رئیس احمد کمار
بری گام قاضی گنڈ کشمیر
اس نے کسی اسکول ، کالج یا یونیورسٹی میں تو نہیں پڑھا تھا ۔ ان پڑھ ہی تھا لیکن ہمدردی نام کا جذبہ اس کے دل میں پیوست تھا ۔ یہ ہمدردی نہ صرف انسانوں کے لئے تھی بلکہ جانوروں اور حیوانات کا خاص خیال رکھنا بھی وہ ایک نیک کام تصور کرتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکو یہ روز کا معمول تھا کہ جب وہ فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد صبح کی چاے سے فارغ ہوتا تھا تو سب سے پہلے وہ پرندوں کو دانا ڈالتا تھا ۔ پرندوں کو دانا کھلانا وہ کبھی بھی نہیں بھولتا تھا ۔ کتوں اور دیگر قسم کے حیوانات کا خاص خیال بھی اچھی طرح رکھتا تھا ۔ گھر میں اسکی بیوی اور بچے اسکا یہ کام ناپسند ہی کرتے تھے ۔ ان کی طرف سے اکثر اسکو ڈانٹ ڈپٹ کا سامنا کرنا پڑتا تھا ۔۔۔۔۔۔
لیکن وہ ہمیشہ اپنا کام بخوبی نبھا کر انکو نظر انداز کرتا تھا اور ہمیشہ انکو کہتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ میں یہ ایک نیک کام نبھاتا ہوں ۔ آپکو کونسی پریشانی ہے ۔ مجھے نیک کام کرنے میں رکاوٹیں مت ڈالیں ۔ اس نیک کام کے عوض اللہ مختلف بلائیں دور فرماتا ہے ۔ مختلف قسم کی بیماریوں اور حادثات سے بھی انسان بچ جاتا ہے جب ایسے نیک کام انجام دیے جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
ایک دن اسکی بیوی کو شہر کے ڈاکٹر نواز سے صلاح لینی تھی ۔ ایک سال پہلے اس نے اسکا آپریشن کیا تھا اور ہر تین مہینے بعد وہ اس سے صلاح مشورہ لیتی تھی ۔ ڈاکٹر نواز ہسپتال کی ڈیوٹی سے فارغ ہوکر ہی اپنے کلینک پہ مریضوں کا علاج و معالجہ کرتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کے نو بجے اسکو باری آئی کیونکہ اسکا نمبر تین سو آٹھ تھا ۔ جب میاں بیوی ڈاکٹر سے صلاح مشورہ لینے کے بعد اپنی بڑی لڑکی سمیت کلینک سے باہر آئے تو رات کی اندھیری نے انکو مخمصے میں ڈال دیا کہ اس وقت اب کیا کریں ۔ گھر میں اسکی بوڑھی ماں اور دو چھوٹے بچے بھی تھے ۔ اسلئے گھر لوٹنا انکے لئے بہت ضروری تھا ۔ اندھیری رات میں ہی تینوں پیدل چل رہے ہیں کیونکہ گاڑی ملنا بھی اس وقت ناممکن تھا ۔ تین چار کلومیٹر پیدل چل کر وہ مین روڑ پر پہنچے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تینوں اب مین روڑ پر گاڑی کا انتظار کررہےہیں ۔ جو بھی گاڑی رات کے اندھیرے میں مین روڑ سے گزرتی ہے ، وہ تینوں ڈرائیور کو رکنے کےلئے اشارہ کرتے ہیں لیکن ہر گاڑی کا ڈرائیور انکے اشاروں کو نظرانداز کرکے چلا جاتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکی بیوی اور بیٹی تھکن اور سردی محسوس کرتے ہوئے بولنے لگے ۔۔۔۔ ” آپ ہر روز کہتے ہیں کہ اللہ نیک کام کے عوض بہت سی بلائیں دور کرتا ہے اور حادثات سے بھی بچاتا ہے ۔ اس وقت اللہ تمہارا مدد کیوں نہیں کرتا ہے ؟۔۔۔۔۔۔
بجائے انکو جواب دے وہ پھر بھی گاڑیوں کو رکنے کےلئے اشارہ کرتا ہے لیکن کوئی بھی ڈرائیور گاڑی کی بریک نہیں دباتا ہے ۔ تینوں کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے کہ جائیں تو کہاں جائیں ۔ وہ سوچ میں ہی پڑے تھے تو ایک نوجوان لڑکا اندھیرے میں آہستہ آہستہ چلتے ہوئے انکی طرف آرہا ہے ۔۔۔۔۔
” انکل جی ! کیا آپ اسی شہر میں رہتے ہو ؟ ۔۔۔
۔۔۔۔کیوں ! آپکو اس اندھیری رات میں کہاں جانا ہے؟۔۔۔۔
۔۔۔۔ انکل جی ! مجھے اس شہر سے باہر دوسرے شہر میں جانا ہے جہاں نیا بجلی کا پروجیکٹ بن رہا ہے ۔
۔۔۔۔ لیکن اس اندھیری رات میں اتنی مجبوری کیا ہے۔
انکل جی ! میں بجلی محکمے میں ہی ملازم ہوں ۔ میری ٹرانسفر وہاں ہوئی ہے اسلئے کل صبح ہی مجھے وہاں جوائن کرنا ہے ۔
۔۔۔۔۔ لیکن گاڑی کے بغیر آپ کیسے پہنچ جاؤ گے ۔۔۔
انکل ! ایسی بات نہیں ہے ۔ میری اپنی گاڑی ہے ۔ راستہ معلوم نہ ہونے کے سبب میں نے وہ وہاں ہی کھڑا رکھی ۔ میں نے سوچا آپ سے ہی معلوم کروں۔۔۔۔
۔۔۔۔۔ آپ اکیلے ہیں یا کوئی اور آپکے ساتھ ہے۔۔۔
نہیں میں اکیلا ہی ہوں ۔۔۔۔
۔۔۔ چلو ہم آپکو راستہ دکھاتے ہیں ۔
آپکو کہاں جانا ہے انکل جی ؟
ہمیں بھی اسی راستے سے گھر جانا ہے۔ ہم صبح سویرے اس شہر کے ڈاکٹر نواز سے صلاح مشورہ لینے کے لئے آئے تھے ۔ ہماری باری نو بجے آئی اسلئے اتنا دیر ہوا ۔۔۔۔۔
کوئی فکر مت کیجئے انکل جی میں تو پھر آپ تینوں کو برابر اپنے گھر تک پہنچاؤں گا ۔۔۔۔
میاں بیوی اور انکی لڑکی کے جسم میں اب نئی جان آگئی اور وہ رات کے گیارہ بجے گھر پہنچ گئے ۔ گھر پہنچ کر ماں بیٹی نے اسکے نیک کام کو نہ صرف سراہا بلکہ وہ خود نیک کاموں میں اب پیش پیش رہتے ہیں ۔۔۔۔۔۔
راقم ایک کالم نویس ہونے کے علاوہ گورمنٹ ہائی اسکول اندرون گاندربل میں اپنے فرائض بحست ایک استاد انجام دیتا ہے ۔