رئیس احمد کمار
بری گام قاضی گنڈ
وہ صبح سے شام تک فون پہ لگی رہتی تھی ۔ میکے والوں سے گھنٹوں فون پر گفتگو کرنے کے بعد کسی دوسرے رشتہ دار کا نمبر ملاکر انکا حال پوچھتی تھی ۔ کھانا اور سبزی پکاتے ہوئے بھی وہ کسی نہ کسی سہیلی یا رشتے سے جڑی عورت کے ساتھ بات کرتی رہتی تھی ۔۔.
ایک دن اسکے شوہر ذاکر کو دفتر جانے میں دیر لگ گئی ۔ وہ جرابہ ڈھونڈتا ہے تو کہیں سے نہیں مل پا رہا ہے ۔ اپنی بیوی شمشادہ کو آواز دی تو وہ اس وقت بھی فون پر کسی عورت کے ساتھ بات کرتی تھی ۔۔۔
۔۔۔ کیا پاگل عورت ہو تم ۔ صبح سے شام تک صرف فون پر لگی رہتی ہو ۔ کیا تمہارے کان اتنے سخت ہیں ۔ کسی چیز کا خیال ہی نہیں ہے تم کو ۔ صرف فون کرتی رہتی ہو ۔ مجھے دفتر جانے میں اتنا دیر ہوا ہے ۔ اسکا خیال ہی نہیں ہے تمہیں ۔۔۔۔۔
شمشادہ کو اپنے شوہر ذاکر کی باتیں بہت ناگوار گزریں ۔ شرارت سے اس نے اپنے فون کو سوئچ آف رکھا ۔ وہ کسی سے اب فون پر بات ہی نہیں کرتی۔۔۔
دونوں میاں بیوی اپنے بچوں کے ساتھ صبح کا کھانا کھا رہے ہیں تو دوڑتے دوڑتے شمشادہ کا بھائی اور اسکے ساتھ اسکا دوست یہ خبر بتاتے ہوئے باورچی خانے میں داخل ہوا ۔۔۔
۔۔۔ کل صبح سے ہم نے تمہارے نمبر پر سینکڑوں بار کال کی لیکن ہر بار وہ سوئچ آف آ رہا ہے ۔ کم سے کم فون تو کبھی اٹھایا کرو ۔۔.
کیوں ۔ کیا بات ہے ۔ سب کچھ ٹھیک ٹھاک تو نہیں ہے ؟ ۔۔۔۔
کل سے ابا جان بہت بیمار تھا ۔ ہسپتال میں ایڈمٹ کرنا پڑا ۔ اسکو اچانک بلڑ پریشر زیادہ ہوا ۔ ہم نے اسی لئے تمہارا نمبر ملایا تھا تاکہ آپ باپ سے آخری ملاقات کریں ۔ اب جلدی کرو اسکو دفن کرنا ہے ۔ ہم سب آپ کا ہی انتظار کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔
شمشادہ اور اسکے شوہر ذاکر کو اب سمجھ ہی نہیں آ رہا ہے کہ کیا کریں ۔۔
خودکشی
گھر کے باقی افراد ، ہمسایہ اور رشتے دار سب پریشان تھے کہ آخر سرتاج احمد کی خودکشی کی کیا وجہ تھی ۔۔۔۔۔۔
کوئی ایک وجہ بیان کرتا تھا تو کوئی دوسرا وجہ اسکی خودکشی کا ظاہر کرتا تھا ۔ آخر ایک دن سرتاج احمد کا چچا اسکے ایک قریبی دوست سے ہسپتال میں ملا ۔ اسکی ماں وہاں ایڈمٹ تھی اور سرتاج احمد کے چچا کو وہاں یو ایس جی کرنا تھا۔ سرتاج احمد کے چچا نے اسکے دوست سے خودکشی کی وجہ معلوم کرنا مناسب سمجھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب دوست سے خودکشی کی وجہ پوچھی گئی تو سرتاج کا چچا جواب سن کر ڈھنگ رہ گیا ۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔ سرتاج احمد مجھ سے ہر روز اپنی بے بسی کی داستان بیان کرتا تھا ۔ سرتاج گھر کا واحد آمدنی کا ذریعہ تھا ۔ اپنے والدین اور بھائی بہنوں کی کفالت میں کوئی کوتاہی تو نہیں برت رہا تھا لیکن پھر بھی اسکا باپ ہمسایوں اور رشتے داروں میں اپنے دوسرے بیٹے عمران کی تعریفیں کھل کر کرتا تھا ۔ عمران نہ کوئی گھر کا کام کرتا تھا نہ اسکو یہ احساس تھا کہ مجھے زندگی میں آگے جانے کےلئے کوئی کام کرنا ہے تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ میں بے کار اور ویران ہوں۔ لیکن باپ کی نظروں میں عمران ہی گھر کا مالک جیسا تھا ۔۔۔۔۔۔۔
سرتاج احمد کی اس مخلصانہ اور ایماندارانہ فعل کی گھر میں خاص کر اسکے باپ کے سامنے کچھ قدرو قیمت نہ تھی ۔ گھر کے سب افراد سرتاج احمد سے سوتیلا سلوک اختیار کرتے تھے ۔ اسکی بنیادی وجہ اسکے باپ اور اسکی بیوی کے درمیان ناخوشگوار تعلقات تھے ۔۔۔
بہت بار سرتاج احمد نے مجھ سے کہا کہ میں اب کوئی سخت قدم اٹھانا چاہتا ہوں لیکن ہر بار میں نے نصیحت کی ۔ اس بار نصیحت کا کچھ اثر ہی نہ ہوا اور وہ خودکشی کر بیٹھا ۔۔۔
راقم ایک کالم نویس ہونے کے علاوہ گورمنٹ ہائی اسکول اندرون گاندربل میں اپنے فرائض بحست ایک استاد انجام دیتا ہے.