الف عاجز ایِثار
کلسٹر یونیورسٹی سرینگر
سنو مسکان بیٹی کا فون آیا؟ کب آرہی ہے وہ، کچھ بتایا اُس نے کتنے بجے کی فلائٹ ہیں؟ مجیب نے اپنی بیوی رضیہ سے پوچھا جی بس پہنچتی ہی ہوگی آپ فکر نہ کریں۔ بیوی نے جواب دیا۔
ویسے پاپا آج آپ بڑے خوش نظر آرہے ہیں میرا تو کبھی آپ نے ایسی بے قراری سے انتظار نہیں کیا ہے جیسے مسکان آپی کا کر رہے ہیں ،مسکان کی چھوٹی بہن رمشہ نے اپنے باپ کو چھیڑتے ہوئے کہا۔
نہیں بیٹا بات ہی کچھ ایسی ہیں آج مسکان بیٹی ریاضی میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری مکمل کر کے آرہی ہیں کوئی معمولی بات تھوڑی ہے۔ آج میں بہت خوش ہوں، دیکھنا اب کتنی دھوم دھام سے اور کتنے بڑے گھرانے میں اُس کی شادی کروں گا مجیب نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے جواب دیا۔
کیوں نہ ہوگی بڑے گھر میں شادی آخر میری بیٹی اتنی خوبصورت اور اتنی پڑھی لکھی ہے ، اُس کو تھوڑی کوئی ریجکٹ کریں گا ۔ مسکان کی ماں جزباتی ہوکر بولی۔
اتنے میں دروازے سے آواز آئی بابا، بابا، میں آگئی ہوں، کہاں ہیں آپ سب۔۔۔۔۔ مسکان گھر پہنچ گئی تو سب نے گرم جوشی سے اُس کا استقبال کیا۔ گھر میں جوش و خروش کا ماحول گرم ہونے لگا ، رشتہ داروں کی آمد ہونے لگی ، تقریبیں ہونے لگی، سب مبارک بادیں دینے لگے ، سب بہت خوش تھے اور مسکان کے والدین تو خوشی میں جھوم رہے تھے کہ بیٹی نام روشن کر کے آئی ہے۔ یہ سلسلہ کئی دنوں تک یوں ہی چلتا رہا۔
مسکان کے والدین کو اب اُس کی شادی کی فکر ستانے لگی اور مسکان کو دیکھنے کے لئے ایک فیملی آئی اور کھانے پینے کے بعد لڑکے کی ماں نے مسکان سے ایک ہی سانس میں کئی سارے سوالات کر ڈالے اور آخر پر کہا بیٹا ذرا اپنے ہاتھ کی چائے تو پلاؤ تاکہ پتا تو چلے ماں باپ نے صرف پڑھایا لکھایا ہیں یا گھر گرہستی بھی سکھائی ہیں۔۔۔۔۔۔
کچھ دن بعد جواب آیا کہ ہمیں لڑکی پسند نہیں آئی وہ صرف ہوں ہاں میں جواب دے رہی تھی اور کسی کو نظر اٹھا کر دیکھا تک نہیں، کیا پتہ لڑکی گونگی ہو یا پھر اُس کی آنکھوں میں کچھ نقص ہو، نا بابا ہمیں نہیں چاہیں ایسی لڑکی اور زندگی میں پہلی بار تھا کہ مسکان ریجکٹ ہوئی، اس سب سے وہ بہت مایوس ہوئی لیکن ماں نے حوصلہ دیا اور مسکان کو سمجھایا کہ بیٹا پوری دنیا میں صرف یہی ایک گھرانہ تو نہیں تھا جو تم اتنی مایوس ہو رہی ہو، تم ما شاء اللہ سے اتنی پڑھی لکھی اتنی ذہین ہو تمہیں تو ہزاروں لڑکے مل جائیں گے ہمارے معاشرے میں لڑکوں کی کمی ہے کیا چھوڑو وہ تمہارے لائق ہی نہیں تھا۔ ماں کے سمجھانے پر مسکان اپنی معمولات زندگی میں پھر سے مگن ہو گئی۔
مسکان نے اپنی زندگی میں آگے بڑھنے کا پکا ارادہ کر لیا اور اُس نے ریاضی کے پروفیسر کی حیثیت سے کالج جوائن کیا۔ مسکان چونکہ پہلے سے ذہین تھی اور اپنی ذہانت اور خوش خلقی کی وجہ سے وہ کچھ ہی دنوں میں پورے کالج میں مشہور ہوئی، یہاں تک کہ ہر ایک شاگرد کی اب یہی کوشش رہتی تھی کہ اُس کو مسکان کے پاس پڑھنے کا موقع ملے، ہر ایک شاگرد اس سے فیضیاب ہونے کی تلاش میں رہتا تھا۔ اپنے شاگردوں کی طرف مسکان کا رویہ بھی قابلِ داد تھا وہ ہر ایک سے محبت کے ساتھ پیش آتی تھی اور سب کی مدد کے لئے ہمیشہ تیار رہتی تھی۔ اُس نے بہت نام کمایا وہ صرف اپنے شاگردوں میں ہی نہیں بلکہ اپنے ہمکاروں میں بھی کافی مشہور ہونے لگی۔
اس کے بعد ایک اور بار مسکان کو دیکھنے کے لئے ایک فیملی آئی۔ مسکان چائے لے کر آئی اور مہمانوں کے سامنے رکھ دی تو لڑکے کی ماں نے مسکان سے کہا بیٹا چل کر تو دکھاؤ اور ہاں کچھ بولو بھی ہم بھی تو دیکھے چال ڈھال، بول چال کیسا ہیں آخر بہو بننے جارہی ہو ہمارے گھر کی۔ لیکن یہاں بھی مسکان کو ریجکٹ کیا گیا کہ اُس کو مہمان نوازی نہیں آتی، اُس نے مہمانوں کو ہاتھ میں چائے نہیں پکڑائی۔ لیکن اس بار اس سب کی وجہ سے مسکان کو کوئی خاص فرق نہیں پڑا اور وہ درس و تدرس میں مصروف ہوگئی۔
اس کے بعد سات آٹھ سال تک یہ معمول چلتا رہا کوئی مسکان کو چل کر دکھانے کی فرمائش کرتا تو کوئی مسکان کے ہاتھ کی چائے پینے کی فرمائش کرتا وغیرہ وغیرہ۔
لیکن مسکان کو اب اس سب سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا، کون آتا تھا، کون جاتا تھا وہ اس سب کی طرف زیادہ دھیان نہیں دے رہی تھی اس نے یہ بات اپنی ذہن سے نکال دی تھی، اُس کو اب اگر کسی چیز سے لگاؤ تھا تو وہ اُس کا کام تھا اور وہ اپنے کام سے بہت مسرور ہوتی تھی ، اُس کے لئے اب اُس کا کام ہی سب کچھ تھا۔۔۔۔۔۔
آج پھر سے مسکان کو دیکھنے کے لئے لڑکے والے آرہے ہیں۔
دیکھیں ہمیں آپ کی بیٹی پسند تو آئی ہیں لیکن اِس کی عُمر بہت زیادہ ہیں اگر آپ کہیں تو ہمارے بڑے بیٹے کے لئے اِس کو دے دیجیے اُس کی عُمر چالیس سال ہیں اور وہ دوکانداری کرتا ہیں۔۔۔۔۔۔
یہ سب سُن کر مسکان کے پیروں تلے زمین نکل گئی اور وہ سارا دن ماں کے سینے سے یہ کہتے ہوئے روتی رہی، امی جان لوگوں کے معیار تک آتے آتے ہی تو میری عُمر ہوئی ہے اب اِس میں میرا کیا قصور ہے ؟
مسکان کے ذہن پر اِس بات نے بہت بُرا اثر چھوڑا ، ہزاروں سوال تھے اُس کے ذہن میں اور جواب کچھ بھی نہیں۔۔۔۔ اب خود سے زیادہ مسکان کو اپنی بہن کی فکر ستائیں جا رہی تھی ، وہ ڈر رہی تھی کہیں اُس کی بہن کے ساتھ بھی ایسا ہی کچھ نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔
رمشہ کمرے میں داخل ہوئی تو اُس نے دیکھا مسکان بے ہوش پڑی ہے اوراُس کے ہاتھ میں خالی بوتل تھی تو وہ چلائی امی، امی جان، بابا دیکھیں مسکان آپی کو کیا ہوا، آپی اُٹھیں کیا ہوا ہے آپ کو آپی۔۔۔۔۔۔۔۔ مسکان کے والدین گبھرائے ہوئے کمرے میں داخل ہوئے اور اپنی بیٹی کو اُٹھانے کی لاکھ کوشش کی لیکن سب بے کار۔۔۔۔۔۔۔ رمشہ کی نظر مسکان کے سرہانے پر پڑے ہوئے ایک نوٹ کی طرف پڑی جس میں لکھا تھا۔۔۔۔۔
بابا میرے پیارے بابا مجھے معاف کیجئے گا آج پہلی بار آپ کو بنا بتائیں جارہی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بابا میری عُمر اب بہت زیادہ ہوچکی ہیں اب میں اس دنیا کے لائق نہیں رہی اور لوگوں کے معیار تک آتے آتے میں نے اپنی پوری جوانی گنوا دی اور مجھے یہ غم کھائے جارہا ہے کہ کہیں میری وجہ سے رمشہ کی عُمر بھی نہ نکل جائیں کیونکہ میں اُس کے راستے کی رکاوٹ بنی ہوئی ہوں۔۔۔۔۔۔۔
بابا آپ مجھے اِس سے آگے بھی پڑھاتے نا تب بھی میں ریجکٹ ہی ہوتی کیونکہ بابا میں لڑکی ہوں اور کبھی کسی کے معیار پر کھری نہیں اُتر سکتیں سوائے آپ اور امی جان کے۔۔۔۔۔۔۔ اِسی لئے بابا میں جارہی ہوں کیونکہ اگر میں نہیں گئی نا تو رمشہ بھی آپ کے دہلیز پر ہی پڑی رہے گئی ، میرا جانا ضروری ہیں بابا۔۔۔۔۔۔میرا جانا ضروری ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دنیا کی ٹُھکرائی ہوئی اور آپ کی لاڈلی مسکان۔ "