تحریر: شوکت ثاقؔب پوشپوری
صدر کلچرل فورم کپوارہ کشمیر
اللہ پاک کا جتنا بھی شُکر ادا کروں بہت کم ہے۔اس اللہ پاک کا جس نے مجھے ایک ہردلعزیز استاد، دوست اور بھائی عطا کیا ہے۔وہ بھی جناب اشہر اشرف صاحب کی صورت میں۔مجھے ان پر فخر محسوس ہوتا ہے۔اشہر صاحب ایسے انسان ہیں جنہوں نے کبھی کسی کی حوصلہ شکنی نہیں کی۔ یہی وجہ ہے کہ سوشل میڈیا سے لے کر عام زندگی تک ان کے سینکڑوں شاگرد ہیں ۔جن میں راقم بھی شامل ہے۔ موصوف کے سینے میں ایک شفیق و سلیم دل دھڑکتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی معلوم یا نا معلوم فرد انہیں اپنے کلام کی اصلاح کے لیے کہتا ہے تو وہ بہت حلیم لہجے اور شرین گفتاری کے ساتھ اس کو حوصلہ دیتے ہوئے اس کے کلام کی اصلاح فرماتے ہیں ۔انہوں نے کبھی کسی کو نظر انداز نہیں کیا ۔
اگر کسی مبتدی کا کلام عروض کی خامیوں کے ساتھ ساتھ خیال اور مضمون کے اعتبار سے بھی پست ہو، تب بھی وہ پیار اور محبت سے سمجھاتے ہیں۔تنقید برائے تعمیر ان کا طرہء امتیاز ہے ۔ حقیقت میں اشہر صاحب جیسے لوگ اس دنیا میں بہت کم ملتے ہیں۔
یہ میری زاتی رائے ہے کہ ان کے بارے میں جتنا بھی لکھا جائے کم ہے۔ چاہے ان کے کلام کی خوبصورتی اور مقصدیت کے حوالے سے یا پھر شخصیت کے حوالے سے۔
یہ اکتوبر ۔نومبر ٢٠٢٠ ء کی بات ہے جب پہلی بار مجھے فیس بک پر جناب اشہر اشرف صاحب کے کلام کو دیکھنے کا موقع ملا ۔ جب میں نے ان کا کلام بار بار پڑھا اور سمجھنے کی کوشش کی تو میں بہت متاثر ہوا۔ میں نے جب ان کے پوسٹ پر کمنٹس دیکھے تو دل نے مجھے بہت مجبور کیا کہ ان سے رابطہ کروں۔
اشہر صاحب مجھے بہت ہمدرد، ملنسار، خوش فہم،شریں گفتار محسوس ہوئے۔ جب انہیں قریب سے دیکھنے کا موقع ملا تو ان کی یہ سب خوبیاں مجھ پر واضح ہو گئیں۔
وہ نہ صرف ایک قادر الکلام شاعر ہیں بلکہ ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک بھی ہیں۔ ان سے مل کر میں یہی سمجھتا ہوں کہ میری برسوں مانگی دعائیں قبول ہوگئی ہیں ۔
ایک دن میں نے انہیں فیس بک ان باکس میں مسیج کیا اور سوچا کہ میں ان کا رویہ دیکھتا ہوں ،،،کیا کچھ کہیں گے۔۔دل پر پتھر رکھ کر ان کو مسیج کیا اور یہ بھی ڈر تھا کہ اگر انہوں نےغصہ کیا یا دوسرے شعراء کی طرح مجھے نظرانداز یا حوصلہ شکنی کی تو میرا کیا ہو گامس ۔۔مگر میرا مصمم ارادہ تھا کہ ان سے بات کر کے تو دیکھوں۔
اشہر صاحب سے رابطہ کرنے سے پہلے کچھ شعراء سے میرا سابقہ پڑا تھا۔ کچھ شعراء اردو شاعری میں میری مدد کرتے رہتے تھے مگر جنتا زیادہ جناب اشہر اشرف صاحب اور جناب اسرار امین صاحب کرتے رہے وہ زندگی بھر نہیں بھولوں گا۔یہ ان کا مجھ پر سب سے بڑا احسان ہے۔محترم بلال قاصر صاحب کو اگر بھول جاوں وہ تو میری نااہلی ہو گی۔ وہ بھی میری شاعری کی اصلاح فرماتے تھے۔ لیکن پچھلے کچھ مہینوں سے وہ بہت مصروف رہے اور انہوں نے اصلاح کرنے سے معذرت کر لی۔
میں اپنی انفرادی گفتگو سے واپس آکر جناب اشہر صاحب کی شاعری کے حوالے سے کچھ عرض کرنا چاہوں گا۔ لیکن پہلے کچھ ان کی شخصیت کے بارے میں کہنا چاہوں گا۔
جناب اشہر اشرف صاحب ضلع بارہمولہ کے دولت پورہ گاؤں میں رہتے ہیں۔وہ پیشے کے اعتبار سے ایک قابل اور ذہین استاد ہیں۔
جناب اشہر صاحب کی شاعری میں انتخابِ الفاظ ، نادر استعاروں اور کنایوں کا برمحل اور برجستہ استعمال ملتا ہے۔
آپ کے کلام کو پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ آپ نہ صرف غزل میں شعر کہتے ہیں بلکہ آپ غزل کے مزاج سے مکمل طور پر آشنا ہیں۔ اگر یوں کہا جائے کہ اشہر اشرف اور غزل ایک دوسرے کے لئے بنے ہیں تو بے جا نہ ہوگا ۔ آپ کی شاعری کی پہچان یہی ہے کہ آپ کا کلام سہلِ ممتنع کی عمدہ مثال ہے۔
آپ کے یہاں کلاسکی شاعری، جدت طرازی اور نئے نئے خیالات کا امتزاج ملتا ہے۔ آپ کے کلام میں سیاسی، سماجی اور اخلاقی مضامین کی خوبصورت مثالیں ملتی ہیں۔ آپ غزل میں مشکل سے مشکل اور دقیق سے دقیق مضمون کو نہایت آسانی اور سلیقے سے برتنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ جناب اشہر صاحب جس سماج اور معاشرے میں سانس لے رہے ہیں، ان کے کلام میں اس کی بھر پور عکاسی ملتی ہے ۔ آپ شاعری میں ۔قصدیت کے قائل ہونے کے باوجود کلاسیکی روش سے بالکل اختلاف نہیں کرتے بلکہ اس کا احترام کرتے ہیں اور کلاسیکیت کو آج بھی غزل کا حسن سمجھتے ہیں۔ جو کہ ان کے کلام کو پڑھ کر قاری محسوس کر لیتا ہے۔
زبان دانی کے حوالے سے بات کی جائے تو آپ کو اردو زبان پر ملکہ حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی تنقیدی نظر پر کسی کے کلام کا پورا اترنا سند مانی جاتی ہے ۔
ان کے کلام میں سادگی اور روانی ہے۔عام طور پر روزمرہ کی عام بول چال کی زبان ان کے سنہرے کلام میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ آپ کے کلام میں فیضؔ کا انقلابی شعور ، جالبؔ کا احتجاج اور اقبالؔ کا پیام ملتا ہے۔ سادگی دیکھی جائے تو میرؔ کا طرزِِ تکلم بھی پایا جاتا ہے ۔ محبوب کی کج ادائیوں کا ذکر ہو تو غالبؔ سے استفادہ کرتے ہیں۔ آپ نے اپنے قلم کو قید نہیں کیا ۔
حالات کے جبر و ستم کے مقابل اشہر اشرف صاحب ایک بے باک اور نڈر قلمکار ہیں۔
۔محترم نے عصرِ حاضر میں ریاستِ جموں و کشمیر میں اردو شاعری کو انقلابی رحجان سے روشناس کروایا۔ان کے کلام میں جدید رنگ و آہنگ کا میلان ملتا ہے۔ موصوف صنفِ نظم میں بھی طبع آزمائی کرتے ہیں اور کئی خوبصورت نظمیں بھی لکھ چکے ہیں۔ آپ جدید غزل کے نواب ہیں۔ادبی حلقوں میں ان کی ایک منفرد پہچان ہے۔وہ اپنے کلام کو ایسے سنہرے الفاظ سے سجاتے ہیں کہ کلام دیکھتے ہی دیکھتے دل کو چھو جاتا ہے۔انہوں نے اردو دنیا میں اپنی ایک منفرد پہچان بنائی ہے۔ان کی شاعری میں زمانے کی عکاسی بھی خوب دیکھنے کو ملتی ہے۔انہوں نے ہر موضوع پر شاعری کی ہے اور ہر نوعیت کے خیالات کو پیش کرنے میں انتہائی مہارت رکھتے ہیں۔
ان کے بارے میں اتنا عرض کروں گا کہ وہ ٹولہ بند ادبی محفلوں میں جانےسے گریز کرتے ہیں۔ اگر شاعری کی بات کی جائے تو گُل،بلبل،چاند،کائنات۔۔۔ محبوب کا سراپا قد کاٹھ ،محبت، عداوت، حُسن ، قدرت کی کاریگری ، وطن پرستی، جذبہء ایثار، زیادتی، عزت، رشتے، سماجی بدعت ، گلاب، عشق وغیرہ وغیرہ جیسے موضوعات ان کے کلام میں ملتے ہیں۔ وہ ہرفن مولا ہیں۔ان کا کلام پڑھ کر ہر کوئی متاثر ہوتا ہے۔اس کے علاوہ محترم اشہر صاحب نے نعت مقبول ، حمد، دعا، منقبت وغیرہ بھی لکھے ہیں۔
شاعری کے علاوہ انہوں نے فکشن کے میدان میں بھی طبع آزمائی کی ہے۔ انہوں نے بہترین افسانے و افسانچے تخلیق کئے ہیں۔ نیزِ ان کے ہاں تنقیدی شعور بھی عمدہ پائے کا ملتا ہے۔ جب بھی موصوف کسی کے کلام نثری یا شعری اصناف پر گفتگو کرتے ہیں تو ایک باکمال اور معتبر نقاد کی طرح کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے حوصلہ افزا کمنٹ کو شعراء کسی اعزاز سے کم نہیں سمجھتے ۔
ان کا کلام رواں، سہل اور مرصع ہوتا ہے۔ ان کا کلام پڑھ کر دل کو سکون محسوس ہوتا ہے ۔ آپ جہاں رہتے ہیں وہیں کی بات کرتے ہیں ۔ تو آئیے بطورِ نمونہ ان کے کلام سے کچھ اشعار مستعار لیتے ہیں جو کہ میں نے ان کی فیس بک سے حاصل کئے ہیں ۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ شاعری کیا ہوتی ہے
اشہر فرماتے ہیں
” میرا قلم اور ذہن ابھی اتنے بالغ نہیں ہوئے ہیں کہ میں ابھی نعتِ پاک لکھنے کی جسارت کروں”
لیکن پھر بھی ان کی وال سے ایک معتبر اور ہر طرح کے شرک سے پاک نعتِ پاک ملی ہے۔
جب ولادت نبی آپ کی ہوگئی
آپ کے آنے سے بندگی ہوگئی
ان کے کلام میں سیاسی شعور کی ایک جھلک ملاحظہ فرمائیے۔
ہمیں ان بیڑیوں کو توڑنا ہے
ہمیں طوقِ غلامی پھینکنا ہے
وہ اپنے مزاج کے عین مطابق لکھتے ہیں اور اپنی ذات کو مخاطب کر کے اپنے معاشرے کی صورت حال کا نقشہ کھینچتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ اشعار دیکھیئے۔
میں روز ہتھیلی پر سر رکھ کے نکلتا ہوں
لیکن میں تصور میں انجام نہیں رکھتا
شاعری میں جدت پسندی اور مقصدیت کی وکالت کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
لفظ سے لفظ ایسے ملاتے چلو
شاعری کچھ نئی تم سناتے چلو
معاشرے میں انسان کی اقدار کی ننزلی اور گرتی ساخت کی تعمیرِ نو کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں۔
تم لبوں پر ہنسی کو سجاتے چلو
پیار سے دل جہاں کے لبھاتے چلو
محبت سے سب کو گلے سے لگاؤ
عداوت کے سارے دئیے تم بجھاؤ
اپنے وطن کی زبوں حالی اور سیاسی ظلم و جبر کی ایسی عکاسی فرماتے ہیں کہ اسے پڑھ کر اندازہ ہو جاتا ہے کہ ان کے دل پر حالات کی بے رحم موجوں نے کتنے زخم لگائے ہیں۔ یہ قطعہ ملاحظہ کیجیئے۔
۔قطعہ
کس کس کو حال اپنا سناٶں گا اے خدا
کیا کیا کہوں گا ،کیا میں چھپاؤں گا اے خدا
کیا لُٹتی آبرو کی کہانی سناٶں ؟یا؟
جلتے ہوئے مکاں میں دکھاٶں گا اے خدا
آپ کے یہاں احتجاج کا شعور ایک انفرادی سطح پر نظر آتا ہے۔ آپ احتجاج اور حق گوئی کے نتائج سے باخبر ہو کر بھی صداقت پر قلم اٹھانے سے نہیں گبھراتے ۔ درجِ ذیل قطعہ ملاحظہ فرمائیے۔
حق کی صدا بلند کی ہے میں نے دیکھنا
اب میرِ شہر میرا مخالف ہو جائے گا
یہ گردشِ زمانہ ہی کیا، باخدا یہاں
میرا تو اپنا سایہ مخالف ہو جائے گا
ایک جگہ لکھتے ہیں۔
حال اپنا جب سنا کے جاؤں گا
اہلِ محفل کو رُلا کے جاؤں گا
اشؔہر معاملہ بندی اور محبوب سے نوک جھونک کے بیان میں بھی کمال کا فن رکھتے ہیں۔ جو کہ درجِ ذیل اشعار میں واضح طور پر نظر آتا ہے۔
وہ ہم سے خفا رہتے ہیں اور ان سے خفا ہم
لیکن کبھی رہتے نہیں ہیں دل سے جدا ہم
وہ ہم کو ستاتے ہیں کبھی ہم بھی ستاتے
اک دوسرے پر دل سے مگر سچ میں فدا ہم
اشؔہر کبھی کبھی قافیہ بندی میں چونکا دیتے ہیں اور قافیہ اور ردیف کا رشتہ خوب باہم ملاتے ہیں ۔فدا ہم۔۔۔کے ساتھ باہم ۔۔۔کا قافیہ لاتے ہیں۔۔اور قاری ورطِہء حیرت میں پڑ جاتا ہے۔اگر متذکرہ اشعار اور درجِ ذیل اشعار کے ساتھ اس شعر کا تقابل کیا جائے تو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
ہم اس کو مناتے ہیں کبھی وہ بھی مناتے
اس طرح سے کٹ جاتی ہے ہم دونوں کی باہم
جیسے کوئی بجلی گرے اس دل پہ ہمارے
چھپ چھپ کے اسے دیکھتے ہیں جب بخدا ہم
اشہر۔۔۔جہاں سیاسی شعور و احتجاج کی بات کرتے ہیں، وہیں عشق اور عاشقی میں بھی کسی سے پیچھے نہیں رہتے۔اس کا اظہار ان اشعار میں ملتا ہے۔
دیوانگی میں کیا ہے وہ فرہاد ، وہ مجنوں
دونوں ہوئے ہیں خاک ، کجا وہ ہیں کجا ہم
ان کے یہاں کلاسیکی شعریت کے بہترین نمونے ملتے ہیں۔آئیے درجِ ذیل اشعار کا لطف اٹھاتے ہیں۔
محبوب کوئی تجھ سا ہو تو کیوں نہ کریں گے
اس شوخ حسیں پر یہ دِل و جان فدا ہم
کیسے کہیں کیا ہم پہ گزرجاتی ہے اس پل
جب دیکھتے ہیں تیرا بدن جانِ ادا ہم
مانا کہ تغافل بھی ہوا ہے کبھی اشہر
لیکن کبھی اک پل نہ ہوئے ان سے جدا ہم
ان کے کلام میں مکالمے کی صورتِ حال بھی ملتی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا کہ جیسے وہ اپنے قاری کے سامنے بیٹھے محوِ گفتگو ہوں۔
موصوف غالب کی طرح اگر ایک طرف محبوب کی کج اداؤں کا ذکر کرتے ہیں تو دوسری جانب ان کےکلام میں ان کے مزاج کا بھی پتا چلتا ہے۔ جو زیرِ نظر شعر میں نظر آتا ہے
کچھ تو ہے بھئی خاص یہاں دونوں میں ہی دیکھ
کج رو ہو اگر تم، تو ہیں دنیا سے جدا ہم
نیزِ ان کے کلام میں ہمیشہ تخلص بہترین اور دلنشین انداز میں برتا جاتا ہے۔ جو کہ یہاں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔
اشؔہر اُسے کوئی کہو سج دھج کے نہ آئے
عالم یہ جنوں کا ہے ہو نا جائیں فدا ہم
اشؔہر اشرف کے ہاں یاس اور نامیدی جیسے مضامین دوسرے شعراء کی طرح نہیں ملتے ۔ وہ جہاں حالات کی ستم ظریفی اور ظلم و جبر کا خوبصورت انداز میں شکوہ کرتے ہیں، وہیں مسقبل قریب میں پُر امید اور پر جوش نظر آتے ہیں۔ وہ سیاسی اور سماجی شعور رکھتے ہوئے اپنے خیالات اور جذبات کا بہترین استعاروں اور خوبصورت کنایوں میں اظہار کرنے میں مہارت رکھتے ہیں۔
وہ ہر طرح کے مضامین کو دلنشین انداز میں اپنی شاعری میں برتنے میں مہارت اور کمال رکھتے ہیں لیکن وہ وقت کے ساتھ نہ صرف خود چلنا جانتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی اسی کی تلقین فرماتے ہیں۔
وہ چاہتا ہے میں بھی حسن و عشق ہی اشہؔر لکھوں
ناداں ہے، میرے شہر سے انجان ہے شاید ابھی
ان کا کلام امید اور آس کا آئینہ دار ہے۔ وہ رونے دھونے کے بجائے ہمت اور حوصلے سے کام لیتے ہیں۔ وہ مسلسل کشمکش اور جدوجہد کے قائل ہیں۔ اس حوالے سے یہ پوری غزل قابلِ توجہ ہے۔
چمن میں پھر بہار لوٹ آئے گی تُو غم نہ کر
خزاں کی فصل بھی گزر ہی جائے گی تو غم نہ کر
اندھیرا لاکھ گہرا ہے مگر تو حوصلہ نہ ہار
کبھی تو روشنی نکل کے چھائے گی تو غم نہ کر
ملے گا ایک دن صلہ بھی جاں فشانی کا تجھے
تری یہ کشمکش بھی رنگ لائے گی تُو غم نہ کر
یہ گردشیں مخالفت تو کر رہی ہیں ان دنوں مگر تجھے یہ زندگی نبھائے گی تو غم نہ کر
تو ہر طرف نگاہ رکھ تو ہر قدم جما کے چل ترقیوں کی روشنی پھر آئے گی تو غم نہ کر
کہیں تو صبح ہو گی اشؔہر اس اندھیری رات کی
کبھی تو صبح آ کے دل لبھائے گی تو غم نہ کر
اشہر اشرف عام فہم موضوعات کو چابکدستی سے خوبصورت پیرائے میں بیان کرنے پر قدرت رکھتے ہیں اور زندگی کے مختلف جہتوں کے گوشے وا کرتے ہیں۔ یہ شعر دیکھئے ۔
ہمیں کام پر جانے دو گی اگر
تبھی روٹی تم کو کھلائیں گے ہم
بظاہر یہ معمولی بات ہے لیکن آپ نے یہاں ایک اہم اور قابلِ توجہ پہلو کو چھیڑا ہے۔ یہی ایک اعلی فنکار کی نشانی ہوتی ہے۔
اشہر اشرف کی شاعری کا مطالعہ کرتے ہوئے احساس ہوتا ہے کہ آپ فیض احمد فیض سے کافی متاثر ہیں۔ ان کے کلام میں دار و رسن سے محبت کے نغمے بھی سنائی دیتے ہیں اور وہ ان سے نفرت نہیں بلکہ محبت کرتے ہیں۔
ایک شعر میں یوں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔
دار پر بھی مسکرائیں گے سدا
گیت آزادی کے گائیں گے سدا
اس طرح آپ اپنے وطن اور سماج سے دور نہیں رہتے ۔
آپ ایک آہنگ کے ساتھ لکھتے ہیں اور غزل کے مزاج اور حسن کا خیال کرتے ہیں۔
احجاج اگر لکھیں گے تو اس کی مختلف کیفیات کا بیان ایک ہی انداز میں کرتے ہیں۔ہر شعر میں ایک نئے مضمون کو بیان کرنے میں قدرت حاصل ہے۔
ایک کلام بطورِ نمونہ پیش ہے۔
رکیں جو کبھی ہم ہلیں گے نہیں
چلیں جو کبھی ہم رکیں گے نہیں
تمہارے قصیدے کہیں گے نہیں
ستم اب تمہارے سہیں گے نہیں
مٹیں گے مگر ہم جھکیں گے نہیں
کبھی حق سے پیچھے ہٹیں گے نہیں
ہماری رگوں میں ہے جب تک لہو
صداقت کے پرچم جھکیں گے نہیں
سجائیں گے مقتل ہمیشہ یہاں
کبھی موت سے ہم ڈریں گے نہیں
سفر زندگی کا کٹے گا نہیں
کہ جب تک مسلسل چلیں گے نہیں
عبادت یہ اشؔہر بھلا کس لئے
صداقت پہ ہم جو مریں گے نہیں
اشؔہر اشرف
آپ کے کلام میں زندگی کے ہر گوشے سے نقاب اٹھاتے ہوئے مضامین ملتے ہیں۔
آپ زندگی کے نازک فلسفے کو عام فہم اور سادہ الفاظ میں اس طرح بیان کرتے ہیں کہ قاری مایوس ہونے کے بجائے زندگی کا لطف اٹھاتا ہے۔
لکھتے ہیں۔
یہ قصہ چند سانسوں کا فقط ہے
چلو ہم لطف لے لیں زندگی کا
آپ مسلسل جدوجہد اور کشمکش میں آدمی کی بقا سمجھتے ہیں۔ اسی کو آپ ظلم و جبر سے نجات کا ضامن بھی سمجھتے ہیں۔ اس حوالے سے زیرِ نظر غزل ایک عمدہ نمونہ ہے۔
طلوعِ نو کوئی مژدہ ہمیں سنائے گا
چمن میں پھر وہی موسم حسین آئے گا
یہ کشمکش تری اک دن تو رنگ لائے گی
جدا ہر ایک سے پہچان تو بنائے گا
جہاں میں ظلم و ستم کا ہے راج اب ہر سو
نہ جانے حشر بھی کب تک خدا اٹھائے گا
قدم جما کے چلو گے اگر اندھیروں میں
زمانہ بھی تجھے ہی رہنما بنائے گا
نظر اٹھا کے ،قدم اپنے تو جما کے چل
جہاں میں منزلِ مقصود تو بھی پائے گا
سفر کھٹن ہے تو کیا غم ہے ، بس سفر ہی تو ہے
سنبھل سنبھل کے چلو گے تو کٹ ہی جائے گا
مرا سفینہ بھی اشؔہر کنارے لگ جائے
کبھی تو معجزہ ایسا خدا دکھائے گا
آپ اپنے قاری کو کبھی اکتاہٹ کا شکار نہیں ہونے دیتے۔ آپ کے ہاں سیاسی، احتجاجی اور انقلابی مضامین کے پہلو بہ پہلو ہجر و وصال کے قصے بھی ملتے ہیں۔ درجِ ذیل اشعار کو دیکھئے۔
ملن تو ہمارا بھی ہوگا کبھی
سدا ہجر میں ہم جلیں گے نہیں
یہ ممکن نہیں ہے شبِ وصل ہو
کہ رخسار کا بوسہ لیں گے نہیں۔
ان کے کلام میں موسیقیت بدرجہ اتم پائی جاتی ہے ۔ کلام شرینی اور مٹھاس سے بھرپور ہوتا ہے۔ جب رومانوی انداز میں لکھتے ہیں تو کلاسیکی غزل کی یاد دلاتے ہیں۔ ایک مکمل کلام ملاحظ فرمائیے۔
اگر ہم جہاں میں رہیں گے نہیں
یقینا وہ ایسے سجیں گے نہیں
کہاں جائیں گے ہم بتا تو سہی
اگر وہ ہماری سنیں گے نہیں
علاجِ غمِ دل بھلا کیسے ہو !
اگر دل کی دل سے کہیں گے نہیں
اگر وہ لبوں سے پلائے ہمیں
بھلا کیسے ممکن ، پئیں گے نہیں
خدارا بتاؤ ملن کیا ہوا
لبوں سےیہ لب جو ملیں گے نہیں
اگر وصل حاصل ہوا ہے کبھی
بنا کچھ کئے ہم رہیں گے نہیں
ہم ان سے یہ اشؔہر کہیں گے ضرور
جدائی ہم ان کی سہیں گے نہیں
ان کے کلام میں زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں ملتا، جس پر خوبصورتی سے قلم نہ اٹھایا گیا ہو۔ بلاشبہ ان کو شاعری وجدان میں حاصل ہوئی اور موصوف جس صنف میں بھی لکھتے ہیں تو اس کا مکمل حق ادا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
ان کی شاعری کو دیکھ کر آدمی حیران ہوتا ہے کہ کس گوشے پر بات کی جائے اور کسے چھوڑ دیا جائے۔
مختصر یہی ہے کہ اشہر صاحب کو شاعری کی ہر صنف پر قدرت حاصل ہے اور آپ لفظوں سے کھیلنے کا فن خوب جانتے ہیں۔
ان کے بارے میں پاکستان کی مشہور و معروف شاعرہ ڈاکٹر ماوراؔ عنایت لکھتی ہیں۔
"جناب اشؔہر اشرف کے کلام کی سادگی۔۔۔ سہلِ ممتنع کا استعمال ۔۔۔ روانی۔۔۔ نئے مضامین کی تلاش۔۔۔۔ احساس و جذبات کی ترجمانی ۔ بہترین الفاظ کا چناؤ۔۔۔ اور شعر کے دو مصرعوں کا باہم پیوست ہونا ان کے کلام کی اعلیٰ ترین خوبیاں ہیں۔۔۔ وہ مشکل ترین بات کو اس سادگی سے بیان فرماتے ہیں کہ شعر سننے والا بے اختیار کہہ اٹھتا ہے کہ یہ بھی میرے دل میں ہے۔۔۔
ان کی شاعری اتنی خوب صورت ہے کہ پڑھنے والا اس سے لطف اندوز ہوتا ہے۔۔۔۔ موصوف کی شاعری سر پر ہتھوڑے کی طرح نہیں برستی۔۔۔۔ چاہے خیال کتنا ہی بھاری کیوں نہ ہو آپ مشکل سے مشکل خیال کو عام بول چال کی زبان میں آسانی سے کہہ لیتے ہیں۔۔۔۔ اور جو لطف وہ شعر کہنے میں لیتے ہیں وہی مزا قاری کے دل میں اتر جاتا ہے۔۔۔”
واقعی اشہر اشرف صاحب کی ذات اور ان کا کلام مثالی ہیں۔بہت خوب لکھا ہے۔مبارک باد پیش کرتا ہوں