رئیس احمد کمار
بری گام قاضی گنڈ
وہ ایک نہایت ہی غریب باپ کی بیٹی تھی ۔ شکل و صورت سے حسین و جمیل دکھتی تھی ۔ اسکے مفلس باپ کو چار اور بچے پالنے پڑتے تھے ۔ بڑی مشکل سے ہی گھر کا گزارہ ہو رہا تھا ۔ حسین و جمیل ہونے کے ناتے بہت سے نوجوان اسکو اپنی طرف مائل کرنے کی تکدو میں لگے رہتے تھے ۔ جب بھی وہ اسکول یا کسی اور کام کےلئے گھر سے باہر نکلتی تھی تو نوجوانوں کو آپس میں مقابلہ لگ جاتا تھا کہ کس کے ساتھ اسکی بات ہوگی ۔۔۔۔۔۔
کئی مہینے اسی طرح گزر گئے ۔ آخر کار ایک پنتالیس سالہ نوجوان جسکی ابھی تک شادی نہیں ہوئی تھی اسکو اپنی معشوقہ بنانے میں کامیاب ہوا۔۔۔۔۔
پنتالیس سالہ نوجوان کا باپ ایک بڑا ٹھیکہ دار تھا۔ کئی سالوں سے ٹھیکہ داری کے کام میں اس نے کافی رقم کمائی تھی ۔ گاؤں اور پورے علاقے میں وہ غنی خواجہ کے نام سے جانا جاتا تھا ۔ جب بھی کسی شخص کو بڑے امیر آدمی کی مثال دینی ہوتی تھی تو غنی خواجہ کا نام لیتا تھا ۔ اس بیس سالہ حسین و جمیل لڑکی کو بھی اسی وجہ سے غنی خواجہ کے بیٹے سے ہی دل لگ گیا ۔ حالانکہ دونوں باپ بیٹے شراب نوشی اور دیگر نشاور چیزوں کا استعمال کھل کر کیا کرتے تھے ۔ اسکے لئے بھی وہ مشہور تھے لیکن دولت کے لحاظ سے وہ مالامال تھے۔۔۔۔
بیس سالہ خوبصورت لڑکی نے نہ تو لڑکے کی زیادہ عمر کا پرواہ کیا نہ ہی ان دونوں باپ بیٹوں کے خراب عادات کی طرف اس نے کبھی دھیان دی ۔ بس مال و دولت کی لالچ نے اسکو ایسا کرنے پر آمادہ کیا۔۔۔۔۔۔۔
کئی سال عاشق اور معشوقہ محبت سے ایک دوسرے کے ساتھ گزار رہے ہیں ۔ بازاروں کے چکر، تفریح گاہوں کی سیر اور دیگر جگہ گھومنا انکا معمول بن گیا تھا ۔ حسین لڑکی اپنے عاشق کے ساتھ دن گزارنے میں مزہ لے رہی ہے کیونکہ اسکا عاشق دولت مند باپ کا بیٹا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
گھر میں بہت سے لوگ رشتہ مانگنے آرہے ہیں ۔ غریب باپ اپنی مفلسی دیکھ کر اپنی بیٹی کا رشتہ طے کرنے کےلئے متفق ہوجاتا ہے لیکن جب بات بیٹی کے سامنے رکھی جاتی ہے تو وہ صاف انکار کردیتی ہے ۔ معلوم کرنے پر غریب میاں بیوی کو پتہ چلتا ہے کہ انکی بیٹی غنی خواجہ کے بیٹے سے شادی رچانا چاہتی ہے ۔ کافی وعظ و نصیحت کرنے کے بعد بھی وہ کسی کا نہیں سنتی ۔ وہ اپنے عاشق کو دھوکہ نہیں دے سکتی ہے کیونکہ اسکو معلوم ہے کہ کتنا رقم وغیرہ عاشق نے اس پر کئی سالوں سے خرچ کیا ہے اور کیسے اسکو عیش بھی کرائے ۔۔۔۔۔۔۔
جب مفلس میاں بیوی اپنی بیٹی کو منانے میں پوری طرح ناکام ہوئے تو اسکی شادی آخرکار غنی خواجہ کے بیٹے سے ہی کرائی گئی ۔۔۔۔۔۔
اب میاں بیوی اپنے قریبی رشتے داروں وغیرہ کو شادی کے بارے میں مطلع ہی نہیں کرتے ہیں کیونکہ وہ سب اس رشتے کے خلاف تھے اور انہوں نے بھی اپنی طرف سے لڑکی کو کافی سمجھایا تھا لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوئی ۔۔۔۔۔۔
ایک دن وہ دردہ زہ میں مبتلا ہوئی تو سسرالوالوں نے شہر کے سب سے بڑے پرائیویٹ ہسپتال میں اسکو ایڈمٹ کرایا جہاں اسکی ڈلیوری ہوئی اور اس نے بیٹے کو جنم دیا ۔ میاں بیوی، انکے ہمسایہ اور رشتے دار سب ہسپتال میں موجود ہیں ۔ جنہوں نے ابھی تک لڑکی کے شوہر اور سسرالوالوں کو دیکھا بھی نہیں تھا وہ بھی خبر گیری کے لئے ہسپتال آرہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
سسرالوالوں کے پاس مال و دولت تو کافی تھا لیکن انکے خراب عادات اور غیر انسانی حرکات نے اب اسکا دل کافی رنجیدہ کردیا تھا ۔ گھر کا ماحول بھی اسکو راس نہیں آرہا تھا ۔ کسی طریقے سے وہ شوہر اور سسرالوالوں سے اپنی جان چھڑانا چاہتی ہے لیکن کیا کرے شادی اپنی مرضی سے رچائی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہسپتال میں سبھی ہمسایہ اور رشتے دار انکے خراب عادات اور غیر انسانی حرکات کا زکر کر رہے تھے ۔ اس وقت بیٹی یہ سب کچھ بغور سن رہی تھی اور اتفاق بھی کرتی تھی لیکن وہ کچھ کہہ نہیں سکتی ۔۔۔۔۔۔۔
جب ہسپتال سے چھٹی ملی تو گھر میں دو دن بعد ہی اسکی موت واقع ہو جاتی ہے ۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے خودکشی کی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
راقم ایک کالم نویس ہونے کے علاوہ گورمنٹ ہائی اسکول اندرون گاندربل میں اپنے فرائض بحست ایک استاد انجام دیتا ہے ۔