رئیس احمد کمار
بری گام قاضی گنڈ
اس نے اسکو پہلے پرائیویٹ پھر سرکاری اسکول میں بھی پڑھایا تھا کیونکہ سرکاری استاد بننے سے پہلے وہ ایک پرائیویٹ اسکول میں ہی کام کرتا تھا ۔
وہ ایک ذہین طالب علم تھا اور پڑھنے لکھنے میں بہت ہی تیز تھا ۔ انجینئرنگ کرنے کے بعد اس نے بہت جلد ہی سرکاری نوکری حاصل کی ۔ ترقی پاکر وہ اسسٹنٹ ایگزیکٹو انجینیر کے عہدے تک پہنچا۔۔۔
اسکا استاد بھی محکمہ تعلیم میں اپنی ترقی پاکر ہیڈماسٹر کے عہدے تک پہنچا تھا ۔ ایک دن ہیڈماسٹر صاحب کو ضلع کے تعلیمی دفتر میں کسی کام کےلئے جانا تھا ۔ وہ سڑک پر گاڑی کا انتظار ہی کررہا تھا تو ایک گاڑی اسکے سامنے رک گئی ۔ دیکھا تو وہ اسکا شاگرد اسسٹنٹ ایگزیکٹو انجینیر تھا ۔ گاڑی میں سفر کے دوران کافی ساری باتیں ہوئی ۔ انجینئر صاحب بولنے لگا ۔ ” ماسٹر جی آپ مجھے ایک بات بتائے ، یہ ماسٹر لوگ اتنے گھٹیا قسم کے کیوں ہوتے ہیں ۔ اکثر ماسٹر کنجوس کیوں ہوتے ہیں۔۔۔
ہیڈماسٹر صاحب ۔۔۔ آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ ماسٹر لوگ گھٹیا قسم کے اور کنجوس ہوتے ہیں ؟
انجینئر ۔۔۔۔۔ آپ کے تعلیمی زون کے ایک ہیڈماسٹر نے میرے صاحب ( ایگزن) کو اسکول میں پانی کا نل دستیاب نہ ہونے پر سینکڑوں بار ٹیلیفون کرکے پریشان کیا ہے ۔ ایک معمولی نل کےلئے اس نے ایگزن کا نمبر ملایا ہے ۔۔۔
ہیڈماسٹر صاحب ۔۔۔کس قسم کی باتیں کرتے ہو ۔ آج کل الیکشن کی تیاری ہورہی ہے ۔ اسکولوں میں پانی ، بجلی اور لیٹرین کی دستیابی کچھ دنوں میں ہی یقینی بنانی ہے ۔ وہ آپ کے ایگزن کو فون نہ کرتا تو اور کس کو ۔ کیا الیکشن کمیشن والے پھر خود اسکولوں میں نل لگا کر رکھیں گیں ۔
کس ماسٹر کو آپ نے کنجوسی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
ماسٹر لوگ اپنی مہینے بھر کی تنخواہ بیس دنوں میں ہی اپنے بیوی بچوں، بھوڈے والدین اور سماج کے کمزور طبقوں پر خرچ کرتے ہیں ۔اسکول میں غریب اور مفلوک الحال لوگوں کے بچوں کے لئے کاپیاں، قلم اور پنسل وغیرہ چیزیں وہ اپنی جیبوں سے ہی برداشت کرتے ہیں ۔ انکی نظر صرف اپنی تنخواہ پر ہوتی ہے ۔ وہ باقی ملازموں کی طرح اپنی جیب حرام کمائی سے نہیں بھرتے ہیں جیسے پٹواری ، وی ایل ڈبلیو ، پولیس والے ، انجینئر وغیرہ وغیرہ ۔۔۔
راقم ایک کالم نویس ہونے کے علاوہ گورمنٹ ہائی اسکول اندرون گاندربل میں اپنے فرائض بحست ایک استاد انجام دیتا ہے ۔