رئیس احمد کمار
بری گام قاضی گنڈ
باپ کے وصال کے موقعے پر تینوں بھائی غمزدہ لمحات گزارتے ہوئے ایک الگ کونے میں لوگوں کی باتیں جو تعزیت پرسی کےلئے آرہے تھے بغور سنتے تھے ۔ انکا باپ ایک غریب اور مفلس آدمی تھا ۔ کافی محنت و مشقت کرتے ہوئے وہ گھر کی کفالت کرتا تھا ۔ کافی عرصہ تک بیمار رہنے کی وجہ سے گھر کی حالت کافی بگڑی تھی ۔ وہ نہ نیا مکان اپنے بچوں کے لئے بنا سکا نہ ہی کسی اور قسم کی ترقی کر پایا ۔۔۔۔۔
تعزیت پرسی کرنے جو لوگ آتے تھے وہ بجائے ان بھائیوں کو حوصلہ و ہمت دیں ، صرف یہ باتیں دوہرا رہے تھے کہ انہوں نے کچھ حاصل ہی نہیں کیا ہے ۔ نہ کوئی اچھا سا مکان بنایا ہے اور نہ ہی گھر میں کوئی سہولت رکھی ہے ۔ زندگی انہوں نے صرف گھومنے پھیرنے میں ہی صرف کی ہے ۔ اگر زندگی میں کچھ کمایا ہوتا تو یہاں ایک شاندار مکان اور ہر قسم کی سہولیت موجود ہوتی ۔ انہوں نے کچھ حاصل ہی نہیں کیا ہے ۔ یہاں آکر انسان دکھی ہو جاتا ہے ۔۔۔۔۔
بیچارے تینوں بھائی کسی کو بھی واپس جواب نہیں دے پا رہے ہیں بلکہ پشیمانی کی حالت میں یہ مصیبت کے لمحات گزار رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔
رات کے بارہ بجے ہیں ۔ محلے کے سبھی لوگ اپنے اپنے بستروں میں سوئے ہوئے تھے ۔ اچانک زوردار زلزلوں کے کئی جھٹکے محسوس کئے گئے ۔ محلے کی پوری بستی تباہ و برباد ہو گئی ۔ عالیشان بنگلے، امیر لوگوں کی حویلیاں اور مظبوط مکان منٹوں میں زمین بھوس ہوئے ۔ لوگوں کے لئے یہ قیامت سے کم نہ گزرا ۔ اپنا نقصان دیکھ کر کئی اشخاص کی جانیں دل کا دورہ پڑنے سے چلی گئیں ۔۔۔۔۔
محلے کی مسجد کمیٹی نے توبہ استغفار کی مجلس کا انعقاد کیا ہے ۔ سبھی لوگ امیر ، غریب، ملازم اور مزدور مسجد کی طرف دوڑ رہے ہیں ۔ تینوں بھائی بھی مجلس میں شرکت کرنے کی غرض سے مسجد کی طرف جارہے ہیں ۔۔۔۔۔۔
راستے میں جو بھی شخص ان سے ملتا ہے یہ کہتے ہوئے چلا جاتا ہے۔۔۔۔۔
” آج ہم لوگ آپ سے بدتر ہوئے ہیں ۔ آج آپ اور ہم میں واقعی کوئی فرق نہ رہا ۔ ہمارا سارا کمایا ہوا جائداد ، عالیشان بنائے ہوئے بنگلے منٹوں میں تباہ ہوئے ۔ کبھی بھی اپنی جسمانی طاقت اور دولت وغیرہ پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ غربت ، بیماری اور مصیبت آنے میں دیر نہیں لگتی ہے "۔۔۔۔
راقم ایک کالم نویس ہونے کے علاوہ گورمنٹ ہائی اسکول اندرون گاندربل میں اپنے فرائض بحست ایک استاد انجام دیتا ہے .