رئیس احمد کمار
قاضی گنڈ کشمیر
جان محمد جو تیس پنتیس سال کا نوجوان لڑکا تھا اپنی بیٹی کےلئے نئی اسکول وردی لانے کی غرض سے بازار جارہا تھا ۔ جان محمد کے سر کے تمام بال اور داڑھی سفید ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔
وردی خریدنے اور گھر کے لئے دیگر چیزیں لانے کے بعد جان محمد واپس گھر آرہا تھا ۔ سومو کے بیچ والی سیٹ پر ستھر پچھتر سال کی ایک عورت بھی جان محمد کے ساتھ ہی سیٹ پر بیٹھی تھی ۔ جب سومو گاڑی بازار کی جامع مسجد کے قریب پہنچی تو عورت نے سومو ڈرائیو سے رکنے کےلئے کہا کیونکہ اسکا گھر جامع مسجد کے پاس ہی تھا ۔ جان محمد سے مخاطب ہوکر عورت نے کہا ۔۔۔۔” بھائی جان ! مجھے گاڑی کی کھڑکی کھول کے دیجئے ۔ مجھے یہاں ہی اترنا ہے۔”
جان محمد کو عورت کی باتیں ناگوار گزریں اور اس نے واپس عورت سے کہا ۔۔۔۔ ” کیا میں آپ کا بھائی جیسا ہوں ۔ تجھے دکھتا نہیں میں صرف تیس سال کا ایک لڑکا ہوں ۔ آپ مجھے بھائی جان کہہ کر پکارتی ہو ۔۔۔۔۔۔۔
آپ کے اتنے سفید بال اور داڑھی ۔ کیسے تیس سال کے ہو سکتے ہو آپ ۔ آپ دور سے ہی بوڑھے دکھتے ہو ۔۔۔۔
مجھے بچپن میں ہی باپ کے سہارے سے محروم ہونا پڑا ۔ اسکے بعد میرے دو بڑے بھائی تھے ۔ ایک کو پہلے غائب کیا گیا پھر اسکو کسی نامعلوم جگہ مار کر ہمیں اسکی لاش تک نہیں دی گئی ۔ دوسرا بھائی شال کا کاروبار کرنے کے لئے دوسری ریاستوں میں اپنا روزگار کماتا تھا ۔ وہاں سے واپس گھر آتے آتے وہ بھی حادثاتی موت کا شکار ہوگیا ۔ اب گھر میں میری کمزور ماں اور میں رہتے تھے ۔ میری شادی کے چار سال بعد ہی وہ کینسر کے مرض میں مبتلا ہوئی ۔ لاکھ کوشش کے باوجود اور گھر کا سارا جائداد بھیج کر بھی وہ زندگی کی جنگ ہار گئی۔۔۔۔۔۔۔۔
اب میرے بال اور داڑھی سفید نہیں ہوگی تو کیا سبز رنگ کی ہوگی ۔
گاڑی میں بیٹھے باقی تمام سواریاں اور وہ عورت جان محمد کی باتیں سن کر دکھی ہو گئے اور انکی آنکھوں سے آنسوں بہنے لگے ۔
راقم ایک کالم نویس ہونے کے علاوہ گورنمنٹ ہائی اسکول اندرون گاندربل میں اپنے فرائض بحست ایک استاد انجام دیتا ہے ۔