افسانہ … نماز
رئیس احمد کمار
بری گام قاضی گنڈ
اسکی عمر لگ بھگ چالیس پنتالیس سال تھی ۔ رنگ گورا اور صحت مند دکھتا تھا ۔ صفائی ستھرائی اور اپنے صحت وغیرہ کا بھی خاص خیال رکھتا تھا ۔ سردیوں میں وہ اکثر گرمی کرنے کے لئے مقامی مسجد کے حمام میں دو تین گھنٹے گزارتا تھا ۔ لیکن نماز ادا کئے بغیر ہی وہ واپس گھر لوٹتا تھا ۔ نماز نہ پڑھنا اسکا ہمیشہ کا معمول تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باقی لوگ جو حمام میں بھی قیام کرتے تھے اور نماز بھی ادا کرتے تھے اکثر اسکو نماز کی تلقین کرتے تھے۔ کئی بار تبلیغی جماعت سے جڑے افراد نے بھی اسکو نماز ادا کرنے کے لئے کہا لیکن وہ کبھی بھی ٹس سے مس نہیں ہوا ۔۔۔۔۔۔۔
ایک دن حمام میں لوگوں کا زیادہ ہی مجموعہ تھا اور مجموعے میں وہ بھی شامل تھا ۔ سب لوگوں نے اسکو نماز ادا کرنے کے لئے کہا اور مختلف طریقوں سے منانے کی کوشش کی لیکن اس نے ایک کی بھی نہیں سنی ۔۔۔۔۔۔۔۔
جب سوالات کی بوچھاڑ اس پر کی گئی تو وہ جواب دینے پر اتر آیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کس قسم کی نماز آپ لوگ ادا کرتے ہو ۔ یہ وادی کشمیر ریشیوں اور ولیوں کا مسکن رہا ہے ۔ یہاں اوراد فتحییہ اور دیگر ازکار ہر نماز کے بعد پڑھنا ان اللہ کے نیک بندوں کا معمول رہا ہے ۔ ان ہی کی وسالت سے ہم یہاں مختلف قسم کے بلائیںوں اور پریشانیوں سے نجات پاتے آئے ہیں ۔ آپ لوگ نماز میں سلام پھرتے ہی گھر کی طرف لوٹتے ہو ۔ یہ کون سی نماز ہے جو آپ لوگ ادا کرتے ہو ۔ میں ایسی نماز کبھی بھی نہیں ادا کروں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔
لوگوں میں موجود علی بب جو مسجد کمیٹی کا ممبر بھی ہے واپس کہنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔
چلو آج سے ہم اوراد فتحیہ اور باقی ازکار کا اہتمام بھی نمازوں کے بعد کریں گے ۔ کیا اب آپ پھر نماز ادا کرو گے ۔۔۔۔۔۔
ہاں مجھے کیا حرج ہے پھر ۔ میں نماز ضرور پڑھوں گا اگر اوراد فتحیہ ، درود سلام اور ختمات وغیرہ کا اہتمام مسجد میں نمازوں کے بعد کیا جائے ۔۔۔۔۔
اسی دن سے اس نے نماز پنجگانہ کا ادا کرنا باقاعدگی کے ساتھ شروع کیا اور محلے کے بے نمازیوں میں شمار نہیں کیا جانے لگا ۔۔۔
افسانچہ… بیوہ
رئیس احمد کمار
بری گام قاضی گنڈ
شوہر کی وفات کے موقعے پر ہر کوئی شخص جو تعزیت پرسی کےلئے آتا تھا فریدہ کو اپنی طرف سے نصیحت کرتا تھا کہ کس طرح اب بیٹوں اور بیٹیوں کی کفالت اور تعلیم و تربیت اچھی ڑھنگ سے کرنی ہے ۔ فریدہ کمرے کے ایک کونے میں غمزدہ لمحات گزارتے ہوئے ہر کسی کی نصیحت اور رائے بغور سن رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تعزیت اور ماتمی لمحات گزرنے کے بعد فریدہ نے لوگوں کی نصیحتوں کو عملی جامہ پہنانے کی ہر ممکن کوشش کی ۔ چار بیٹوں اور دو بیٹیوں کی کفالت اور تعلیم و تربیت ایک بہادر مرد کی طرح انجام دی ۔ چاروں بیٹے اچھی تعلیم پاکر سرکاری نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ بیٹیوں کو اچھی تربیت دے کر انکی شادی بھی اچھے گھرانوں میں کرائی ۔ اب ہر کوئی رشک کرنے لگا کہ ایک کمزور عورت نے شوہر کے پیچھے چھوڑے ہوئے چھ یتیم بچوں کی کفالت اور تعلیم و تربیت کیسے فریدہ نے ممکن بنایا ۔ کیونکہ جو لوگ تعزیت پرسی پر فریدہ کو اپنی رائے دیتے تھے ان سب کے بچے اپنے دونوں ماں باپ کے ہوتے ہوئے بھی زندگی میں اتنے کامیاب نہ ہوئے بلکہ محلے میں ایک بیوہ عورت نے یتیم بچوں کو زندگی میں کامیاب بنانے کے لئے جس طرح انکی کفالت اور تعلیم و تربیت کی وہ ایک مثال بن گئی تھی ۔ اب وہ نصیحت کرنے والے لوگ فریدہ سے اپنے بچوں کے مستقبل سنوارنے کے لئے رائے طلب کررہے ہیں ۔۔۔۔۔
راقم ایک کالم نویس ہونے کے علاوہ گورمنٹ ہائی اسکول اندرون گاندربل میں اپنے فرائض بحست ایک استاد انجام دیتا ہے ۔