھی نہیں لگتا۔ اخلاق و کردار کا سودا ان مراکز پر سستے داموں میں ہوتا ہے۔وجوہات والدین بھی جانتے ہیں لیکن معاشی دوڑ دھوپ نے انہیں کسی حد تک بصیرت سے محروم کردیا ہے۔یہاں فقط طلاب العلم کا استحصال نہیں ہوتا بلکہ اساتذہ کرام بھی اسی کشتی میں سوار ہیں۔طلاب العلم کو اپنے گھروں سے ہی یہ تصور دیا جاتا ہے کہ اساتذہ آپکے خریدے ہوۓ غلام ہیں جنہیں آپ لونڈی کی طرح جس طرح چاہیں استعمال کرسکتے ہیں۔اساتذہ اپنا وقار کھو چکے ہیں لیکن بے روزگاری کے مارے اپنی خودی کو سربازار لٹتے ہوۓ دیکھ کر ماتم سکوت اختیار کیۓ ہوۓ ہیں۔ بات طلاب العلم کی ہو تو وہ دن دگنے رات چگنے لٹ رہے ہیں۔اولاً طالب علم کو ایمان و عقیدہ سے محروم کیا جاتا ہے۔ ناقص العلم و ناقص العقل جب اسلام کے بارے میں گفتگو کرنے لگ جائیں تو نتیجہ یہی نکلے گا کہ علم الکلام و فلسفہ کے نام پر الحاد پروان چڑھ کر روح اسلام سے بغاوت کرنے پر ابھارے گا۔قرآنی نصوص و فرامین نبوی ﷺ کو جب سائنسی میزان پر تول کر طلاب العلم کے سامنے رکھا جائے تو زندیقیت کی راہیں ہموار ہوجاتی ہیں۔ قرآن ام العلم ہیں لیکن جب لغت و اصول قرآن سے جاہل بندہ قرآن کی نصوص پر کلام کرے تو وہاں ہدایت کے بجائے گمراہی جنم لیتی ہے کیونکہ صاحب بیان نے خود کبھی قرآن سمجھا ہی نہیں اوروں کو کیا سمجھاۓ گا؟؟ ثانیاً ایسے اداروں میں قرآن کو فقط تخت تنقید پر رکھ کر آیات بینات کو مشکوک بنانے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ قرآن کو بحث و مباحثہ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے حالانکہ قرآنی آیات پر تبصرہ کرنے والے وضو و غسل کے احکامات سے بھی لاعلم ہوتے ہیں۔ تجوید القرآن، علوم التفسیر، علوم القرآن، سلف صالحین کی تفاسیر سے غافل شخص وہ کیڑا ہے جو انسانیت کو شعوری و غیر شعوری طرز پر کھوکھلا کر رہے ہیں۔ خالق کائنات کی تخلیق و شہنشاہی کو جھوٹا ثابت کر کے طلاب العلم کو الحاد کے ایسے دلدل میں ڈالا جارہا ہے جس سے نکلنا ناممکن ہے۔درحقیقت ایسے افراد علم کی تعریف سے ہی نا آشنا ہیں۔علم کہتے ہیں کسی چیز کی حقیقت کا ادراک کرنا جبکہ ان مراکز میں حقیقت سے ہی لاتعلق کیا جاتا ہے۔وجود باری تعالیٰ پر تبصرہ کرتے ہوئے ایسا تاثر دیا جاتا ہے جیسا کہ ایمان و اسلام کوئی افسانہ ہو حقیقت نہیں۔ایسے اشخاص کو ہم اساتذہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ اساتذہ تو قوم کے ستون ہوتے ہیں اور یہ بندے قوم و ملت کی عمارت کو ھدم کرنے میں کوئی قصر باقی نہیں چھوڑتے۔اخلاقیات و معاملات کا نظام رہبر کامل نبی کریم ﷺ نے مستحکم و مضبوط کیا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ اسی عظیم نبی ﷺ کے نام لیوا امتی جب اپنے بچوں کو درس و تدریس کے مقصد سے ان اداروں کی طرف روانہ کرتے ہیں تو ثمرات میں عریانی و فحاشی حاصل ہوتی ہے۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں بلکہ علانیہ حالات ہیں۔مخلوط تعلیمی نظام میں ہم پھنس چکے ہیں لیکن coaching centres میں اس مخلوط تعلیمی نظام کو وہ فروغ حاصل ہوا کہ اب بچہ اس نظام کا دلدادہ بن چکا ہے۔ اور پھر جب hostels کو بھی نصاب میں شامل کیا جائے تو جلتے ہوئے گھر کو بھڑکانے کے مترادف ہے۔پیغمبر اسلام نبی کریمﷺ کی مبارک تعلیمات حرفاً حرفاً اس قوم پر چسپاں ہورہی ہیں۔ علانیہ فحاشی، عریاں لباس، جسم کی بناوٹ ایسے زہریلے ہتھیار ہیں جنہیں واسطہ بناکر اغیار نے ہم سے شرم و حیا کی دولت و نعمت صلب کرلی۔والدین یہ سب کچھ دیکھ کر بھی خواب خرگوش میں سوۓ ہوۓ ہیں، آخر بیٹی کو ڈاکٹر جو بننا ہے۔۔۔۔۔! آخر بیٹے کو انجینئر جو بننا ہے۔۔۔۔۔! گہرائی سے حالات کا مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آجاتی ہے کہ "حرام دولت محو گردش ہے”.تعلیم یافتہ اور تربیت یافتہ، یہ دو الگ الگ اصطلاحات ہیں جنہیں ادراک کرنے کی ضرورت ہے۔ تعلیمی اداروں کا مقصد حصول تربیت ہوا کرتا تھا لیکن اب تربیت کو زائل کرنے کی غرض سے تعلیمی اداروں کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے۔ روپیہ اور پیسہ ایسے گندے کیڑے ہیں کہ جس کے روح کو لگ جائیں اسے ہلاک کردیتے ہیں، انہیں پھر احساس نہیں رہتا کہ ہم تعلیم کے نام پر ملت کے گھروں کو جلا رہے ہیں، ہوگا بھی کیسے۔۔۔۔؟ ان کے ضمیر سپرد خاک ہوچکے ہیں۔ تعلیمی اداروں کے بڑھتے ہوئے شرح کے ساتھ ساتھ ذہنی مریض بھی تیز رفتاری سے بڑھ رہے ہیں۔وادی کشمیر کی بات کی جاۓ تو دن بہ دن جرائم کی تعداد میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے، یہی بچے دن بھر ان اداروں کی زینت بنے ہوئے ہوتے ہیں لیکن یہی بچے شام کی ظلمات میں مے خانوں پر مدہوشی کے عالم میں گر پڑے ہوتے ہیں۔ یہ علم نہیں قتل عام ہے وہ بھی سرعام۔منشیات (Drug addiction) میں ہماری بیٹیاں، ہمارے بیٹے، ہمارے بھائی مبتلا ہیں اور وجہ سامنے ہوکر بھی ہم کچھ نہیں کرپاتے کیونکہ بچوں کے ساتھ ساتھ والدین کو بھی hypnotise کیا جاچکا ہے۔ دیوثیت اور بے غیرتی انتہا پر ہے۔۔۔۔۔ آخر حرام دولت کا کفارہ جو ادا کر رہے ہیں۔مساجد ویران اور عفت فروشی کے بازار سرگرم ہیں، دینی مدارس خالی جبکہ بدکاری کے مراکز اپنی دھوم دھام سے پر ہیں۔ہم مایوس بھی نہیں کیونکہ اب اہل دل بیدار ہوچکے ہیں۔۔۔ ان امراض کے خاتمے کی غرض سے اہل فکر میدان عمل میں کام کررہے ہیں۔۔۔ وہ وقت دور نہیں جب اس لوٹ مار کا خاتمہ ہوگا لیکن تب تک کہیں دیر نہ ہو جائے؟ ہماری عزت، ہماری شرافت کہیں نیلام نہ ہو جائے؟ حرص و ہوس کے پجاری ہمارے مستقبل کو برباد کر رہے ہیں۔۔۔ والدین خود کو تربیت اولاد کے فریضہ سے آزاد نہیں کراسکتے۔۔۔۔؟ آج بھی ام سلیم رضی اللہ عنہا کے نقش قدم پر چلنے والی مائیں موجود ہیں جن کی وجہ سے اس کائنات کی فضا روشن ہیں۔۔۔ دینی درسگاہوں کے نظام و نصاب کو اس قدر مضبوط کیا جارہا ہے اور آگے بھی کرنا ہوگا جس سے الحاد کے مراکز اپنے ناپاک عزائم میں ناکام ہوجائیں۔
سیدنا ابراھیم و سیدنا یوسف کے نقش قدم پر چل کر نبوی ﷺ طرز عمل اپنا کر ان فتن کا سامنا بہادری سے کرنا ہے۔ اس پرفتن اور پر آشوب ماحول میں بھی اپنے گلستان کو عدو سے محفوظ رکھا جاسکتا ہے، جس کے لئے ہمیں بعض اصول و قواعد اپنانے ہونگے جن میں کچھ اہم قواعد ذکر کئے جارہے ہیں۔
اس بحث کا کچھ فیصلہ میں کر نہیں سکتا
گو خوب سمجھتا ہوں کہ یہ زہرہے، وہ قند
کیا فائدہ کچھ کہہ کے بنوں اور بھی معتوب
پہلے ہی خفا مجھ سے ہیں تہذیب کے فرزند
اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش
مجبور ہیں، معذور ہیں، مردانِ خرد مند
(۱) تربیت یافتہ ماں کا انتخاب—
موجودہ معاشی بحران کی وجہ سے نیک سیرت ماں کا ملنا بھی دشوار ہوگیا ہے۔نکاح سے پہلے نیک سیرت و باکردار اہلیہ کا انتخاب اولاد کا بنیادی حق ہے۔ماں کا تعلیم یافتہ ہونے کے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ ہونا بھی واجبی امر ہے۔ بچوں کی نگرانی و نگہبانی بھی ماں کے حصے میں آتی ہے۔ماں کی فکر صحیح ہو تو بچے بھی غزوہ فکری سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ ماں پرورش کرتے وقت نظام الہی کو سامنے رکھے تو اس دور میں بھی ابن تیمیہ و ابن قیم جیسے فرزند قوم کو مل سکتے ہیں۔باپردہ ہونے کے ساتھ ساتھ تقوی شعار ہونا لازمی ہے۔والد سے زیادہ تربیت یافتہ ہونا والدہ کے لئے ضروری ہے کیونکہ یہی بچوں کی اولین مدرسہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ فرمان مصطفی ﷺ ہے کہ، ” کسی عورت سے نکاح کرنے کے بارے میں چار چیزوں کو ملحوظ رکھا جاتا ہے اول اس کا مالدار ہونا دوم اس کا حسب نسب والی ہونا سوم اس کا حسین وجمیل ہونا اور چہارم اس کا دین دار ہونا لہذا دیندار عورت کو اپنا مطلوب قرار دو( بخاری ومسلم)
خاوند کا حق ہے کہ وہ اپنی بیوی مرضی تہزیب و اصلاح کی کوشش کرے۔ اگر شوہر صاحب علم و عمل ہے تو اس پر واجب ہے کہ اپنی اہلیہ کو سکھاۓ پڑھاۓ لیکن احسن طریقہ سے۔اولاد کی تربیت میں یہ عمل معاون ثابت ہوتی ہے۔آپکی بیوی آپکی شریک حیات بھی ہے، ساتھی بھی، دوست بھی اور طالبہ بھی۔ گھروں میں کتب خانہ تعمیر کرانے کی ضرورت ہے۔ گھر کے ماحول کو باادب بنانے کے لئے کتب خانہ کی تشکیل لازمی ہے۔گھر میں قرآنی دروس، قرآنی تلاوت، نوافل کی ادائیگی، حفظ قرآن و حفظ احادیث کی محفلیں منعقد کرنی ہیں اور ان تمام افعال کی سرپرست اعلیٰ ماں ہونی چاہیے۔نکاح کے بنیادی مقاصد میں عفت و عصمت کی حفاظت کے ساتھ ساتھ نسل کی بقاء بھی ہے اور یہ تبھی ممکن ہے جب والدین اس طرف متوجہ ہوں۔یتیم وہ نہیں جس کے والدین بچپن میں انتقال کر گئے بلکہ یتیم تو وہ ہے جس کے پاس والدین ہوں پر انکی نگرانی نصیب نہ ہوں۔
(۲) مربی کا حلیم و کریم ہونا—
ان نام لیوا تعلیمی اداروں سے نکلنے کے بعد اگر طلباء دینی درسگاہوں کی طرف رخ کریں تو مدرس و مربی پر لازم ہے کہ مخصوص اوصاف ممدوحہ سے خود کو متصف کرے۔اسی طرح اگر اسکولوں اور کالجوں میں صلاحیت والے مدرسین موجود ہیں تو انہیں بھی ان اخلاق جمیلہ کو اپنانا ہوگا تاکہ سیدھی راہ سے بھٹکے ہوئے طلباء پھر سے راہ راست پر گامزن ہوسکے۔مربی صاحب تحمل و بردبار ہو۔شفیق و رحیم ہو ناکہ سخت مزاج۔علمی فتنے کا توڑ بھی علم سے ہی کریں فقط جذبات سے نہیں۔ محبت و الفت سے طالب کے اشکالات کو رفع کرے،اللہ کی معرفت،نبی ﷺ کی محبت،اسلام کی محبت اس کے دل میں راسخ کریں۔ وہ تب ہوگا جب مدرس صاحب علم مع عمل ہو۔قول و فعل کا تضاد نہ ہو۔ دل کو وسیع اور زبان کو رفق و لین سے بھردیں۔دینی درسگاہوں میں نورانی قاعدہ سے باہر نکل کر اب جدید علمی تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے باضابطہ ایک مستند نصاب شامل کیا جائے جو اسلام کے بنیادی احکامات کی جانکاری پر مبنی ہو مثلاً عقیدہ میں القواعد الابع، الاصول الثلاثہ، العقیدہ الطحاویہ وغیرہ۔سیرت نبوی ﷺ کو شباب المسلمین تک پہنچانے کی درد دل میں پیدا کریں۔مقصد حیات، ارکان ایمان مع شرح، ارکان اسلام مع شرح، توحید و شرک کے مسائل، اسلامی تربیت پر محنت کریں۔درس قرآن کی محفلوں میں نوجوان ملت بالخصوص طلاب العلم کو شامل کرنے کی حسب استطاعت کوشش کریں۔مسلکی تعصب یک طرف رکھ کر تعمیری کام پر صلاحیتوں کو صرف کریں۔تربیت کا خوبصورت طریقہ اس حدیث سے اخذ کیا جاسکتا ہے۔” یہود کا ایک چھوٹا سا گروہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور انہوں نے کہا: آپ پر موت ہو (نعوذ باللہ من ذالک) اُم المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں ”میں سمجھ گئی ۔ چنانچہ میں نے کہا: تم پر موت واقع ہو اور لعنت بھی۔ فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ٹھہرو تو اے عائشہ! یقینا اللہ تعالیٰ تمام معاملات میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔میں نے عرض کیا: ”اے اللہ کے رسول آپ نے نہیں سنا کہ انہوں نے کیا کہا؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”بے شک میں نے کہا تھا ”اور تم پر بھی ہو (موت)۔” دوسری جگہ ہے کہ، ” بے شک اللہ تعالیٰ نرم ہے اور نرمی کو پسند کرتا ہے اور نرمی پر جو دیتا ہے وہ سختی اور دیگر اشیاء پر نہیں دیتا۔ ”(صحیح بخاری و صحیح مسلم) وہ وقت چلا گیا جب اساتذہ کا کام فقط پڑھانا ہوتا تھا اب پڑھانے سے زیادہ اخلاقیات پر توجہ دینی ہے جس کے لئے لازمی ہے کہ اساتذہ خود بھی شرعی علم سے آراستہ ہوں۔
(۳) فکری تربیت—
امام ابو حنیفہ رحمہ الله تعالٰی بیان فرماتے ہیں کہ، "میری نظر میں علماء کے واقعات اور ان کے محاسن بیان کرنا فقہ کی کثیر معلومات کو جمع کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے، اس لئے کہ وہ واقعات لوگوں کے آداب ہیں”. فکری تعمیر کی خاطر قرآنی قصص و مستند واقعات کا بیان کرنا کافی معاون ثابت ہوتا ہے۔ سیدنا ابراھیم و سیدنا اسماعیل،سیدنا یعقوب و سیدنا یوسف، سیدنا زکریا و سیدنا یحییٰ و دیگر صحیح قصص بیان کرنے میں احسن اسلوب اپنائیں۔یہ اصول بھی یاد رکھیں کہ انداز بیان ذہنی سطح دیکھ کر اختیار کریں۔ رسول کریمﷺ کی سیرت طیبہ کی حق ادائیگی کرکے تعمیر کردار کی راہ اپنائیں۔ صحابہ کرام و صحابیات کی قربانیوں و غزوات کا درس دے کر بچوں میں دینی شعور و دینی غیرت کی روح پھونک ڈالو۔ وادی کشمیر کے ان اسلاف کی خدمات طلباء کے سامنے لائیں جنہوں نے اپنے شب و روز توحید و سنت کی آبیاری کے لئے وقف کئے تھے۔یہ سرزمین اولیاء کرام، علماء کرام ، مشائخ عظام کی مرکز رہی ہے، اسے جلتے ہوئے کب تک دیکھا جا سکتا ہے؟
(۴) سن تربیت میں ترھیب و ترغیب—
ولادت سے لیکر دس سال کی عمر تک بچوں کو وقت دیں۔ یہی سال پرورش و تربیت کے لئے موزوں و مؤثر ہیں۔بچوں کو کلمہ توحید، شروط کلمہ، وضو کے احکامات یاد کروائیں۔بچوں کو نماز کا صحیح طریقہ سکھلائیں لیکن محبت و الفت سے۔ چھوٹے چھوٹے قرآنی سورتیں حفظ کروائیں، مختصر مسنون دعائیں بھی یاد کروائیں۔ یہ وقت ہاتھ سے نہ چلا جائے۔صدق و کذب میں فرق کرنا بچوں کو سکھاۓ۔ بڑوں کا احترام، سلام و دعا کی تلقین و تاکید کریں۔ سن طفل میں اگر چھوٹی بھی غلطی بچے سے ہوجاۓ اسے تنبیہ کریں، نظر انداز نہ کریں۔ بچوں کی غلطیاں دیکھ کر خاموش رہنے والے والدین خود کو دھوکہ دے رہے ہیں۔ربیع بنت معوذ بن عفراء بیان کرتی ہیں کہ جب میں دلہن بنا کر بٹھائی گئی تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے۔ آپ یہاں میرے بستر پر ایسے بیٹھے جیسے تم لوگ بیٹھے ہو۔ پھر ہمارے یہاں کی کچھ لڑکیاں دف بجانے لگیں اور میرے والد اور چچا جو جنگ بدر کے دن شہید ہوئے تھے، ان کی تعریف کرنے لگیں۔ ان میں سے ایک نے کہا، "ہم میں وہ نبی ہیں جو آنے والے کل کی بات جانتے ہیں۔” آپ نے فرمایا: "اسے چھوڑو اور وہ گاؤ جو تم پہلے گا رہی تھیں۔” (سنن ابن ماجہ) اچھے کاموں پر بچے کی حوصلہ افزائی کرنا اور غلطیوں پر تنبیہ کرنا شفقت کا تقاضا ہے۔ امام زبیدی رحمہ اللہ تعالیٰ کا بیان ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ تعالیٰ کی بیٹی ان سے حدیث کا درس سنتی تھی، با پردہ ہوکر دروازے کے پیچھے بیٹھتی، اگر حدیث کی سند و متن میں کوئی غلطی ہوتی تو امام مالک کی بیٹی دروازہ کھٹکھٹاتی، امام زبیدی رحمہ اللہ شاگرد کو حدیث دوبارہ سنانے کی ہدایت دیتے۔
(۵) بچوں پر شرعی حدود کے تحت مال صرف کرنا—
ظالم ہیں ایسے والدین جو اپنی اولاد پر مال و دولت صرف کرنے میں اصراف و تبذیر سے کام لیتے ہیں۔جتنے پیسے درکار ہوں اتنے ہی میسر رکھیں۔منشیات کا رجحان اپنے عروج پر ہے۔ اگر بچہ سن بلوغت کو پہنچ چکا ہے تو کافی محتاط رہیۓ۔گھر سے نکلنے والی باحیا اولاد کہیں آپکی دولت سے بے حیا نہ بن جائیں۔والدین اپنی عزت اپنے ہی ہاتھوں بیچ رہے ہیں۔جس hotel میں کھانا کھانے کی طاقت والد کو نہیں، اسی hotel میں اولاد کسی گھر کی چاردیواری سے کھیل رہا ہوتا ہے۔حقیقت سے باگا نہیں جاتا بلکہ سامنا کیا جاتا ہے۔ جو پیسے آپ بچوں میں تقسیم کرتے ہیں، اسکا حساب رکھا جائے۔ اگر اپنی اولاد کو گمراہی کے دلدل میں گرنے سے بچانا چاہتے ہو تو ایک ایک روپیہ کا حساب رکھا جائے۔
(۶) شرعی لباس —
مذکورہ تعلیمی اداروں پر نظرثانی کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اکثر طلباء علم حاصل کرنے نہیں بلکہ اپنے کردار کو بیچنے کے لئے آتے ہیں۔ جس کا اندازہ ان کے لباس کو دیکھ کر ہی ہوتا ہے۔ دیوث ہیں ایسے والدین جو اپنی بیٹی کو عریاں لباس پہنا کر گھر سے روانہ کرتے ہیں۔ اس بات کا فہم وہ بھی رکھتے ہیں کہ اگر اس عمر میں بچے کو قابو میں نہ رکھا گیا تو یہی بچہ خاندان کی رسوائی کا باعث بن سکتا ہے۔جسم فروشی ایک ایسا پیشہ اور نشہ ہے جو عقل و بصارت پر پردہ مسلط کرتا ہے۔ جسم فروشی کا کاروبار مختلف طریقوں سے رواں دواں ہے لیکن ہماری عقول اس طرف نہیں جاتی۔علماء، مدرسین، مبلغین، واعظین پر یہ قرض اور فرض ہے کہ وہ مساجد میں، منبر و محراب پر والدین کے مردہ قلوب کو زندگی بخشنے کی حتی المقدار کوشش کریں۔
(۷) اللہ کا خوف —
سیدناابن عمر رضی اللہ عنھما نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ تم میں سے ہرشخص حاکم ہے اور ہر ایک سے اس کی رعیت کے بارے میں سوال ہوگا (حاکم سے مراد منتظم اور نگراں کار اور محافظ ہے) پھر جو کوئی بادشاہ ہے وہ لوگوں کا حاکم ہے اور اس سے اس کی رعیت کا سوال ہو گا(کہ اس نے اپنی رعیت کے حق ادا کیے، ان کی جان و مال کی حفاظت کی یا نہیں؟) اور آدمی اپنے گھر والوں کا حاکم ہے اور اس سے ان کے بارے میں سوال ہوگا اور عورت اپنے خاوند کے گھر کی اور بچوں کی حاکم ہے، اس سے اس کے بارے میں سوال ہو گا اور غلام اپنے مالک کے مال کا نگران ہے اور اس سے اس کے متعلق سوال ہو گا۔ غرضیکہ تم میں سے ہر ایک شخص حاکم ہے اور تم میں سے ہر ایک سے اس کی رعیت کا سوال ہو گا۔”(صحیح مسلم) سیدنا عبداللہ بن عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” تین طرح کے آدمیوں پر اللہ تعالیٰ نے جنت کو حرام کر دیا ہے (یہ نجات یافتہ بندوں کے ساتھ ابتداء ً جنت میں داخل ہونا ان تینوں پر حرام قرار دیا ہے ) ایک تو وہ شخص جو ہمیشہ شراب پئے ، دوسرا وہ شخص جو اپنے والدین کی نافرمانی کرے ، اور تیسرا وہ دیوث کہ جو اپنے اہل وعیال میں ناپاکی پیدا کرے ۔” (احمد نسائی )
ان احادیث سے واضح ہے کہ راعی اپنے عیال پر نگران و نگہبان ہے۔ والدین کے ساتھ ساتھ coaching centres کے مالکان بھی اس حدیث کے دائرے میں آتے ہیں جو اس بے راہ روی کے نظام کو بلندی بخشنے میں مشغول ہیں۔ اللہ کے سامنے جواب دینا ہی ہے، اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھنے کے بعد یہ فیصلہ کیجئے کہ آپ صحابہ کرام کے وارث ہیں یا فرعون کے مطیع۔ویسے بھی یہ حرام دولت نحوست و ذلت خرید کے لے آتی ہے۔ یہ دولت کبھی خیر کے لئے استعمال نہیں ہوتی۔ اگرچہ آپکے سامنے آپکو سلام و دعا دی جاتی ہے لیکن حقیقت قال و حال سے یہ بات عیاں ہے کہ یہ عزت آپکو نہیں آپکے
ی دھن دولت دی جاتی ہے۔
جواں ہونے لگے جب وہ تو ہم سے کر لیا پردہ
حیا یک لخت آئی اور شباب آہستہ آہستہ
(۸) پاکدامنی کا درس —
بدکاری بھی مطلقاً حرام ہے اور وہ ذرائع جن سے آپ اس نجاست کے قریب جاتے ہیں، وہ اختیار کرنے بھی ناجائز ہیں۔شریعت کی طیب تعلیمات دیکھئے، امام ابوداؤد رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی سنن کے اندر مرفوع روایت لاۓ ہیں کہ، "جب بچے دس سال کے ہوجائیں تو ان کو نماز ترک کرنے پر مارو اور ان کے بستر الگ الگ کردو”.عصر حاضر کی گھڑیاں شاہد ہے کہ نصبی بہن اپنے بھائی سے بھی محفوظ نہیں، بیٹی اپنے حقیقی والد سے بھی محفوظ نہیں، اجنبی مرد تو دور کی بات ہے۔ غیر محرم کبھی بھائی بن کر، کبھی دوست بن کر، کبھی خیرخواہ اور ہمدرد بن کر آپکی شرافت پر وار کرنے آتا ہے۔ ایسے وحشی درندوں سے دور رہیں۔ اساتذہ اور والدین اس حقیقت سے آگاہ ہوجائیں کہ یہی بچے آپکے لئے یا آپکے خلاف میدان محشر میں حجت بن کے سامنے آئیں گے۔
سیدنا ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،”جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کے ثواب کا سلسلہ اس سے منقطع ہو جاتا ہے مگر تین چیزوں کے ثواب کا سلسلہ باقی رہتا ہے۔ (١) صدقہ جاریہ (٢) علم جس سے نفع حاصل کیا جائے (٣) صالح اولاد جو مرنے کے بعد اس کے لئے دعا کرے۔” (صحیح مسلم) کسی انسان کے لئے سب سے بڑی سعادت اور وجہ افتخار اس کی اولاد صالح ہی ہوتی ہے اس لئے کہ صالح اولاد نہ صرف یہ کہ ماں باپ کے لئے دنیا میں سکون و راحت کا باعث بنتی ہے بلکہ ان کے مرنے کے بعد ان کے لئے وسیلہ نجات اور ذریعہ فلاح بھی بنتی ہے۔ فرمان نبوی ﷺ ہے کہ، "جس شخص نے مسلمانوں میں کسی نیک طریقہ کی ابتداء کی اور اس کے بعد اس طریقہ پرعمل کیا گیا تو اس طریقہ پرعمل کرنے والوں کا اجربھی اس کے نامہ اعمال میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے اجر میں کمی نہیں ہوگی، اور جس شخص نے مسلمانوں میں کسی برے طریقے کی ابتداء کی اور اس کے بعد اس طریقہ پر عمل کیا گیا تو اس طریقہ پر عمل کرنے والوں کا گناہ بھی اس شخص کے نامہ اَعمال میں لکھا جائے گا اور عمل کرنے والوں کے گناہ میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔‘‘ (وسندہ صحیح)
باطل کو لکھیں سچ تو حقیقت کو فسانہ
تحریر بھی فتنہ ہے وہ اشعار بھی فتنہ
کرے جو اصولوں کا ہی غدار سے سودا
حاکم بھی وہ رہبر بھی وہ سارار بھی فتنہ
(۹)مقصد تعلیم—
فرمان ربانی ہے کہ،
"اے محمدﷺ ان کے درمیان اللہ کے نازل کردہ کے ساتھ فیصلہ فرمائیے اور ان کی خواہشات کی اس حق کے مقابل پیروی نہ کیجیے جو آپ کے پاس آچکا ہے ۔تم میں سے ہرایک کے لئے ہم نے خاص شریعت اور خاص طریقت مقرر کی ہے۔” (۵:۴۸) اس آیت مبارکہ میں رب کائنات نے مقصد تعلیم بیان فرمایا ہے کہ رب کی تخلیق پر رب کے احکامات نافذ ہوں۔جہالت سے بیزاری علم کے بنیادی مقاصد میں شامل ہے۔لیکن یہاں تعلیم کے نام پر ہی جہالت پروان چڑھ رہی ہے۔ طالب علم کے ذہن میں روز اول سے ہی دولت سامنے رکھی جاتی ہے کہ تمہیں یہی حاصل کرنی ہے۔ علم کا مقصد اگر دولت حاصل کرنا رہ جائے تو یہ علم نہیں بلکہ زندیقیت بن کے رہ جاتی ہے۔حصول دولت کی خاطر انسان کس حد تک حیوانیت پر اتر سکتا ہے اس کے گواہ ہم سب ہیں۔ کیا اس قوم نے امام بخاری رحمہ اللہ جیسا فرزند کائنات کو دیا؟ کیا ابن خلدون جیسے مؤرخ اس قوم نے پیدا کئے؟ کیا جابر بن حیان، محمد بن موسی الخوارزمی ، ابن الھیثم جیسے سائنسدان پیدا کئے؟ ہر گز نہیں۔۔۔۔پھر یہ تعلیم ہمیں دے کیا رہی ہے؟ میرا نشانہ تعلیم نہیں۔۔۔۔ مسلم امت تو ماضی قریب تک سائنسی دنیا پر راج کر رہی تھی لیکن جب علم کے اغراض و مقاصد سے انحراف کیا گیا، زوال تعلیم اسی پل شروع ہوا۔غیروں سے زیادہ ہمارے اپنے اس گلشن کو برباد کرنے میں محو سفر ہیں۔ایک انقلاب کی ضرورت ہے لیکن انقلاب پلک جھپکتے نہیں آتا، محنت لگتی ہے، وقت صرف ہوتا ہے، صلاحتیں کام آتی ہیں۔ اس نظام بد کو تبدیل کرنے میں ہم سب کو انفرادی سطح سے کام شروع کرنا ہوگا۔
حیا سے حسن کی قیمت دو چند ہوتی ہے
نہ ہوں جو آب تو موتی کی آبرو کیا ہے
(۱۰) ہمنشین باغی نہ ہو—
والدین اور اساتذہ کے بعد ایک بچے کی زندگی اسکے برے اور نااہل ساتھیوں، دوستوں کی وجہ سے برباد ہوتی ہے۔بچے کا اٹھنا بیٹھنا جن افراد کے ساتھ مقید ہو انہیں کے رنگ میں ڈھل جاتا ہے۔ یہاں گلی گلی طاغوت کے پجاری شراب و دیگر منشیات ہاتھ میں لئے تقسیم کررہے ہیں۔ رہبروں کے بھیس میں رہزن راج کر رہے ہیں۔ امین خائن بن بیٹھے ہیں اور خائن امین بن کر اپنا جال بچھا رہے ہیں۔ محافظ ہی لٹیرے ہیں، مقتول ہی قاتل بن بیٹھے ہے۔اب بھی اگر والدین ہوش میں نہ آئیں تو وہ وقت دور نہیں جب اولاد کی چپل ہوگی اور والدین کا سر۔فرمان ربانی ہے کہ، "اور ہم نے دوزخ کے لیے بہت سے جن اور آدمی پیدا کیے ہیں، ان کے دل ہیں کہ ان سے سمجھتے نہیں، اور آنکھیں ہیں کہ ان سے دیکھتے نہیں، اور کان ہیں کہ ان سے سنتے نہیں، وہ ایسے ہیں جیسے چوپائے بلکہ ان سے بھی گمراہی میں زیادہ ہیں، یہی لوگ غافل ہیں”.(سورہ اعراف) سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نیک مصاحب اور بدمصاحب کی مثال ایسی ہے جیسے مشک بیچنے والے اور بھٹی دھونکنے والے کی، مشک والا یا تو تجھے یونہی دے گا (تحفہ کے طور پر سونگھنے کے لیے) یا تو اس سے خرید لے گا یا تو اس سے اچھی خوشبو پائے گا اور بھٹی پھونکنے والا یا تو تیرےکپڑے جلا دے گا یا بری بو تجھ کو سونگھنی پڑے گی۔“(صحیح مسلم)
پیغام خاص
کائنات کی فضا پھر سے چمکے گی، ضرورت ہے تو نبوی ﷺ کردار کی۔تربیت کا نبوی ﷺ اصلوب اپنایا جاۓ تو گمراہی کی تاریکیاں مٹ کر ہدایت کا سورج طلوع ہوسکتا ہے۔ مذکورہ نقاط کے ساتھ ساتھ دعا بھی لازمی اپنائیں۔ اسوہ ابراھیمی ہے کی وہ اپنی اولاد کی ہدایت و استقامت کے لئے رب تعالیٰ سے دعا کیا کرتے تھے۔ آخر میں یہ بات بھی یاد رکھیں کہ
"Education industry is a business tree these days”.
اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں رشد و ہدایت سے نوازے۔۔۔۔۔ آمین یا رب العالمین۔
جو شخص حقیقت میں ہو ابلیس کا پرتو
اُس شخس کا کردار بھی گفتار بھی فتنہ
لیتے ہیں جنم کام بُرائی کے ادھر سے
گل سچ تو یہی ہے کہ ہیں بازار بھی فتنہ