تحریر: اعجاز بابا
نائدکھئے سوناواری
جنگل میں شیر نے ایک دن سب جانوروں کوبلا کر جنگل کی روز بروز کم ہوتی آبادی پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوۓ کہا کہ: ” اب وقت آچکا ہے کہ ہم چھوٹے بڑے، شریف النفس، گھاس خور جانورں کے حقوق کے لۓ بھی کام کریں۔ ۔ ۔”
چنانچہ ریچھ ، بھیڑے، چیتے جیسے وزرا کی کمیٹی بنا کر ان کو گھاس خور جانورں کی تعداد پتہ کرنے پر مامور کردیا گیا تاکہ ان کے کھانے پینے کے لۓ چراگاہ کا بندو بست کیاجاسکے۔ ۔ ۔،
ساتھ ہی اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ کمیٹی اگلے تین دن کے اندرجنگل کی آبادی میں اس قدر تیزی سے ہونے والی کمی کی وجو ہات اور اپنی سفارشات اگلے تین دن میں پیش کرے۔ ۔ ۔
کام شروع کردیا گیا گھر گھر جا کر گھاس خور جانوروں سے درندوں کے بارے میں ان کے تحفظات پوچھے گۓ غرض کوئی بھی گھاس خور جانور ایسا نہ تھا جس نے کمیٹی کے سامنے درندوں کی برائی نہ کی ہو یا ان کو برا بھلا نہ کہا ہو یا ان کے ظلم اور دھونس کے خلاف جھولی اٹھا اٹھا کر بددعائیں نہ دی ہوں۔ ۔ ۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ کمیٹی نے جس جانور کے دروازے پر بھی دستک دے کر اس سے درندوں گھاس خوروں کے ساتھ اجتماعی روئیے پر تبصرہ مانگا تو ہر جانور نے صرف اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال پر ہونے والے ظلم جبر کا رونا رویا اور اپنے ہمساۓ پر ہونے والے ظلم پر تبصرہ کرنا تو بہت دور اپنی کمیونٹی کے کسی فرد کے حق میں تبصرہ کرنے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ کسی بھی قسم کی محتاط راۓ دینے سے بھی گریز کیا۔ ۔ ۔
کمیٹی کو دی گئ تین دن کی مہلت پوری ہو گئ سب ممبران نے اپنے جمع شدہ شکوے شکایتوں کے انبار ترتیب لگاۓ جن میں گھاس خوروں کے تبصروں میں موجود مبالغہ آرائی، مگر مچھ کے آنسوؤں سے لتھڑے الفاظ، خود غرضی کی ذلت میں گندھے ہوۓ بے بنیاد الزامات، ریاکاری کے شفاف خول میں بہاۓ گۓ ٹسوے، اور انا پرستی، برادری ازم، اقرباء پروری کے کاٹھ کباڑوں کی چھانٹی کرتے کراتے رات کا پچھلا پہر شروع ہوگیا۔ ۔ ۔
لیکن خدا خدا کرکے کمیٹی کی” گھاس خورں کی آبادی میں کمی کی وجوہات” پر بنائی گئی رپورٹ اپنے انجام کو پہنچی۔ ۔ ۔
جس کے بعد اب کمیٹی کو "گھاس خوروں کے حقوق کے تحفظ” پر اپنی سفارشات کی رپورٹ کی رپورٹ مرتب کرنا تھی۔ ۔
جس کو بنانے میں کمیٹی کے ارکان میں شامل "دور اندیش ریچھ”، "بصیرت افروز چیتے”، "ذہانت اور عقل مندی میں اپنا کوئی ثانی نہ رکھنے والے بھیڑیۓ” کو گھاس خوروں کی آپس کی خود غرضی اور نااتفاقی سے جنم لینے والی سماجی برائیوں اور اخلاقی پستی کے بلند وبالا معیار طے کرنے والوں کو شناخت کرنے اور ان سے جنگل کے اصول پسند ماحول کو پہنچنے والے ناقابل تلافی نقصان کو بھانپ لینے میں ذرا دیر نہ لگی۔ ۔ ۔
اسی کشمکش اوربحث مباحثےکا شور سن کر اچانک سے سورج نے نیند میں بڑبڑاتے ہوۓ آنکھیں کھولیں تو کیا دیکھتا ہے کہ جنگل میں حشر کا سا سماں ہے شیر انتہائی غصے میں سب جانوروں کو ایسے گھورے جارہا ہے کہ جیسے ابھی ایک ہی جست لگا کرسب کو چیر پھاڑ کے رکھ دے گا۔ ۔ ۔
ہر جانور شیر کو اس حالت میں دیکھ کر تھر تھر کانپ رہا تھا۔ ۔ ۔
اتنے میں گیدڑ نے کمیٹی کی سفارشات پڑھ کے سنانے کی اجازت چاہی تو شیر نے نظروں کے اشارے سے اجازت دے دی۔ ۔ ۔
کمیٹی کی سفارشات کچھ یوں تھیں :
1- جنگل کے سنہری اصولوں کے مطابق جب تک گھاس خور آپس کی چپقلش، ذاتی عناد، بغض، حسد، کینہ، دوسرے کو تکلیف میں دیکھ کر اس کا درد بانٹے کی بجاۓ اس پر طنز کرنا یا ہسنا یا اس کی تکلیف اور کمزوری کو اپنے ذاتی فائدے کے لۓ استعمال کرنا، خود غرضی، ظلم ہوتے دیکھ کر اس کے خلاف آواز اٹھانے کی بجاۓ اپنی پناہ گاہ میں چھپ جانا، جیسی بیماریوں سے خود کو پاک نہیں کر لیتے تب تک ان کی آبادی معدوم ہونے کا خطرہ منڈلاتا رہے گا۔ کیونکہ جب تک انھیں خود اپنے حقوق کا تحفظ کرنے کا ادراک نہیں ہوگا، یہ کبھی بھی اپنی آبادی کو معدومیت کے خطرے سے نہیں بچاسکتے اور ہمیشہ کی طرح درندوں کی ضیافت بنتے رہیں گے۔ ۔ ۔
2۔ رضاکارانہ طور پرشکار کا سامان بن جانے والے نہتے گھاس خوروں کے لئے بھی انسانوں کے ہاں رائج اعزازات کی طرز پر خصوصی آشیرباد مختص کی جاۓ جس متاثرہ خاندان کے ایک فرد کو رضاکاروں کی خصوصی فوج میں ملازمت کا دیا جانا، تاعمر جان کی امان، اور دیگر گنی چنی مراعات دی جائیں تاکہ اس گھاس خور کی وفاداری سستے داموں خریدی جا سکے۔ ۔ ۔
3۔ ایسے گھاس خور جو درندوں کے شکار کرنے کے اوقات میں اپنی پناہ گاہ سے باہر ہوں گے وہ یا انکے خاندان اپنے ساتھ پیش آنے والے کسی بھی ناگہانی واقع کے خود ذمہ دار ہونگے اور وہ اپنے ساتھ ہونیوانے ظلم کے خلاف جنگل کی کسی بھی عدالت میں دعوی دائر کرنے کے حق دار بھی نہیں ہونگے۔ حوالے کے طور پر اشرف المخلوقات کی بستی میں ایسی ہی غلطی پرموٹروے پر ایک عورت اور اس کے بچوں کا درندوں نے جو حشر کیا اسے دیکھ کر گھاس خور عبرت حاصل کرسکتے ہیں۔ ۔ ۔
4- شیر کے خاص مصاحبوں کو جنگل کے ہر اس قانون کی پاسداری سے استشنی حاصل ہوگا جو اخلاقیات کے زمرے میں آتا ہو۔ ۔ ۔نیز یہاں انکو اس ہرکارے کا خون بھی معاف ہوگا جو ان سے قانون کی پاسداری کروائے گا۔ ۔ ۔ ۔ حوالہ کے طور پر اشرف المخلوقات کے ہاں اسی غلطی کی پاداش میں ایک ایم پی اے کے ہاتھوں ٹریفک پولیس کانسٹبل کو گاڑی تلے روندے جانیواے واقع سے سبق سیکھا جا سکتا ہے۔ ۔ ۔
الغرض، کمیٹی نے ایسی درجنوں سفارشات سنا ڈالیں جو انسانی معاشروں میں اکثر و بیشتر عملی صورت میں رائج نظر آتی تھیں۔ ۔ ۔
جنھیں سن کر اب تک گھاس خوروں میں ایک سنسنی دوڑ چکی تھی اور ان میں سے اکثر آپس میں یہ سرگوشی کرتے نظر آئے کہ "یہ اصل میں ان کو ان کی جان کے تحفظ کی ضمانت کے روپ میں درجہ بدرجہ انسان بنانے کی ہی ایک سازش ہے۔ ۔ ۔”
کیونکہ گھاس خوروں کے نزدیک انسان اپنی حیوانیت اور خود غرضی کے جنون میں جنگل کے درندوں کو بھی پیچھے چھوڑ چکا ہے۔ ۔ ۔
ابھی جنگل کے سناٹے میں پتوں کی سرسراہٹ کی طرح ہونیوالی گھاس خوروں کی سرگوشیاں جاری ہی تھیں کہ شیر تمام خاموشیوں کے حصار توڑتا ہوا اپنے پورے جاہ جلال سے دھاڑتے ہوئے اٹھ کھڑا ہوا اور اپنے دائیں پنجے کے ناخن چٹان پہ رگڑکر انھیں تیز کرتے ہوۓ سب ہم نشینوں سے یوں گویا ہوا:
” میں اس جنگل کو اس کی اصل شکل میں ہی بحال رکھنا چاہتا ہوں۔ ۔ ۔
جہاں شیرنی ہرن کے بچے کو پالنے کا ظرف رکھتی ہے۔ ۔ ۔،
جہاں درندے اخلاق سے گر کر "درندے” کے منصب سے ہاتھ نہیں دھونا چاہتے۔ ۔ ۔ ۔
جہاں خونخوار جانور نہتے بچوں پہ حملہ آور نہیں ہوتے۔ ۔ ۔
جہاں معمولی اختلاف کو بنیاد بناکر پناہ گاہیں اور انکے مکین جلائے نہیں جاتے۔ ۔ ۔
جہاں الفت کے تقاضے ہوس کے روپ میں نبھائے نہیں جاتے۔ ۔ ۔
جہاں اختلاف عناد نہیں بنتا۔ ۔ ۔
جہاں بھیڑئے کوشکار کے لۓ پارسائی کا روپ نہیں دھارنا پڑتا۔ ۔ ۔
جہاں رنگ، نسل، مالی حیثیت کی بنیاد پر درجہ بندی نہیں کی جاتی۔ ۔ ۔
جہاں نہ تو آنے والے کل کے لئے کچھ بچا کے رکھا جاتا ہے اور نہ ہی گزرےہوئے کل کی کسی محرومی پر پہ کوئی سوگ منایا جاتا ہے
جہاں توکل ذریعۂ رزق ہے
جہاں اپنی نسلوں کو ایک دوسرے سے آگے نکلنا، جیتنا یا مقابلہ کرنے کی بجاۓ مل جل کر اتفاق سے اپنے حدف تک پہنچنا سکھایا جاتا ہے
جہاں خود غرضی محض پیٹ کی بھوک تک محدود ہے
جہاں درندے اپنی درندگی کو کبھی شرمندہ نہیں ہونے دیتے۔ ۔ ۔
لیکن تف ہے اس حضرت انسان پر، جس سے انسانیت شرمندہ ہے۔ ۔ ۔”
لہذا یہ جنگل، جنگل کے اصولوں پر جنگل ہی رہےگا۔ ۔ ۔”