رئیس احمد کمار
بری گام قاضی گنڈ
سب لوگ اس سوچ میں پڑے تھے کہ رشید کا صرف بڑا لڑکا تعلیمی شعبے میں بھی اچھی کارکردگی دکھا پایا اور سرکاری نوکری حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوا ۔ اسکے باقی بیٹے اور بیٹیاں نہ پڑھنے لکھنے میں کچھ خاص کر پائے اور نہ ہی کسی اور شعبے میں انکو کامیابی ملی ۔ صرف بڑے بیٹے کو ہی لوگ زیشعور مانتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رشید کا ایک دوست ایک دن بازار جارہا تھا تو رشید کا بڑا بیٹا بھی اسکو وہاں ملا ۔ جب بڑے بیٹے سے اپنے بھائی بہنوں کے بارے میں پوچھا گیا تو رشید کا دوست حیران ہو گیا کہ آخر اسکا ایک ہی بچہ زندگی میں کچھ پانے میں کامیاب ہوا ہے ۔ جب وجوہات پوچھی گئی تو بڑے بیٹے نے یوں جواب دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
” ۔۔۔۔۔ میرے باقی بھائی بہنوں کی ناکامی کی وجہ صرف میرا باپ ہے ۔ میرے ساتھ وہ سوتیلے سلوک سے پیش آتا تھا ۔ اپنے سامنے مجھے بیٹھنے تک نہیں دیتا تھا ۔ کسی اچھی کام کو شاباشی دینا تو دور کی بات تھی بلکہ ہمیشہ کوستا رہتا تھا ۔ مجھ سے ایسا پیش آتا تھا کہ میں بعض اوقات یہ سوچنے پر مجبور ہوتا تھا کہ شاید میں اسکا بیٹا ہوں نہیں ۔ میری سلام کا کبھی جواب نہیں دیتا اور نہ مجھ سے بات کرتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکے برعکس باقی بچوں کو اپنے پاس بٹھاتا تھا ۔ انکے کہنے پر لبیک کہہ کر انکی فرمائش کو جائز قرار دیکر پورا کرنے کی دوڑ میں رہتا تھا ۔ حد سے بھی زیادہ ان سے پیار و محبت سے پیش آتا تھا۔ انکو کبھی کوئی کام کرنے کو نہیں کہتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
نتیجہ یہ نکلا کہ باپ کے حد سے زیادہ لاڑ پیار سے وہ سب تباہ و ویراں ہوئے ۔ وہ نہ پڑھنے لکھنے میں کچھ خاص کر پائے اور نہ ہی کوئی کام کرنے کے لائق رہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باپ کے سوتیلے سلوک نے مجھے بہت کچھ سکھایا اور سخت محنت کرنے پر مجبور کیا ۔ میں دن رات پوری محنت کرتا رہا اور اللہ سے ہمیشہ یہ دعا کرتا رہا کہ یا اللہ مجھے زندگی میں کسی کا محتاج نہ بنانا کیونکہ مجھے دنیا میں باپ بھی اپنا نہیں مانتا۔
راقم ایک کالم نویس ہونے کے علاوہ گورمنٹ ہائی اسکول اندرون گاندربل میں اپنے فرائض بحست ایک استاد انجام دیتا ہے